کیا منظر رہا ہوگا ان دریا برد ہونے والے زندہ انسانوں
کیلئے جب ان کو اس بات کا مکمل یقین ہوگیا ہوگا کہ اب بچنے کا کوئی ذریعہ
نہیں بچا۔ اس گاڑی کی سیٹ پر بیٹھی ہوئی اس جواں سال لڑکی کا تصور کیجئے جس
کا دم گھٹ رہا ہوگا پانی کی وجہ سے۔ وہ آہستہ آہستہ مرر رہی ہے مگر بہت
تکلیف دہ موت۔کتنے سپنے، کیسے خواب اس دن اس جواں سال لڑکی کے لمحوں میں
اجڑ گئے۔ اس حادثے میں صرف وہ لڑکی نہیں مری بلکہ ساتھ ہی خوابوں کا ایک
جہاں دفن ہوگیا۔
منظر کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑئیے پھر دیکھیں کیا وحشت ناک نظارہ ہے۔ میری
پانچ سال کی بیٹی ہے۔ ویک اینڈ کے بعد چترال آتے ہوئے انہوں نے ڈیمانڈ کیا
تھا کہ واپسی پرمیرے لئے دو کلر بکس لانا ہے۔ گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد سکول
کھلنے والے ہیں اس لئے اس کے لئے نئی سکول ڈریس بھی اسی ہفتے کی ڈیمانڈ میں
شامل ہے۔اس کو پورا یقین ہے کہ اس کے سارے ڈیمانڈ پورے کئے جائیں گے ہمیشہ
کی طرح۔ اب میں گھر سے چترال کے لئے نکلتا ہوں اور راستے میں کسی کی غفلت
کی وجہ سے ڈوب جاتا ہوں۔ میری بیٹی کے انتظار کا اندازہ کریں۔ کیا اس کا
انتظار زندگی بھر کا نہیں ہوگا؟ کچھ دن تو کلربکس اور نئے ڈریس کا
انتظارہوگا۔ پھر انتظار کی نوعیت بدل جائے گی۔ کلر بکس، ڈریس اور پاپا کا
انتظار شروع ہوگا۔ پھر کلر بکس اور پاپا کا انتظار۔ پھر کلر بکس اور ڈریس
یادداشت سے مٹ جائیں گے یاد رہے گا تو صرف پاپا۔ پاپا کی چھوٹی انگلی، جسے
پکڑ کر وہ دنیا جہاں بھول جایا کرتی ہے۔ رات کو اٹھ کر پاپا کے سینے پر چڑھ
کر سونا یاد رہے گا۔ پاپا کے موبائل پر موجودگیمز یاد آئیں گے، پاپا کو
سنائے گئے نظمیں یاد آئیں گی، گھر آتے ہوئے پاپا کی ٹانگوں سے لپٹنا اور ان
کو ہلنے نہ دینا یاد رہے گا۔ پاپا کی گھر میں موجودگی سے اپنے تحفظ کا
احساس یاد آئے گا۔ یہ بیٹیاں سب کے گھروں میں موجود ہیں اسی جذبے اسی احساس
کے ساتھ۔ آج ذمہ داروں نے کتنی بیٹیوں کو ہمیشہ کے لئے پاپا سے جدا کردیا۔
وہ سب آج صبح اپنے اپنے پاپا سے ڈیمانڈکرچکے ہوں گے۔ ان کے بھی سکول کھل
رہے ہیں ان کو بھی کتابیں، پنسل اور کلربکس چاہئے۔ سکول کے لئے نئے ڈریس
چاہئے۔ اور آپ نے ان کے تحفظ کے احساس کو لاش بنادیا۔
حاجی مغفرت شاہ صاحب فرما رہے ہیں کہ آئندہ جماعت اسلامی یوتھ ونگ کا
سربراہ اسماعیلی کمیونٹی سے ہوگا۔ حاجی صاحب اسماعیلی کمیونٹی سے اگر کوئی
جے آئی یوتھ کا سربراہ بنتا ہے تو اس سے دریا برد ہونے والے افراد کے
خاندانوں کو کیا فائدہ ہوگا۔ کسی ادارے یا سیاسی پارٹی کی سربراہی ملنے سے
لاشیں زندہ ہوجاتی ہیں؟ حاجی صاحب خدا را! روڈ سے ملبہ ہٹاؤ، روڈ کشادہ کرو،
اداروں کو کام کرنے کا پابند بناؤ، جو کام نہیں کررہے ہیں ان کو قانون کے
دائرے میں رہ کر سزادو اور سزا دلاؤ، جزا دو اور جزا دلاؤ۔نمائندوں کی غفلت
کی وجہ سے ادارے اپنا کام بروقت اور صحیح طریقے سے نہیں کررہے ہیں جس کی
وجہ سے دو سال کے اندر 18 افراد اسی ایک جگہ لقمہ اجل بن گئے۔ آپ آج بھی
تماشا دیکھ رہے ہیں۔ بحیثیت ضلعی سربراہ آپ کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ آپ
ذمہ داروں کا تعین کریں اور ان کو کڑی سے کڑی سزا دیں، عبرت کا نشان بنائیں۔
فکس دیم حاجی صاحب، فکس دیم۔ ورنہ تاریخ لکھے گا کہ آپ بھی بچیوں کے تحفظ
کے احساس کو لاش بنانے کے جرم میں شامل تھے۔
سلیم خان صاحب فرما رہے ہیں کہ اﷲ پاک مرحومین کو اپنے جوار رحمت میں جگہ
عطا کرے۔لوگوں نے آپ کو دعائے مغفرت کرنے کے لئے ووٹ نہیں دیئے ہیں۔ اپنے
مسائل میں کمی لانے اور زندگی میں آسائشیں پیدا کرنے کے لئے ووٹ دیا ہے۔ آپ
ہر ایکسڈنٹ کے بعد لواحقین کے پاس جاکر ان کے گھروں میں جا کر ملتے ہیں۔ ان
کے غم میں شامل ہونے سے کسی کا پا پا واپس آیا ہے۔ کیا آپ نے ان بچیوں کو
ان کے تحفظ کا احساس لوٹایا ہے۔ اس دفعہ جب آپ ووٹ مانگنے جاؤ گے کسی نے یہ
سوال کیا کہ ان کے پاپا کے قاتلوں کا کیا بنا؟ آپ کے پاس اس سوال کا جواب
ہے؟ آپ ایک لیڈر کی حیثیت سے کیا گزشتہ سال کے ایکسڈنٹ جس میں نو افراد جاں
بحق ہوئے تھے کے بارے میں معلومات لینے کی کوشش کی ہے۔ کیا علاقے کے
نمائندے کی حیثیت سے آپ نے کبھی متعلقہ اداروں سے یہ پوچھنے کی جسارت کی ہے
کہ اتنی تنگ سڑک پر ملبہ کیوں جمع کیا جارہا ہے۔ اگر کوئی تعمیراتی کام ہی
ہونا تھا تو چھ مہینے تک وہ مکمل کیوں نہیں ہورہا ہے۔ یا پھر اب آپ کسی کو
فکس کریں گے؟ کسی ذمہ دار کی ذمہ داری کا تعین کریں گے۔ اور 18 افراد کی
ایک ہی مقام پر غیر حقیقی موت کے بعد کسی کو سزا ملے گی؟۔ یا پھر آپ نے بھی
کسی کیلاش نوجوان کو پی پی پی کے یوتھ ونگ کا سربراہ بنانے کا فیصلہ کرکے
خوشی منائیں گے۔
اصل قاتلوں کا تعین ابھی باقی ہے۔ کیا ڈاکٹر فیضی کو اس سلسلے میں چپ کا
روزہ ہی رکھنا چاہئے۔ کیا پروفیسر ممتاز حسین بھی خاموش رہیں گے۔ مشہود
شاہد کچھ بولے گا؟۔ نور شمسی اور ظہور الحق دانش یقینی بات ہے کسی کو ناراض
کرنے کی جسارت نہیں کریں گے۔ عطا حسین، بشیر حسین آزاد اور جاوید حیات اس
سلسلے میں کچھ نہیں لکھیں گے۔ یہ سب صرف اچھا اچھا لکھنے کے عادی ہیں۔ قاری
فدا، طاہر الدین شادان، احسان شہابی اور ظفر اﷲ صرف ایسے موضوعات پر لکھتے
ہیں جس سے معاشرے کی اصلاح ہو۔ کب ہوگا یہ نہیں پتہ۔شیر جہاں ساحل اور کریم
اﷲ شاید ہی اس پر لکھیں یہ دونوں ایسے ہلکے موضوعات پر لکھنا پسند نہیں
کرتے۔ کیا ہم سب اس جرم میں برابر کے شریک نہیں ہیں؟ اگر ہم جرم کو جرم
نہیں بولیں گے تو اصلاح کیسے ممکن ہے۔ ہم میں سے کسی کے پاس کوئی کنفرمیشن
ہے کہ ہم یا ہمارا کوئی قریبی عزیز اس طرح کے غیر حقیقی موت کا شکار نہیں
ہوگا۔ ہماری یا ہمارے کسی پیارے کی موت پر بھی دنیا خاموش رہے تو کیا پھر
بھی ہمارا رویہ یہی ہوگا۔ آؤ آج سب مل کر ذمہ داروں کا تعین کریں اور ان کو
ملکی قوانین کے مطابق قرار واقعی سزا دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ورنہ
مرحومین کے لئے ہماری دعائے مغفرت ایک قاتل کی دعائے مغفرت جیسی ہی ہوگی۔ |