زوالِ معاشرہ میں علماء و مشائخ کا کردار
The role of scholars in getting society's fall
دور العلماء في سقوط المجتمع
مذہبی قیادت (علماء و مشائخ، صوفی و پیر حضرات ) قوموں کے عروج وزوال
میں غیر معمولی کردار ادا کرتی ہے۔اخلاقی اطوار و اقدار کو فروغ دے کر
یہ نہ صرف معاشرے میں استحکام پیدا کرتی ہے ، بلکہ اجتماعی قومی زندگی
کی مشکلات و مصائب میں یہ سب سے بڑھ کر افراد کا حوصلہ بلند رکھتی
ہے۔اسی طرح قومی مفادات کے حصول کے لیے جس اجتماعی تحریک وتوانائی کی
ضرورت ہوتی ہے ، وہ بھی مذہبی قیادت ہی فراہم کرتی ہے۔ اس اعتبار سے
قوموں کی زندگی کے کٹھن لمحات میں مذہبی قیادت غیر معمولی کردار ادا
کرکے قوم کو عروج کی طرف لے جا سکتی ہے۔اس کے برعکس بعض اوقات مذہبی
قیادت پوری قوم کو بے عملیت ، گمراہی و ضلالت ، جمود اور پستی کی طرف
لے جاتی ہے، خود اخلاقی انارکی کا شکار ہوکر، ایک دوسرے کے متضاد ہو کر،
آپس میں تفرقہ و انتشار ڈال کر یا اہل اقتدار کی آلہ کار اور اپنے
مفادات کی حریص ہوکر۔ ان تمام صورتوں میں یہ قومی زوال کا اہم ترین سبب
بن جاتی ہے جیسا کہ آج کا منظر اس کی عکاسی کرتا ہے۔
اللہ کریم نے قرآن مجید میں انسان کو بے را ہ راوی اور اخلاقی پستی میں
گرنے سے باز رکھنے کے انتہائی سخت لب ولہجہ اختیار کیا اور شدید اُخروی
عذاب کی وعید یں دیں تا کہ انسان سخت اُخروی عذاب کے خوف سے ڈر کر کسی
طرح بھی بے راہ روی میں نہ بہک سکے۔دین اسلام کی اس امتیازی خصوصیات سے
کسی غیر مسلم کو بھی مجال انکارنہیں کہ اسلام نے دنیا سے انسداد فواحش
کا جس طرح اہتمام کیا ہے اس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے مذہب میں نہیں
ملتی ۔
اسلام نے بدکاری و بداخلاقی پر شدید آخروی عذاب سنانے کے علاوہ دنیا
میں بھی اس کی بڑی بھاری سزائیں مقرر کی ہیں اور پھر اسی پر قناعت نہ
کی بلکہ بدکاری و بداخلاقی کے تمام ذرائع اور وسائط کو بھی بدکاری ہی
کا شعبہ قرار دیتے ہوئے انہیں نہایت سختی سے بین کیا اور بدکاری تک
پہنچنے والے ہر راستے پر ایک مضبوط بند باندھا۔ انبیائے کرام علیہ
الصلوۃ و السلام کی عملی زندگی اس پر مہرِ ثبت ہے کہ انہوں نے احکامِ
دین کے اجراء کے معاملہ میں کبھی کسی سے بھی رعایت نہیں برتی خواہ وہ
ان کے قریبی یا خاندان کے افراد ہی کیوں نہ تھے۔ ہمارے آقا و مولا ﷺ نے
اپنی پیاری بیٹی کی حد تک فرمایا دیا کہ ’’ خدا کی قسم ! اگر میری بیٹی
فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی چوری کرتیں تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔
کیونکہ اب نبوت و رسالت کا سلسلہ ہمارے آقا کریم ﷺ پر ختم ہو چکا، اور
حضور ﷺ نے علماء کو اپنا وارث قرار دیا، کہ اب قیامت تک فریضہ نبوت
ورسالت اور خلافت کی ادائیگی، امر بالمعروف ا ور نہی عن المنکرکی ذمہ
داری علماء کی ہے کہ وہ امت کو دین کی مضبوط زنجیر میں جکڑ کے رکھیں
اور گمراہی و ضلالت میں نہ پڑنے دیں اور دین کے اجراء کے معاملہ میں
کسی سے کوئی رعائت نہ برتیں۔ مگر ہمارے کاہل ملاں اور جاہل صوفیوں نے
کیا کردار ادا کیا، سب سے پہلے تو انہوں نے امر بالمعروف و نہی عن
المنکر کا پوری طرح حق ہی ادا نہیں کیا جیسے کہ انہیں کرنا چاہیے تھا
اور اس کے تقاضوں پر پورے نہیں اترے۔دوسرا یہ کہ انہوں نے عوام الناس
کو راہ راست سے بھٹکنے اور بے راہ راوی کا شکار ہونے پر سخت لب و لہجہ
اپنانے اور آخرت کے شدید غضب ناک عذاب سے ڈرانے کی بجائے عوام کی طبع
کے مطابق نرم لب و لہجہ اپنایا ا ور خدا کے غضب سے ڈرانے کی بجائے خدا
کی ستاریت (عیبوں کو چھپانے)، غفاریت (معاف کرنے، بخش دینے)، رحیمیت
(رحم کرنے)، کریمیت (کرم کرنے )، رحمن (سب سے بڑھ کر مہربان ہونے) کے
خواص ان کے سامنے رکھے کہ وہ بہت رحمن ہے، بہت رحیم ہے، بخشن ہارے ہے
معاف فرما دے گا۔وہ تومعاف کرنے اور بخشش کے لیے بہانے ڈھونڈتا ہے۔
حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے دور کا ایک سو بندوں کے قاتل کاواقعہ
ہزاربار سن چکا ہوں علماء کی زبانوں سے کہ وہ کس طرح بخشا گیا۔ آپ ملک
بھر کی کسی بھی مسجد میں چلے جائیں ، جمعہ کے خطبات سنیں، محافل کے
بیانات سنیں آپ کو موضوع بخشش کے، وسیلہ کے، کرم، رحم و مغفرت، شفاعت و
رحمت کے، شخصیات کے فضائل وکرامات اورمقام و مرتبت کے، دنوں اور مہینوں
کے فضائل کے، مخصوص ایام کے فضائل سننے کو ملیں گے نہ کہ بد اخلاقیات،
بدکاری و فحواشات،موسیقی، ڈرامہ و فلم بینی، ضلالت و گمراہی اور دین سے
بے راہ راوی پر خدا کے غضب و قہر سے ڈرانے ، اور آخرت کی سخت وعیدیں
دینے کے، اور نہ دین سے غافل ہونے پر مَعِیْشَۃً ضَنْکًا اور
نَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰی کے غضب سے ڈرانے کے۔
اگر ستار، غفار، رحمن، رحیم ، کریم خدا کے اوصاف ہیں توعلماء بتائیں
شدید العقاب کون ہے؟ واحد القوی القہار کس کا نام ہے؟ جبار کون ہے؟خافض
اور مذل، پست کرنے اور سخت ذلت دینے والا کون ہے؟ منتقم و الضار کون
ہے؟سخت بدلہ لینے اور سخت سے سخت تر عذاب دینے والا کون ہے؟ کیا خدا کے
یہ اوصاف کم ظرف علماء کو نظر نہیں آتے؟
معاذ اللہ مجھے خداوند کریم کے ان خواص(ر حمن و رحیم ہونے) سے مجال
انکار نہیں، مگر جب امت گمراہ ہو چکی ہو، اخلاقی درندگی، بدکاری و بے
راہ راوی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوب چکی ہو تو اس وقت ایسے خواص
بیان کرنے سے مسائل کا حل نہیں ہوگا۔ لوگوں کو چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر
خدا کے بڑے بڑے عذاب سے ڈرانا ہو گا نہ کہ بخشش و مغفرت کے بہانے ،
طریقے اور وسیلے بتا کر۔ اگر ملاں جی کااپنا بیٹا انتہائی بدکارو
بدکردار ہو چکاہو تو کیاوہ اسے اپنے اچھے اوصاف بتا کر راہ راست پر لا
سکیں گے؟ قطعاً نہیں، وہاں سخت لہجے اور ڈنڈے سے کام لینا پڑے گا۔ اگر
تم ایسا نہیں کرو گے تو وہ مزید تاریکیوں میں پڑتا چلا جائے گا کہ باپ
تو کچھ نہیں کہتا معاف کر دیتا ہے پھر کاہے کا ڈر۔
علماء نے قرآن سے سبق نہیں سیکھا۔ اللہ کریم نے قرآن میں جہاں فواحشات
اور بداخلاقی سے باز رکھنے کی بات کی وہاں پہ ا نتہائی سخت لہجہ اپنایا
اور باز نہ آنے پر دنیا و آخرت میں غضب ناک عذاب کی وعیدیں سنائیں۔ اور
جہاں پہ رشد و ہدایت کا درس دیا وہاں ان پر عمل پیرا ہونے پر اپنے
انعامات، رحم و کرم، تواب الرحیم ہونے ، بخشنے والے مہربان کا پیغام
دیا مگر آج کے ہمارے ملاؤں نے الٹی روش اپنا لی۔
آج کے علماء ہمیشہ رٹی ہوئی تقریریں، نقل کیے ہوئے واقعات، سنی سنائی
باتیں بغیر تصدیق کیے، فضائل ، کمالات، بخشش و شفاعت پر بات کرتے ہیں
امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر نہیں۔سختی سے برائی سے روکنے اور بدی
سے باز رکھنے کی حکمت عملی اختیار نہیں کرتے۔ علماء کیوں لوگوں کو خدا
کا خوف اور غضب یاد نہیں دلاتے؟ کیا آج تک کسی عالم نے کھلے عالم محافل
و مجالس میں رواعتی تقاریر سے ہٹ کر بد اخلاقیات اور معاشرتی برائیوں،
موسیقی، ڈرامہ و فلم سازی پے بات کی؟ کیا کسی بھری محفل میں یا جمعہ کے
خطبات میں علماء نے معاشرتی ناسوروں کو اپنی خطابت کی گرج چمک کی نظر
کیا؟ ہمیشہ علماء سے یہ سنا کہ فلاں عمل سے اتنے سالوں کے گناہ معاف،
فلاں عمل سے اتنے سالوں کے، حتیٰ کہ دو، چار رکعت نماز کے عوض سو سو
سال کے گناہ معاف کے فارمولے اور طور طریقے ملتے ہیں علماء اور صوفیوں
کی وظائف کی کتابوں میں۔ کیا کبھی یہ بھی کسی نے درس دیا کہ فلاں برے
اعمال پے فلاں اور اتنے سالوں کی سزا ملے گی اور فلاں پے اتنے کی؟ کیا
آج تک کسی عالم نے کھلے عالم محافل میں لوگوں کو موسیقی ڈرامہ و فلم
سازی اور فحش بینی پر خدا کے غضب سے ڈرایا اور اس کی سزا ء و جزا کا
حساب لگا کر عوام کے سامنے رکھا؟ ؟؟
اک معروف عالم نے کم علم ملاؤں کو واعظ کے اطوار سیکھانے کیلئے سال کے
بارہ مہینوں کی مناسبت سے بارہ تقرریں نامی کتاب لکھ دی، اس طرح کی اور
بہت سی سال بھر کی تقاریرکی کتابیں موجود ہیں۔سال کے بارہ مہینوں کا
وظیفہ و کورس دے دیا مساجد کے ملاں حضرات کو ، کہ سال بھر انہی کو
دہراتے رہنا ۔عمومی طور ملاں جی حضرات نے انہی کتابوں کا رٹا لگا رکھا
ہے۔سالہا سال انہی کو دہرایا جاتا ہے اور مجال ہے ان کتابوں میں
ماسوائے فضائل و کمالات ، مقام و مرتبت کے، شفاعت و بخشش کے، معاشرہ کی
اخلاقی پاکیزگی و پاکدامنی کو برقرار رکھنے کے گُرملتے ہوں، یا قوم کو
بدکاری و بد کرداری سے باز رہنے کے ڈھنگ اور طور طریقے سیکھائے گئے ہوں
یا غفلت، سر کشی و بے راہ راوی پر سخت لب و لہجہ اور وعیدیں ملتی ہوں۔
میں سمجھتا ہو ں ہمارے کاہل ملاں اور جاہل صوفی، پیر و مشائخ حضرات آج
کی معاشرہ کی بدکرداری،بے عملیت، ضلالت و گمراہی اور اخلاقی تباہی و
بربادی اور بیخ کنی کے ذمہ دار ہیں۔ آج جو قوم میں اتنا بگاڑ پیدا ہو
چکا یہ ان کی مجموعی غفلت کا نتیجہ ہے۔ یہ فریضہ نبوت و رسالت اور
فریضہ خلافت کی ادائیگی میں پوری طرح ناکام رہے ہیں اور اس کا حق ادا
نہیں کیا جیسا انہیں کرنا چاہیے تھا۔ ماسوائے محدود چندتمام ملاؤں،
صوفیوں، باباؤں، نام نہاد پیروں اور گدی مکینوں نے قرآن سے پھونک مار
کر لوگوں سے نذرانے لینا اور پیسے بٹورنا سیکھا اور سیکھایا۔مذموم اور
گھناؤنے مقاصد کے حصول کیلئے قرآنی آیات کی مشق، ورد ، وظیفے اور
تجزئیے کیے کہ فلاں آیت سے یہ غرض نکل سکتی اور فلاں سے یہ۔ فلاں آیت
سے فلاں مقصد کا یہ تعویذ، فلاں سے فلاں مقصد کا یہ۔
ایسے فارمولے اور حکمتیں تو بہت یاد ہیں علماء و مولوی حضرات کو مگر
دنیا میں سر اٹھا کرعزت و وقار سے جینے کی حکمت عملی اور گُر کسی نے
نہیں سیکھائے قوم کو۔ علماء نے قرآن سے آسانی سے مرنے کا ڈھنگ تو ڈھونڈ
نکالا کہ جو جان کنی کی تکلیف میں مبتلا ہو ، جس کی جان آسانی سے نہ
نکل رہی ہواس پر سورہ یٰسین پڑھ دو آسانی سے نکل جائے گی، مگر جینے کے
ڈھنگ نہ سیکھ پائے نہ سیکھا پائے۔ کاش کہ علماء نے لوگوں کو قرآن سے سر
اٹھا کر عزت و سربلندی کے ساتھ جینے کے اطوار سیکھائے ہوتے۔ہم نے قرآن
کو صرف گھر اور دوکان میں خیرو برکت رکھا، تعویذ دھندے کے لئے رکھا،
کچہری میں سر پے اٹھانے کیلئے رکھا، کسی کے مر جانے پر ایصال ثواب
کیلئے پڑھا، کسی محفل، مجلس، اجلاس یا کسی بھی تقریب کے آغاز میں دو
آیتیں باعث برکت پڑھنے کے لئے رکھا۔ کیا قرآن کے نزول کا مقصد یہ تھا؟
کیا قرآن دنیا میں محض رسماً پڑھ کر ثواب کمانے کے لئے نازل ہوا، زندگی
میں عملی طورپر اپنانے کیلئے نہیں؟
ہم نے قرآن کوکتاب برکت و مغفرت سمجھ لیا، کتاب زندگی، کتاب جاویدانی
اور مکمل ضابطہ حیات نہیں سمجھا۔ ہم جاہل صوفی اور کاہل ملاؤں کے ایسے
پھندے میں پھنسے کہ قرآن سے راہنمائی نہیں لی، قرآن سے زندگی تلاش نہیں
کی، قرآن سے کامیاب زندگی بسر کرنے کے گور نہیں سیکھے۔ قرآن سے دنیا
میں عزت و وقار کے ساتھ سر اٹھا کر جینے کے ڈھنگ نہیں سیکھے۔ میں تو آج
اس نتیجہ پر پہنچا مگر حکیم الامت حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ
اللہ علیہ نے آج سے سو سال پہلے علماء کی غفلت کے اس نتیجہ کو پرکھ کے
فرما دیاتھا کہ یہ سب جاہل صوفیوں اور کاہل ملاؤں کی غفلت کا نتیجہ ہے
کہ آج مسلم معاشرہ ذلت و پستی کی اس نوبت تک پہنچا ہے۔ فرمایا
بہ بند صوفی و ملاں اسیری
حیات از حکمت قرآن نگیری
بہ آیاتش تورا کاری جز این نیست
کہ از یٰسین او آسان بمیری
ہمارے معاشرہ میں صرف کسی مسلمان گھرانے میں پیدا ہوجانا کافی سمجھا
جانے لگا ہے، اس کے بعد ہمارے لیے فسق و فجور کی راہیں کھلی ہیں، جیسی
چاہیں فاسقانہ زندگی بسر کریں ،جیسی چاہیں قرآن و سنت سے انحراف اور
روگردانی کرلیں،دین سے بھٹک جائیں، انکارِ خدا تک نوبت آ جائے ، پوری
کی پوری زندگی غیراللہ کی اطاعت میں دے دیں ، اللہ کے قانون کی جگہ اہل
باطل کا قانون رائج کر دیں ، اللہ کی دی ہوئی ہر شے راہ کفر میں نثار
کر دیں لیکن نہ جنت کے ملنے میں کوئی شک، نہ بخشش میں کوئی شک، نہ
شفاعتِ رسولﷺ میں کوئی شک ۔
ہمارے ہاں علماء کے تصوف و مہربانیوں سے لوگوں میں یہ تصورعام پایا
جاتا ہے کہ ’’ کیونکہ ہمارے نبی کریم ﷺ شافع محشر ہیں ، اللہ تعالیٰ کے
بہت محبوب ہیں، اللہ رب العزت ان کی ہر بات مانتے ہیں ، ان کی رضا رب
کی رضا ہے، ان کی امت ہونے کے ناطے ان کی شفاعت ہم پر واجب ہے۔ہم چاہے
جیسی زندگی بسر کریں ، چاہے ہمارے پلڑے میں جتنے گنا ہ ہوں گے ، جتنی
غلطیاں ، زیادتیاں، گستاخیاں، والدین کی نافرمانیاں ہوں گی بلا آخر وہ
ہمیں شفاعت رسول ﷺ کے صدقے معاف کر دی جائیں گی اور اس طرح ہم جنت میں
چلے جائیں گے، اگر ہم میں سے کوئی دوزخ میں چلابھی گیا تو بہت جلد اس
کی بھی شفاعت ہوجائے گی اور اسے دوزخ سے نکال کر جنت میں ڈال دیاجائے
گا۔ لوگوں کے ذہن علماء کی گناہوں کی بخشش، مغفرت، شفاعت و رحمت کی
باتیں سن سن کے گمراہی اوربدعملی کی طرف جا رہے ہیں کہ فلاں فلاں اعمال
کرنے سے گناہ تو معاف ہو ہی جانے ہیں تو پھر ڈر کیسا۔ اے نادانو ! یہود
بھی تو یہی کہا کرتے تھے
لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّا اِیَّامًا مَّعْدُوْدَۃً o
’’اگر ہم آگ میں ڈالے بھی گئے تو آگ ہمیں نہ چھوئے گی مگر گنتی کے چند
روز۔‘‘
اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَاللّٰہِ عَہْدًا فَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰہُ عَہْدَہ
اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَالَا تَعْلَمُوْنَ o
’’کیا تم نے اللہ سے جنت کا کوئی عہد یا گارنٹی لے رکھی ہے کہ اللہ
ہرگز اس کے خلاف نہیں کرے گا یا تم اللہ کے بارے میں یوں ہی من گھڑت
بات کہتے ہو۔‘‘
کیا عیسائیوں کے عقیدہ کفارہ سے ہمارے عقیدہ شفاعت کی مماثلت جڑتی نظر
نہیں آ رہی۔ جیسے عیسائی کہتے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سولی پر چڑھ
کر ہمارے سب گناہوں کا کفارہ ادا کر گئے اب ہمیں بخشش کیلئے قیامت تک
کوئی نیک عمل کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اور ہمارا عقیدہ بھی یہی ہے کہ ہم
کوئی نیک عمل کریں نہ کریں ہماری رسول اللہ ﷺ کے صدقے شفاعت ہو جائے
اور ہم جنت چلے جائیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے تو پوری کائنات کو واشگاف الفاظ میں یہ نوٹس دے
دیاہے کہ
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہ‘وَمَنْ یَّعْمَلْ
مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہ‘o
’’جس نے ذرا برابر بھی نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا اورجس نے ذرا
برابر بھی برائی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔‘‘
بَلٰی مَنْ کَسَبَ سَیِّءَۃً وَاَحَاطَتْ بِہٖ خَطِیْءَتُہ‘
فَاُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (البقرۃ
81:2)
’’ہاں کیوں نہیں ، جس نے کوئی خطا ( برائی ، زیادتی یا گناہ) کیے ہوں
گے وہ ضرور اس کو گھیر لیں گے اوروہ دوزخ والوں میں سے ہوگا اور اس میں
ہمیشہ رہے گا۔‘‘
جہاں تک شفاعت کا تعلق ہے۔ شفاعت کر نے والا ، شفاعت کر دے گا لیکن اگر
شفاعت کرنے والے کی بات اور اس کے اعمال (جس کیلئے شفاعت کی گئی) رحمن
کو پسند آئے تومعاف فرمائے گا ورنہ کبھی معاف نہیں فرمائے گا۔ قرآن
مجید میں اللہ رب العزت نے پوری انسانیت کو کھلے لفظوں میں یہ نوٹس دے
دیا ہے
یَوْمَءِذٍ لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ
الَّرحْمٰنُ وَ رَضِیَ لَہ‘ قَوْلًاo یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ
وَمَا خَلْفَھُمْ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِہٖ عِلْمًاo وَعَنَتِ
الْوُجُوْہُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوْمِ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًاo
وَمَنْ یَعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخٰفُ
ظُلْمًا وَلَا ھَضْمًاo
’’اس دن کسی کی شفاعت کام نہ دے گی مگر اس کی جسے رحمن نے اجازت بخشی
اور پھر اس کی بات کو بھی پسند فرمایا۔ وہ جانتا ہے جو کچھ اس کے آگے
ہے اور جو کچھ اس کے پیچھے ، اور اس کا علم اسے نہیں گھیر سکتا ( یعنی
شفاعت کرنے والے کا علم اللہ تعالیٰ کے علم کا احاطہ نہیں کر سکتا ، یہ
ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سفارش کر نے والا صرف اسی کی سفارش کرتا ہے جس
کے بارے میں وہ تھوڑا بہت جانتا ہواور وہ انہی الفاظ میں اس کی سفارش
کرے گا جو اسے معلوم تھے۔لیکن اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مجھے اس (بندے)
کے بارے میں سفارش کرنے والے کی نسبت زیادہ علم ہے) اور سب منہ جھک
جائیں گے اس زندہ قائم رہنے والے کے حضور، اور بیشک وہ نامراد رہا جس
نے ظلم کیا (گناہوں کا بوجھ اٹھایا)اور جس نے نیک عمل کیے ہوں گے اور
وہ ہو بھی سچا مسلمان ، تو اسے نہ کسی قسم کی زیادتی کا خوف ہو گا
اورنہ نقصان کا۔‘‘ (طہٰ 109:20)
اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ آخرت کی بے خوفی و اطمینان صرف اسی کیلئے
ہے جو عمل بھی نیک کرے اور ہو بھی سچا مومن مسلمان ، اور سچا مومن
مسلمان وہ ہے جو اپنے نفس اور اس کی حیوانیت پر اس طرح قابو پا لے کہ
پھر زندگی کے کسی گوشے میں بھی اس کی حیوانی خواہشات اور نفسانی جذبات
اس کے نفس پر غالب نہ آ سکیں بلکہ اس کا نفس اس کی ان خواہشات وجذبات
کو اس قدر زیر کر لے کہ کوئی بڑے سے بڑا خوف، لالچ، حرص، نفع و نقصان
بھی اسے اطاعت الٰہی اور حدود اللہ کی پابندی و احترام سے نہ ہٹا سکے
اور وہ دنیا کی سب چیزوں سے بے نیاز ہو کر اپنی جان ومال سب اللہ کی
بندگی اور اس کے دین کی سربلندی کیلئے وقف کر دے۔
ایک اور آیت مبارکہ میں اللہ کریم کا یہی پیغام ملتا ہے۔
یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلآءِکَۃُ صَفَّا لَّا
یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَ قَالَ
صَوَابًاo ذٰلِکَ الْیَوْمُ الْحَقُّ فَمَنْ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰی
رَبِّہٖ مَاٰ بًاo اِنَّا اَنْذَرْنٰٰکُمْ عَذَابًا قَرِیْبًا یَّوْمَ
یَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّ مَتْ یَدٰہُo
’’اس روزجبرائیل اور فرشتے قطاریں باندھے دم بخود کھڑے ہوں گے ۔ کسی کی
مجال نہیں ہوگی کہ رحمن کی اجازت کے بغیر لب تک ہلا سکے مگر جس کو رحمن
اجازت دے۔( اگر کسی کو اجازت مل بھی گئی تووہ بالکل مناسب، درست اور
واجب بات ہی عرض کر سکے گا۔ اب خوب کان کھول کر سن لو) یہی وہ سچا دن
ہے جو آ کر رہے گا۔اب جس کا جی چاہے اپنے رب کے ہاں اچھا ٹھکانہ بنانے
کی فکر کر لے( ہم نے حجت پوری کر دی ہے) اور تمہیں اس عذاب سے آگاہ کر
دیا ہے جو انتہائی قریب آن پہنچا ہے۔ اس دن ہر شخص دیکھ لے گا جو کچھ
اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا۔‘‘ (النَّبَا 38-40 : 78)
اے لوگو!خدا کیلئے اپنا منہ سیدھا کرو اللہ رب العزت اور اس کے پیارے
رسول ﷺ کی اطاعت کاملہ کی طرف۔کیا قصداً ، ا راداتاً یا اس نیت سے کیے
گناہ معاف ہو جائیں گے کہ حضور شافع ہیں ان کی شفاعت کی صدقے بخش دئیے
جائیں گے، اور ان پر کوئی سزا و جزا نہیں ہو گی؟ کیا دین کوئی مذاق،
کھیل اور تماشا ہے کہ گناہ کو گناہ سمجھتے ہوئے بھی کر لیا اور پھر
توبہ کرلی، پھر کر لیا پھر توبہ کرلی، پھر کر لیا پھر توبہ کرلی۔کیا
ایسی توبہ قبولیت کا درجہ رکھتی ہے۔اللہ کے نزدیک توبہ صرف وہی قابل
قبول ہے جو ایک بار غلطی سے، کم ظرفی سے غیر اراداتاً سرزد ہو جائے اور
پھر وہ توبہ پوری زندگی کے لیے عبرت بن جائے اور گناہوں، بدکاریوں اور
فحواشات کے قریب تک نہ جانے دے۔ایسی توبہ اللہ کو پسند اور محبوب ہے
جسے اللہ کریم نے توبۃ النسوع فرمایا ہے۔
ٍ جہاں تک حضور ﷺ کی شفاعت کا تعلق ہے، میں معاذ اللہ شفاعت کا منکر
نہیں ہوں، آقا کریم ﷺ کی شفاعت برحق ہے، بلکہ شفاعت آپ ﷺ کا مقامِ
محمود ہے۔ اور آپ ﷺ اپنے مقامِ محمود کے صدقہ میں ہر اس شخص کو دوزخ سے
نکال کر جنت میں داخل فرمائیں گے جس نے زندگی میں صرف ایک مرتبہ کلمہ
طیب پڑھا ہو، اللہ رب العزت کی واحدنیت اور حضور ﷺ کی رسالت کادل سے
اقرار کیا ہو،مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری شرط ہے کہ اس نے آپ ﷺ
کے متعین کردہ ضابطہ حیات (نظامِ زندگی ) ، سیرت و اخلاق سے کبھی کسی
نقطہ کا بھی اعتراض نہ کیا ہو اور نہ غفلت برتی ہو۔ جنہوں نے آپ ﷺ کے
متعین کردہ نظامِ حیات (قرآن و سنت ) کے کسی ایک نقطہ سے بھی اختلاف
کیا ہوگا یا اس پر پوری طرح عمل نہ کیا ہو گا ، آپ ﷺ کی عملی زندگی اور
سیرت کو اپنا رول ماڈل نہ بنایاہو گا ان پر آپ ﷺ کی شفاعت واجب نہیں
اور نہ ہی آپ ﷺ ان کی شفاعت فرمائیں گے۔قابل قبول شفاعت صرف اس بندے کی
ہو گی جس نے آپ ﷺ کی سیرت کو اپنا رول ماڈل بنایا اور اپنے تعیں پوری
طرح اس کی کوشش اور پابندی کی، اگر کبھی اتفاقاً، غیر اراداتاً، بغیر
سوچے سمجھے کوئی غلطی سرزد ہو گی تو اس پر آقا کریم ﷺ شفاعت فرما دیں
گے۔
اور یہ بات بھی یاد رکھئے اور خوب کان کھول کر سن لیجئے کہ شفاعت سے
صرف حقوق اللہ معاف ہوں گے حقوق العباد نہیں جو دین کا نوے فیصد ہیں۔
حقوق اللہ تو صرف دس فیصد ہیں دین میں ، اگر تمہارا اعمال و اخلاقیات
سے ہٹ کر محض بخشش اور شفاعت پے ہی بھروسہ ہے تو پھر باقی نوے فیصد کی
معافی کہاں سے کرواؤ گے۔حقوق العباد معاف کرنے کا اختیار تو خود خدا نے
بھی اپنے پاس نہیں رکھا ، اس نے واشگاف الفاظ میں نوٹس دے دیا ہے کہ
میں حقوق العباد اس وقت تک معاف نہیں کروں گا جب تک متعلقہ بندہ معاف
اور اس کے لئے دعائے مغفرت نہیں کر دیتا۔ لیکن کیا ایسے بندے کی شفاعت
ہو جائے گی جو دین کی حدود کو اعلانیہ توڑے اور شفاعت کی امید پر گناہ
کو گناہ سمجھتے ہوئے بھی کرنے سے گرہیز نہ کرے اور حقوق العباد کی
پرکھیاں بکھیرتا پھرے؟ بلکہ اللہ کریم فرماتے ہیں کہ خود رسول اللہ ﷺ
ہاتھوں میں قرآن لیے ایسے لوگوں پر گواہی دیں گے ، فرمائیں گے کہ اے رب
قدوس ! یہ میری امت کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے تیری اس کتاب اور میری سیرت
کو پس پشت پھینک رکھاتھا یا اس کے کسی نقطہ سے اختلاف کیا تھا یا اس پر
پوری طرح عمل نہیں کیا تھا۔
وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَْ یہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ
اتَّخَذْتُُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًاo یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ
اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا o لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ
بَعْدَ اِذْ جَآءَ نِیْ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًاo
وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا
الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًاo وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیِّ
عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَ o
’’اور جس دن ہر ظالم گنہگار اپنے ہاتھ چبا چبا کھائے گا اور حسرت و
ندامت سے کہے گا، اے کاش ! میں رسول اللہ ﷺ ( جس کی رسالت کا زبانی
اقرار بھی کرتا تھا) کی بتائی ہوئی راہ (نظام حیات، قرآن و سنت) پر
سیدھا چلا ہوتا ۔ اے کاش ! میں نے فلاں فاسق وفاجر کی دوستی اور رفاقت
اختیار نہ کی ہوتی ، اس کم بخت نے تو راہ راست میرے سامنے آنے کے بعد
مجھے پھر گمراہی میں ڈال دیا( مجھے میرے پاس آئی ہوئی نصیحت سے بہکا
دیا) اور بیشک شیطان تو ہے ہی انسان کو عین وقت پر دغا دینے والا۔ اور
اس وقت رسول اللہ ﷺ (ایسے لوگوں کی شفاعت کرنے کی بجائے قرآن مجید کو
ہاتھوں میں اٹھائے ان پر گواہی دیں گے ) عرض کریں گے ’’ اے میرے رب! یہ
میری امت کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے تیرے اس قرآن کو پس پشت ڈال
رکھاتھا۔‘‘ اور اس طرح ہر نبی اپنی امت کے مجرم لوگوں کا دشمن بن جائے
گا۔‘‘ (الفرقان 27...31 : 25)
جب قرآن کہہ رہا ہے کہ اللہ اور اس کے نبی مجرم و گناہگار لوگوں کے
دشمن بن جائیں گے اور آج کے یہ علماء طرح طرح کے وظائف لے کر آگئے کہ
شفاعت و رحمت سے معاف ہو جائیں گے۔کیا علماء کو حضرت سیدنا عمر فاروق
رضی اللہ عنہ کا وہ واقعہ یاد نہیں۔ جب حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ کو حضورﷺ نے اپنی نعلین پاک دے کر فرمایا کہ یہ میرا جوتا لے جاؤ
اور راستے میں تمہیں جو ملے اور وہ کلمہ حق کہہ دے ’’ لا الہ الا اللہ
محمد رسول اللہ‘‘ اسے مجھ مصطفی ﷺکی یہ نشانی دیکھا کر کہہ دینا کہ
اللہ نے تجھے جنت کا مالک بنا دیا۔ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
گلیوں میں حضور ﷺ کی نشانی لیے یہ اعلان فرما رہے تھے کہ ’’من قال لا
الہ الا اللہ فا دخل الجنۃ‘‘ تو راستے میں حضرت سیدنا عمر فاروق رضی
اللہ عنہ وہ آواز سن کر تیزی سے ان کی طرف لپکے اوران کے سینے پر زور
دار تھپڑ رسید کیا ، سیدنا ابو ہریرہ پیچھے گر گئے۔ سیدنا عمر فاروق
رضی اللہ عنہ نے غصے سے پوچھا تمہیں کس نے کہا یہ اعلان کرنے کو؟
فرمایا حضور ﷺ نے یہ اپنی نشانی دے کر بھیجا ہے کہ اعلان کر دو ’’من
قال لا الہ الا اللہ فا دخل الجنۃ‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا
چلو حضورﷺ کے پاس میں بھی آتا ہوں۔ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حضور ﷺ
کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور ہاتھ باندھ کر عرض کیا ۔ یارسول اللہ ﷺ آپ
کی عنائت، آپ کی شفقت اپنی جگہ پر، مگر لوگ عمل کر رہے ہیں انہیں عمل
میں لگا رہنے دیجئے اس طرح کے اعلانات سے لوگ خود کو جنتی یا بخش دےئے
جانے والے سمجھ کر اعمال سے غافل ہو جائیں گے۔
ہمارے معاشرے کے ساتھ بھی آج یہی کچھ ہوا ہے کہ لوگوں کو طرح طرح کے
بخشش، درگذر، معافی کے اعمال و وظائف بتا دئیے گئے اور وہ بخشش و شفاعت
کی امید پر گناہوں سے بے نیاز ہو کر طرح طرح کی گمراہیوں اور بد
اعمالیوں میں مبتلا ہوتے چلے گئے۔
حضور ﷺ نے تواپنی پیاری بیٹی حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے
بھی فرمایا دیا تھا کہ بیٹی قیامت کا خیال رکھنا میں تمہاری شفاعت نہیں
کر سکوں گا۔ حضور ﷺ کا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے یہ فرمانے کا مقصد
یہ تھا کہ آنے والی نسلوں کیلئے یہ بات تربیت پا جائے کہ تم نے اپنی
زندگیاں عملی انداز میں بسر کرنی ہیں، بد اعمالی، بے راہ راوی اور بد
اخلاقی کا شکار نہیں ہونا۔
آخرت کی بے خوفی اور اطمینان صرف اس شخص کو ہے جو غفلت میں نہ پڑا، دین
سے انحراف نہ کیا اور اپنے تعیں دین پر قائم رہنے کی پوری کوشش کی اور
آخرت کی کامیابی کیلئے اپنے رب کے حضور ایک مطمئن نفس لے کر حاضر ہوا
کہ اسے اپنے رب کے حضور رسوا نہیں ہونا پڑے گا۔ اور اسی مطمئن نفس کی
قابل قبول شفاعت بھی ہو گی اور یہی وہ مطمئن نفس ہے جسے اللہ کریم خود
صدا دے رہا ہے۔
یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَءِنَّۃُo ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ
رَاضِیَّۃً مَّرْضِیَّۃًo فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْo وَادْخُلِیْ
جَنَّتِیْo
اے اطمینان والی جان! اپنے رب کی طرف آ، تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے
راضی ہے۔ اب تو میرے خاص بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں چلا
جا۔
مگر کم ظرف علماء نے لوگوں کو دین پرسختی سے قائم رہ کر رب کے حضور
مطمئن نفس لے کر جانے کا درس نہیں دیا۔ مغفرت، بخشش، شفاعت اور شفاعت
عامہ ’’من قال لا الہ فا دخل جنہ‘‘ کا رٹا لگا رکھا۔ شفاعت ، آپ ﷺ کے
مقام محمود، روزِ محشر کے آپ ﷺ کے امت کی مغفرت کیلئے پے در پے
سجدوں،اور اللہ کریم کا یہ فرمانا ’’ ارفع راسک ، سل تعط، واشفاء
تشفع‘‘کا ورد کر رکھا مگر قوم کو اس کا متعین وقت نہیں بتایا کہ یہ
ہونا کب؟ اس کے وقوع پذیر ہونے، مُنصہء شہود پہ آنے کا وقت کیا ہے؟ جب
شفاعت کا یہ عمل شروع ہو گا اس وقت جہنم کی سزا پانے والے مجرم و
گناہگار لوگ پتہ نہیں کتنے ہزار سال جہنم میں جل کر اپنے کیے کی پوری
سزا پا چکے ہوں گے۔ پھر اس وقت کونسا منہ لے کر جانا اس محبوب ﷺ کی
بارگاہ میں، ان کے لیے بھی باعث شرم اور خودکے لیے بھی۔
شفاعت ہو گی مگر میزان عدل پر نہیں ۔جب حشر بپا ہو گا میزان عدل لگے گا
، اعمال تولے جائیں گے ، ہر نفس کو اس کے کیے کی سزا و جزا ملے گی ۔
سزا پانے والے جہنم جائیں گے اور جزا پانے والے جنت۔اگر شفاعت روز محشر
میزان عدل پر ہوتی تو دوزخ کی سزا پانے والے دوزخ نہ جاتے انہیں وہیں
سے جنت روانہ کر دیا جاتا ۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ یہ تو اس پے در پے سجدوں
والی حدیث سے بھی ظاہر ہے جو ہر آن مجرم و گنہگار لوگوں کو خوش کرنے
کیلئے علماء کے لبو ں پر ہے۔ اگر عقل و فہم کے قفل کھول کر اس حدیث کو
پڑھا جائے تو یہ حدیث مبارکہ بھی واضح کر رہی ہے کہ مجرم و گنہگار لوگ
ضرور جہنم میں جائیں گے ۔ذرا غور کریں کہ پے در پے سجدوں سے لوگوں کو
نکالاکہاں سے جا رہا ہے؟ ’’دوزخ سے‘‘۔ اب وہ دوزخ گئے کیسے؟ ’’ میزان
عدل سے اپنے کیے کی سزا پا کر‘‘۔ یعنی یہ حدیث بھی واضح درس دے رہی ہے
کہ مجرم و گنہگار لوگوں کو سزا ضرور ملے گی، وہ ضرور دوزخ کا منہ
دیکھیں گے۔ لَتَرَوّنَّ الْجَحِیْمَ گنہگار ضرور دوزخ کو دیکھ کر رہیں
گے، ثُمَّ لَتَرَوُنَّھَا عَیْنَ الْیَقِیْنِ پس پھر وہ اس میں پڑ کر
اسے یقین کی آنکھ سے دیکھ لیں گے اور اپنے کیے کی پوری پوری سزا پائیں
گے ۔
پھر صدیوں بعد حضور ﷺ کوہی ترس آئے گا کہ چلو مجرم سہی پر تھے تو میرے
نام لیوا، میرے امتی اور آپ ﷺ سجدے میں سر رکھ کر اللہ کریم سے التجا
کریں گے۔ اس طرح ایک سے دوسرے سجدے کے درمیان بھی ہزاروں سال کا عرصہ
ہے۔اس حدیث میں بھی کئی سبق اور کئی درس ہیں عبرت کے اور سزا و جزاء کے
حتمی ہونے کے ۔ اگر علماء قوم کو ڈرانے پر آئیں تو یہ حدیث بیان کرتے
ہوئے بھی قوم کو ڈرایا جا سکتا ہے کہ اپنا قبلہ درست کرو تم کسی طرح
سزا سے بچ نہیں سکتے وہ تمہیں ضرور ملے گی۔ لیکن حق بات یہ ہے کہ ہمارے
علماء و مولوی حضرات کو ڈرانا آتا ہی نہیں ہے اور نہ یہ ڈرانا چاہتے
ہیں کیونکہ ڈرانے سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہو گا جبکہ خوش کرنے سے واہ
واہ ہوگی اور اوپر سے پیسے بھی نچاور ہوں گے۔
آج کچھ ملاؤں نے قوم کو فواحشات و بدکرداری سے بچانے کی مہمات اور
تحریکیں چلانے کی بجائے مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہمز چلا رکھی ہیں۔
قادیانی مصنوعات کا بائیکاٹ، اسرائیلی و مغربی مصنوعات کا بائیکاٹ۔ ارے
نادانو! مصنوعات کے بائیکاٹ سے کیا ہوگا؟کیا مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے
سے قوم سدھر جائے گی؟ کیا مصنوعات کے بائیکاٹ سے قوم کو اخلاقی پاکیزگی
و پاکدامنی کا درس ملے گا؟اسلامی ریاست میں ہر چھوٹی بڑی اقلیت کو
آزادانہ کاروبار و تجارت کرنے کا حق حاصل ہے ۔ اسلام اقلیتو ں کے حقوق
کا تحفظ، ان کی جان مال عزت و آبرو کی حفاظت، ان کے کاروبار و تجارت کا
دفاع اسلامی ریاست پر عائد کرتا ہے اور یہ اس کا بائیکاٹ کرنے چل نکلے
اور جس کا بائیکاٹ کرنااور کروانا چاہیے تھا وہ نہیں کیا۔سینما بینی،
فحش بینی، موسیقی ڈرامہ و فلم سازی،ناچ گانے، سگریٹ نوشی جو قوم کی
صلاحییتں اور توانائیاں دھواں میں اڑا کر اندر سے کالا اور کھوکھلا کر
رہی ، اور ان کے علاوہ ہزاروں معاشرتی برائیاں ہیں ان کے خلاف آواز
کیوں نہیں اٹھتی علماء کی؟
ہمارے علماء و مشائخ و صوفی حضرات کا کوئی بائیکاٹ، کوئی احتجاج، کوئی
مظاہرہ ایسا نہیں جو کسی معاشرتی برائی کے خاتمہ کیلئے کیا گیا ہو۔ان
کے ہوتے ہوئے کتنے بڑے بڑے معاشرتی ناسوروں نے جنم لیا۔ موسیقی، ڈرامہ
وفلم سازی عام ہوئی، فحش بینی بڑھی،فحاشی و عریانیت کا دور دورہ ہوا۔
انٹر نیٹ اور کیبل نیٹ ورک پر انتہائی اخلاق سے گرامواد، فحش ویڈیوزآج
گھر گھر کی دہلیز پر موجود ہیں، بلکہ اب تو موبائل انٹر نیٹ ، میموری
کارڈزکی صو رت میں بندے بندے کے ہاتھوں میں ہے۔ کیااس عفریت و ناسور کے
خاتمہ کیلئے علماء و مشائخ اور صوفیاء نے اکٹھے ہو کر کوئی احتجاج،
کوئی مظاہرہ کیا؟ کوئی حکمت عملی اپنائی، کوئی تدبیر، کوئی لائحہ عمل
ترتیب دیا؟ کیا ان کے خلاف کسی کا ضمیر جاگا اور بھری محافل میں ان کو
اپنی خطابت کی گرج چمک اور موضوع واعظ بنایا؟ کیا کسی نے حکمرانوں کے
گرہبانوں اور پیمرا کے دروازوں کو پیٹا،کہ فحش و غیر اخلاقی ویب سائٹس
کو پوری طرح بند کیا جائے اور ملک سے اس کا وجود تک ختم کیا جائے تاکہ
معاشرہ کی پاکیزگی و پاکدامنی برقرار رہے۔
پھر اگر کسی ملاں اور جاہل صوفی نے اس کے خلاف آواز اٹھائی بھی تو وہ
بھی الٹی کہ ٹی وی باعث وبال ہے ختم کیا جائے، موبائل ٹھیک نہیں،کیبل
نیٹ ورک ٹھیک نہیں، فلاں ٹھیک نہیں، فلاں ٹھیک نہیں۔ کوئی بھی چیز بذات
خود بری نہیں ہوتی بلکہ انسان برے ہوتے ہیں، انسانوں کے اعمال برے ہوتے
ہیں ہر چیز کے پیچھے انسانوں کے ہاتھ ہیں۔ ہم انسان اگر چیزوں کا جائز
استعمال کریں تو کوئی بھی شئے بری نہیں رہتی۔ کیا اگر ٹی وی کا جائز ،
اور رشد و ہدایت کیلئے استعمال کریں تو بری ہے؟کیا اگر موبائل کا جائز
استعمال ہو توبرا ہے؟ کیا اگر انٹر نیٹ کو فحواشات و خراشات سے پاک کر
کے جائز مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو برا ہے؟اسلام جدت پسندی کا
مخالف نہیں بلکہ قرآن تو خود جدت، کائنات کی تخلیق میں غورو خوض کر کے
اختراع و ایجادت کی دعوت دیتا ہے۔اگر نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں تو اس
میں انسانیت کا مفاد ہے ان کا استعمال جائز کیا جائے نہ کہ ان کے وجود
پے بات کی جائے۔
شخصیات کے تقدس کی بے حرمتی پر احتجاج اور مظاہرے ہو سکتے ہیں تو اس
معاشرتی ناسور کے خاتمے کیلئے اکٹھے ہو کرمظاہرے اور حکمرانوں کے
گرہبانوں میں ہاتھ کیوں نہیں ڈالے جا سکتے کہ ذرائع ابلاغ و مواصلات کو
بد اخلاقیات و فحواشات سے پاک کر کے عوام کے سامنے رکھو؟حکمران بتائیں
کہ پیمرا (PEMRA) کس لیے بنی ؟ اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟ اگر وہ
اپنے فرائض بخوبی انجام نہیں دے رہی تو اس کھیت کے ہر ہر خوشہ کو جلا
دینا چائیے جومسلم معاشرہ کی پاکیزگی و پاکدامنی کو برقرار رکھنے میں
غفلت برت رہے ہیں۔اگر آج آپ جائز مقاصد کے بھی انٹرنیٹ، نیوز پیپرز،
فیس بک وغیرہ یا کوئی سائٹ اوپن کریں تو ساتھ سائیڈ پر انتہائی اخلاق
سے گرے گھٹیا اشتہار آ رہے ہوتے ہیں کبھی انتہائی گھٹیا فحش و عریاں
لباس کے، تو کبھی خواتین کے پوشیدہ ستر کے پہناؤں کے ، تو کبھی کامیاب
اور خوشگوار ازدواجی زندگی کی لذت کے محراکات و ادویات کے، تو کبھی مرد
کے عضو خاص کی لمبائی و موٹائی کیلئے یہ یہ کچھ میسر ہونے کے۔ ایسے
گھٹیا اشتہار قوم کی معصوم بچیوں اور بچوں کی نظر سے گذرے بغیر نہیں
رہتے۔گندے ذہنوں کی اختراع، اتنی کمینگی اور اخلاق سے گرے گھٹیا پن کا
مظاہرہ اور پیمرا کی آنکھیں بند۔حیا ء شرم اور غیرت اتر گئی ہے قوم کی۔
حدیث مبارکہ ہے
’’حیا اور ایمان ساتھ ساتھ ہیں جب ایک اُٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اُٹھ
جاتا ہے۔‘‘
پھر فرمایا۔ اذا فاتک الحیاءُ فا فعل ما شئت
’’یعنی جب حیا کھو بیٹھو تو جو جی میں آئے کرو، تمہارا ایمان، اللہ
عزوجل اور اس کے رسول ﷺ سے کوئی واسطہ ، کوئی تعلق باقی نہیں رہتا۔‘‘
ایسے گھٹیا اشتہار دینے کی اجازت کس نے دی اور ان کی تشہیر پر ٹیکس اور
مال کون بٹور رہا ہے؟ خاکوں کی اشاعت پر یوٹیوب بند کروا دی گئی مگر
ننگے عریاں، برہنہ خاکوں کو معاشرہ کی پاکیزگی و پاکدامنی کو چبانے کے
لیے چھوڑ دیا گیا، اس عفریت، معاشرتی ناسور کے خلاف آج تک کسی نے آواز
تک اٹھانا گوارا نہیں کی حالانکہ یہ خاکے معاشرہ کیلئے اُن سے زیادہ
خطرناک اور زہریلے تھے۔ |