میری منزل کوئی نہیں ۔۔۔ راستہ بھی انجان ۔۔۔ بے مقصد بلا ارادہ میں چلتے
ہی چلے جا رہی تھی ۔۔۔ میں نہیں جانتی تھی کے میرے قدم کہاں جا کر رکینگے
۔۔۔۔ پیچھے کا سفر اب ناممکن ہوگیا تھا ۔۔۔ میں اپنوں سے بھاگ
رہی تھی ۔۔۔ اس شہر سے ہی نکل جا نا چاہتی تھی ۔۔۔۔ جہاں میری زندگی کے
خوبصورت سال اپنوں کے ساتھ گزرے تھے ۔۔۔۔ میں شاید خود سے ہی بھاگ رہی تھی
۔۔۔۔ اماں بی اور سنئیہ میں میری جان تھی ۔۔۔ اماں بی کو میں کھو چکی تھی
اور سنئیہ کو خود سے دور کردیا تھا میں نے ۔۔۔ میں اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ
آئی تھی ۔۔۔ زادِراہ صرف میرے مجروح ٹوٹے پھوٹے دل کے سوا کچھ نہیں تھا ۔۔۔
دوپہر کا وقت ۔۔۔۔ چلچلاتی گرمی ۔۔۔۔ اکا دکا افراد کا گزر ۔۔۔ ہائی وے پر
گاڑیوں کا رش بھی بہت کم تھا ۔۔۔ اور میں تنتنہا تیز قدموں سے ہائی وے پر
چلے جا رہی تھی ۔۔۔ نامعلوم منزل کی سمت ۔۔۔۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا بس
اللہ پر بھروسہ کر کے نکل پڑی تھی ۔۔۔ یہ بھی جانتی تھی کہ میرے پیچھے ککو
کتنی پریشان ہونگی ۔۔۔ اب تک تو انہوں نے میرے آفس اور فیکٹری فون بھی
کردیا ہوگا ۔۔۔۔۔ میں جانتی تھی آج کی رات ان پر کتنی بھاری گزرے گی ۔۔۔۔
اب تک شاید میرے ماموؤں کو بھی خبر مل چکی ہوگی ۔۔۔ اور سنئیہ کو بھی پتہ
چل چکا ہوگا ۔۔۔۔ وہ کتنی پریشان ہوگی ۔۔۔ سنئیہ کے بارے میں سوچتے ہوئے
میرے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔ مگر میں ایک لمحے کو بھی کہیں رکی
نہیں تھی ۔۔۔۔ پتہ نیہں کب میں ہائی وے سے کچی سڑک پر آگئی تھی کچھ پتہ ہی
نہیں چلا ۔۔۔۔ ویسے بھی آج کا دن کافی گرم تھا اور پھر فجر سے پہلے گزرے
واقعے نے کچھ تھکا بھی دیا تھا ۔۔۔ اور اس منحوص خوفناک عورت نے میرے بازو
اور کمر پر جو زخم چھوڑے تھے ان سے ابھی تک خون رس رہا تھا ۔۔۔ لیکن
الحمدللہ اللہ نے میرے ہی ہاتھوں اسے اس کے انجام تک پہنچا دیا تھا ۔۔۔۔ جس
طرح سے میں اس جنی سے لڑی تھی اور اسے قتل کیا تھا اس سے ایک چیز واضح
ہوگئی تھی کہ میں کوئی عام انسان نہیں ہوں بلکہ اللہ نے مجھے کچھ طاقتوں سے
نوازا ہے ۔۔۔۔ مگر اس چیز نے مجھے اندر سے خوف زدہ بھی کردیا تھا کہ کہیں
میں طاقت کے نشے میں دجالی راستے پر نہ نکل پڑوں جس کا انجام آخر میں دنیا
اور آخرت میں رسوئی کے سوا کچھ نہیں ۔۔۔۔ انہیں سوچو ں میں غلطاں میں کتنے
میل چل چکی تھی کچھ اندازہ ہی نہیں ہوا ۔۔۔۔ میں زخمی تھی مگر ان چھے ساتھ
گھنٹوں میں میں کہیں نہیں رکی تھی ۔۔۔ نہ بھوک کا احساس تھا اس وقت اور نہ
ہی پپڑی زدہ ہونٹوں کو پیاس کی طلب ۔۔۔ اس وقت صرف ایک ہی دھن سوار تھی
اپنے پیاروں سے دور بہت دور نکل جانا ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔ کہ کوئی میری گرد کو بھی
نہ پاسکے ۔۔۔۔ مجھے پتہ بھی نہیں چلا کب کراچی شہر کی سرحد ختم ہوئی اور کب
حاجی شیدی گوٹھ اور پھر نوری آباد کے انڈسٹریل ایریا کو بھی کراس کرتے ہوئے
حیدر آباد سندھ پہنچ گئی ۔۔۔ کام کے سلسلے میں حیدر آباد اماں بی کے ساتھ
ہر سال دو یا تین بار آنا تو ہوتا ہی تھا ۔۔۔۔ مگر آج نہ اماں بی ساتھ تھیں
اور نہ ہی کوئی اور ۔۔۔ میں تنتنہا پیدل ہی نکل پڑی تھی ۔۔۔ مزے کی بات تو
یہ تھی کہ مجھے خود خبر ہی نہ ہوئی کہ میں نے اکیلے پیدل اتنا سفر طے کر
لیا تھا ۔۔۔ اور نہ ہی میرے یہ پلان میں شامل تھا ۔۔۔ رانی باغ چڑیا گھر کے
قریب جب پہنچی تب احساس ہوا کہ میں کراچی سے حیدرآباد پہنچ چکی ہوں ۔اتنے
میلوں کا سفر میں نے چند گھنٹوں میں طے کرلیا تھا ۔۔۔۔
تمہیں شرم نہی آتی ۔۔۔۔ تمہارے گھر میں ماں بہنیں نہیں ہیں کیا ۔۔۔۔
میں اس آواز پر چونکی تھی ۔۔۔۔ وہ دو لڑکیاں تھیں ۔۔۔۔ کم عمر ۔۔۔۔ ایک
لڑکی تو قدرے الٹرا ماڈرن سی تھی مگر دوسری کالا برقہ پہنے ہوئے تھی۔۔۔ جو
پوری جان سے لرز رہی تھی ۔۔۔ اور اس کی ساتھی ماڈرن لڑکی چار لڑکوں سے الجھ
رہی تھی ۔۔۔۔ چاروں لڑکے شکل سے ہی لوفر لگ رہے تھے جو ناجانے ان لڑکیوں کو
کب سے چھیڑ رہے تھے تنگ کر رہے تھے ۔۔۔۔۔
شزا پلیز ان کے منہ مت لگو ۔۔۔۔ خدا کے لئے چپ ہوجاؤ ۔۔۔۔۔
ارے واہ کیوں چپ ہوجائوں ۔۔۔۔ ابھی تک تو چپ ہی تھے نا برداشت ہی کر رہے
تھے ۔۔ مگر خبیثوں کو کچھ فرق پڑا ۔۔۔ نہیں نا ۔۔۔
اچھا تو تمہارا نام شزا ہے واہ شکل کی طرح نام بھی خوبصورت ہے ۔۔۔۔۔ پر شزا
ڈیر تمہاری دوست کا نام بھی بتا دو ۔۔۔
کیوں تمہیں اس کو بہن بنا نا ہے اپنی ۔۔۔ بےغیرت ۔۔۔۔۔
وہ غصے سے بولی تھی ۔۔۔ جس پر وہ چاروں ہنسنے لگے تھے ۔۔۔۔ اور لوفرانہ
انداز میں ان دونوں لڑکیوں کو دیکھنے لگے ۔۔۔۔ ان کے علاوہ بھی کافی لوگ
تھے وہاں اور شام کا وقت بھی ہو چلا تھا ۔۔۔۔ مجھے حیرت ہورہی تھی کہ لوگ
ان کے آس پاس سے یوں گزر رہے تھے جیسے کہ انہیں کچھ نظر ہی نہیں آ رہا ہو
۔۔۔ بالکل انجان ۔۔۔۔۔ اچانک ہی ایک لڑکے نے ماڈرن لڑکی کا ہاتھ پکڑ لیا
تھا ۔۔۔۔ جس پر اس کی ساتھی لڑکی رونے لگی تھی اور لڑکی بھی ڈر کر چیخنے
لگی تھی ۔۔۔۔ جس پر کچھ لوگوں کی غیرت جاگی تھی اور وہ ان کی مدد کو آگے
بڑھے ہی تھے کہ ان چاروں لڑکوں میں سے ایک نے پستول نکال کر ہوائی فائر کر
دیا تھا ۔۔۔۔ جس پر جو لوگ ان لڑکیوں کی مدد کے لئے آگے بڑھے تھے وہ پیچھے
ہٹ گئے ۔۔۔ حیرت تو مجھے اس بات پر تھی کہ وہاں پولیس کے کچھ گارڈز بھی
چڑیا گھر کی گیٹ پر موجود تھے اور ایک پولیس موبائل بھی کچھ فاصلے پر کھڑی
تھی مگر لگتا تھا کہ عام آدمی کی طرح یہ لوگ بھی اندھے اور بہرے بن گئے تھے
۔۔۔۔ جو ان آوارہ لڑکوں کی حرکات اور بیچاری لڑیوں کی بے بسی اور چیخوں پر
بھی اپنی جگہہ سے ہلنے کو بھی تیار نہیں تھے ۔۔۔۔ میں کچھ دیر دور کھڑی یہ
تماشہ دیکھتی رہی پھر ان لڑکیوں اور ان بدمعاشوں کی طرف تیزی سے بڑھی تھی
۔۔۔
لڑکی کا ہاتھ چھوڑ دو ۔۔۔۔۔۔
قریب پہنچ کر میں نے بس ذرا زور سے اتنا ہی کہا تھا ۔۔۔۔۔۔ جس پر ان چاروں
لڑکوں نے جن کے پیچھے میں کھڑی تھی نے پلٹ کرحیرت سے مجھے دیکھا تھا ۔۔۔۔۔
اگر نہ چھوڑوں تو کیا کر لوگی جان من ۔۔۔۔۔۔
میں تمہارا وہ حشر کر سکتی ہوں جس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے ۔۔۔ اسی لئے
بہتر یہی ہے کے تم اس لڑکی کا ہاتھ چھوڑ دو ۔۔۔۔۔۔
تم تو ان سے بھی بہت زیادہ حسین ہو ۔۔۔۔ اس کا تو صرف ہاتھ پکڑا ہے تمہیں
تو اپنے ساتھ ہی بٹھا کر لے جاؤں گا ۔۔۔
میں ان کی بات سن کر مسکرائی تھی ۔۔۔۔
پہلے اس لڑکی کا ہاتھ چھوڑ دو ۔۔۔۔۔ اور انہیں جانے دو ۔۔۔
میں ان کی طرف اطمینان سے قدم بڑھاتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اپنے بچاؤ کی
مجھے پرواہ نہیں تھی ۔۔۔مجھے اگر فکر تھی تو ان لڑکیوں کی کیوں کہ چاروں
بدمعاشوں کے پاس پستولیں تھیں ۔۔۔۔ اور اوپر سے لوگ مدد کی بجائے تماشہ
دیکھنے کے لئے جمع ہوگئے تھے ۔۔۔ ایک بھیڑ سی لگ گئی تھی ۔۔۔۔ کسی کو بھی
فائرنگ ہونے کی صورت میں گولی لگ سکتی تھی ۔۔۔۔۔۔
اے لڑکی پاگل ہوگئی ہو کیا ۔۔۔۔ کیوں ان کے منہ لگتی ہو جاؤ اپنے گھر ۔۔۔۔
ایک بزرگ جو ابھی شاید چڑیا گھر سے اپنی فیملی کے ساتھ نکلے تھے یوں مجھے
ان بدمعاشوں سے بھڑتے دیکھ کر بولے تھے ۔۔۔۔ میں نے ان کی طرف ایک نظر
دیکھا تھا پھر ان بدمعاشوں اور لڑکیوں کی طرف دوبارہ سے اپنے قدم بڑھا دئے
تھے ۔۔۔ میں دھان پان سی لڑکی تھی اسی لئیے شاید سب لوگ ہی مجھے پاگل سمجھ
رہے تھے یا پھر بے وقوف ۔۔اب پولیس کانسٹبلز بھی آکر کھڑے ہوگئے تھے لوگ ان
لڑکیوں بدمعاشوں اور میرے اطراف دائرے کی شکل میں کھڑے ہوگئے تھے ۔۔۔۔ ان
کے اسطرح کھڑے ہونے پر مجھے سیالکوٹ کا وہ واقع یاد آگیا ۔۔۔ جب دو بھائیوں
کو اسی طرح سب کے سامنے مارا گیا تھا ۔۔۔۔ اور لوگ سیلفیاں بڑے مزے سے لے
رہے تھے ۔۔۔۔ پولیس بھی تماشہ دیکھ رہی تھی ۔۔۔ یہاں بھی اسی طرح کا منظر
تھا ۔۔۔ لوگ سیلفیاں لینے میں مشغول تھے اور پولیس فقط صرف وردیوں کو پہنے
کھڑی تھی ۔۔۔۔ اپنے فرائض سے بےخبر ۔۔۔۔ مگر کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ جس
طرح وہ سمجھ رہے ہیں اس کے الٹ ہی کچھ ہونے والا تھا ۔۔۔۔ اب ایک لڑکا
مسکراتے ہوئے ان چاروں بدمعاشوں میں سے میری طرف بڑھا تھا گن کو الٹے ہاتھ
کی انگلیوں پر گھماتا ہوا ۔۔۔ ابھی وہ میرے قریب پہچا بھی نہیں تھا کہ میں
اپنی جگہ سے اچھلی تھی اور اس کے بالکل قریب ہی کودی تھی ۔۔۔۔ وہ ابھی
سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ اس کے ہاتھ سے پستول چھینا تھا اور اس کے دیگر
تینوں ساتھیوں کے ہاتھوں کا نشانہ لیا تھا جس میں انہوں نے پستولیں پکڑی
ہوئی تھیں ۔۔۔۔ ان کے ہاتھوں سے پستولیں چھوٹ کر زمین پر گر پڑیں اور وہ
تکلیف سے چیخنے لگے ۔۔۔۔ تمام لوگوں کے ساتھ وہ لڑکا جس کے ہاتھ سے میں نے
پستول چھینی تھی پہلے تو حیرت سے اپنے ساتھیوں کو اور میری طرف دیکھنے لگا
۔۔۔۔ پھر غصے سے میری طرف بڑھا تھا ۔۔۔۔ میں اطمینان سے اپنی جگہ کھڑی رہی
۔۔۔۔ اور اسے اپنی طرف آنے دیا ۔۔۔۔ مگر جیسے ہی وہ غصے سے مگر محتاط انداز
میں میرے قریب پہنچا ہی تھا کہ میں نے اسے ایک جھانپڑ رسید کردیا ۔۔۔۔ جس
پر وہ اُلٹ کر پیچھے گرا تھا ۔۔۔۔ اور گرتے ہی بےہوش ہوگیا ۔۔۔۔ لوگ حیرت
سے مجھے دیکھنے لگے تھے ۔۔۔۔۔ میں سب کو نظر انداز کرتے ہوئے ان لڑکیوں کی
جانب بڑھی تھی جو اب تک وہیں کھڑی تھیں ۔۔ حیرت اور خوف کے ملے جلے احساس
کے ساتھ ۔۔۔۔۔
آپ لوگ ٹھیک تو ہو نا ۔۔۔۔
جج ۔۔جی ۔۔۔۔ مم مگر آپ کون ہیں اور شش شکریہ آپ کا ۔۔۔۔
میں ان کی بات سن کر مسکرائی تھی ۔۔۔ مگر زبان سے کچھ کہنے کی بجائے اپنے
قدم آگے کی طرف بڑھا دئے ۔۔۔۔۔ مجھے سب لوگوں کی آنکھیں خود پر گڑی ہوئی
محسوس ہوری تھیں ۔۔۔۔ میں وہاں سے فوراً نکل جانا چاہتی تھی ۔۔۔ اسی لئے
تیزی سے سڑک پار کر گئی ۔۔۔۔
×××××××××××××××
سردار یوسف ، عمر اور حوریہ نے دیگر ساتھی جنات کے ساتھ مل کر پورا کراچی
چھان مارا مگر عائیشہ انہیں کہیں نہیں ملی ۔۔۔۔۔
ہمیں کراچی سے باہر بھی اسے ڈھونڈنا چاہئے ۔۔۔۔۔ ہوسکتا ہے وہ کراچی سے
باہر نکل گئی ہو ۔۔۔۔۔
ابھی وہ خود سے پوری طرح واقف نہیں ۔۔۔۔ اس لئے میرا نہیں خیال کہ وہ کراچی
سے باہر جا سکتی ہے ۔۔۔۔
حوریہ کی بات پر عمر بولے تھے ۔۔۔
نہیں ابو آپ نے اسے اس منحوص شیطان سے لڑتے نہیں دیکھا ہے ۔۔۔ مجھے تو ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ اللہ نے اسے ہم سے زیادہ طاقتوں سے نوازا ہے ۔۔۔۔۔
خیر اللہ بہتر جانتا ہے بیٹی ۔۔۔۔ مگر جو بھی ہو وہ ابھی دشمن سے پوری طرح
واقف نہیں ہے ۔۔۔۔ دشمن اس کی بے خبری سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے ۔۔۔ اسے
نقصان پہنچا سکتا ہے ۔۔۔۔۔
جی اسی کی فکر ہے مجھے ۔۔۔۔ مگر کیا فاطمہ کو اس کے لاپتہ ہونے کی خبر ہے
۔۔۔۔
جی حوریہ بی بی ۔۔۔۔ میں نے انہیں سب سے پہلے بتا دیا تھا کہ عائیشہ بی بی
اپنے گھر سے غائب ہیں ۔۔۔۔۔
میاں جی جو ان کے ساتھ ہی وہاں موجود تھے فوراً بولے تھے ۔۔۔۔۔
حوریہ بی بی یہ بات سن کر خاموش ہوگئیں ۔۔۔۔ انہیں فاطمہ بی بی کی پریشانی
کا پوری طرح احساس تھا ۔۔۔ ابھی وہ اپنی بیٹی سے ملی بھی نہیں تھیں ۔۔۔۔ بس
عائیشہ کو ڈھونڈنے میں لگی ہوئی تھیں ۔۔۔ویسے بھی وہ جمال کی محل نما کوٹھی
جانا نہیں چاہتی تھیں ۔۔۔۔ جمال کی وجہ سے جس کرب و اذیت سے وہ گزری تھیں
۔۔۔ان کی بے اعتباری اور شک و نفرت کی بدولت ہی ان کے ساتھ ان کی بیٹی اور
نواسی کی بھی زندگی آزمائیشوں اور دکھوں سے بھر گئی تھی ۔۔۔۔ وہ جمال سے
محبت کرتی تھیں مگر جمال کی وجہ سے ہی حوریہ بی بی کی زندگی جہنم بن گئی
تھی انہوں نے نہ صرف اپنی بیٹی سے جدائی کے کرب کو برداشت کیا تھا بلکہ
اپنے والدین سے بھی دوری کا کرب سہا تھا ۔۔۔۔ پھر بھی اس شخص کی محبت کم
نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ نفرت کی بجائے انہیں گلہ تھا غصہ تھا ۔۔۔۔۔۔ اور وہ اس
میں حق بجانب بھی تھیں ۔۔۔۔۔
حوریہ میرا خیال ہے اب تمہیں فاطمہ سے مل لینا چاہئے ۔۔۔۔۔
سردار یوسف بولے تھے ۔۔۔۔ تو وہ ان کی بات سن کر مسکرائی تھیں ۔۔۔۔۔
جی۔۔۔ مگر اس سے ملاقات کے لئے میں اس شخص کے گھر نہیں جاؤنگی ۔۔۔ جس کی
بدولت میں نے اور میری بچیوں نے اتنا کچھ سہا ہے ۔۔۔۔۔
ان کی بات سن کر سردار یوسف اور عمر چپ انہیں دیکھنے لگے ۔۔۔۔۔
××××××××××××××××××
ایس ایچ او رانی باغ چڑیا گھر کے پاس پولیس موبائل میں فرنٹ سیٹ پر موجود
تھا ۔۔۔۔۔۔ اور حیرت سے اس دھان پان سی لڑکی کو ان بدمعاشوں سے لڑتا دیکھ
رہا تھا ۔۔۔۔۔ اس وقت جب لڑکے لڑکیوں کو چھیڑ رہے تھے تب وہ بے بس بنا
خاموشی سے ان لاچار بے بس بچیوں کی بے بسی دیکھنے پر مجبور تھا ۔۔۔۔ کیونکہ
ان چاروں لڑکوں میں سے ایک لڑکا ڈی ایس پی کا بیٹا تھا ۔۔۔۔ اور اس لڑکے پر
ہاتھ ڈالنے کا مطلب ڈی ایس پی سے دشمنی مول لینا تھا ۔۔۔۔۔ اسی لئے بے بسی
سے ان کی غنڈہ گردی پچھلے چھے مہینے سے برداشت کر رہا تھا ۔۔۔۔ مگر جب ان
تین لڑکوں کو اس لڑکی نے فائرنگ کر کے زخمی کردیا اور ڈی ایس پی کے بیٹے کو
اس کمزور سی لڑکی کے ایک چانٹے نے نا صرف زمیں چانٹنے پر مجبور کردیا بلکہ
لحیم شحیم سا لڑکا بے ہوش بھی ہوگیا تھا ۔۔۔۔ لوگ حیرت سے اس لڑکی کو دیکھ
رہے تھے اور وہ خود بھی حیرت سے اس لڑکی کو دیکھے جا رہا تھا ۔۔۔۔ جو اب
تیزی سے سڑک پار کر گئی تھی ۔ ۔۔
سر اب کیا کریں ۔۔۔۔۔
ان تینوں کو گاڑی میں ڈالو ۔۔۔ اور اس کھوتے دے پتر کے لئے ایمبولینس
منگواؤ ۔۔۔۔
حوالدار کی بات سن کر بولا تھا تو دیگر ساتھیوں کے ہونٹوں پر بے ساختہ
مسکراہٹ آگئی تھی ۔۔۔۔
اور اس لڑکی کا کیا کریں ۔۔۔۔۔
پھر حوالدار بولا تھا ۔۔۔۔ تو اس نے سڑک پار کر کے تیزی سے جاتی لڑکی کو
دیکھا تھا ۔۔۔۔
جو ہمارا کام تھا وہ اس شیر کی بچی نے کر دکھایا ہے ۔۔۔۔ اسے جانے دو ۔۔۔۔۔
اوکے سر ۔۔۔
وہ سب سلوٹ مارتے ہوئے ان تینوں اور ڈی ایس پی کے بیٹے کی طرف بڑھ گئے تھے
۔۔۔۔۔ اور وہ بہت غور سے تیزی سے اس دُور جاتی لڑکی کو دیکھنے لگا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
××××××××××××××××××
باقی آئندہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
|