آج بھی شدید گرمی تھی جبکہ مجھے بنک میں چالان بھی
جمع کرانا تھا اوراس کے بعدمزید کچھ اہم کام نمٹانا تھے ۔سو چا جلد از
جلد یہ چالان جمع کراؤں تاکہ میر ے دوسرے ضروری کام متاثر نہ ہوں ۔بنک
پہنچی تومیں وہاں شدیدگرمی میں بزرگ خواتین وحضرات کو ایک طویل قطار
میں کھڑے دیکھا جہاں مناسب سایہ بھی نہیں تھا جبکہ لوڈشیڈنگ کے سبب
واحد پنکھا بھی بندتھا ،مجھے ان پنشنرزبزرگ خواتین وحضرات کاہجوم دیکھ
کر یاد آیا آج تو یکم تاریخ ہے اور یہ سب ضعیف اوربے کس لوگ اس عمرمیں
آرام کرنے کی بجائے بے آرام ہورہے ہیں ۔مجھے اپنے بزرگ شہریوں کی حالت
زاردیکھ کر بیحدافسوس ہوااورغصہ بھی آیا کہ حکومت ہم سے ٹی وی فیس کس
طرح وصول کرتی ہے لیکن بزرگ پنشنرز کو اپناحق وصول کرنے کیلئے کس
قدرپریشان اوررسوا کیاجاتا ہے،ارباب اقتدار واختیار پنشنرز کوان کے
بنیادی حق کی آبرومندانہ فراہمی کیلئے کوئی باوقار طریقہ کیوں وضع نہیں
کرتے ۔انہیں دھکم پیل اورکوفت سے بچانے کیلئے کوئی مخصوص کارڈز جاری
کردیے جائیں یا سرکاری بنکوں کے ساتھ ساتھ نجی بنکوں کو بھی پنشن فراہم
کرنیوالی فہرست میں شامل کرلیا جائے یاپھر بنکوں میں پنشنرزکیلئے
کاؤنٹر زیادہ کئے جائیں ۔میں سمجھتی ہوں یکم تاریخ صرف پنشنرز کیلئے
مخصوص کی جاسکتی ہے جائے اس دن سرکاری بنکوں میں دوسراکوئی کام نہ
ہواورپنشنرز کیلئے پنشن کی وصولی سہل ہوجائے ۔
میں نے جب سے شعور کی دنیا میں قدم رکھاہے اس وقت سے میں اپنے ان بیش
قیمت بزرگوں کوپنشن کیلئے ہرماہ ٹینشن برداشت کرتے ہوئے دیکھ رہی ہوں۔
جیسے ہی یکم تاریخ آتی ہے بنکوں کے باہر ان ضعیف اور نڈھا ل لوگوں کی
طویل قطاریں لگ جا تی ہیں لوگ دور دراز سے بعد نماز فجربغیرناشتہ کئے
بنکوں کے باہر آنا اورقطار میں لگنا شروع ہوجاتے ہیں جبکہ ہربنک میں
نوبجے کام شروع ہوتا ہے ۔ ایک بیوہ نے بنک کلرک سے کہا بیٹا پہلے مجھے
رقم دے د ومیں بیمارہوں زیادہ دیرتک ٹھہرنہیں سکتی مجھے کھڑے نہیں
ہواجاتا صبح گھر سے بھوکی پیاسی نکلی ہوں اورگھر پرمیری شیرخواربچی
میری منتظر ہے۔بی بی جا کے بیٹھ جا ؤ اور ابھی انتظار کرو بینک ورکر نے
انتہائی حقارت سے کہا ۔
مجھے اس بیوہ اورنحیف عورت کے چہرے پر تھکان اور پریشانی کے اثرات صاف
محسوس ہو رہے تھے۔ مجھے اس میں اپنی ماں کی جھلک نظرآئی ،بنک کلرک
کارویہ ناقابل برداشت تھا ۔ ریاست کوماں کہاجاتا ہے توکوئی ماں اپنے
بچوں کواس طرح تنہا اوربے یارومددگار نہیں چھوڑسکتی۔اس عمر میں انسان
پھر سے بچے کی طرح حساس اورنحیف ہوجاتا،جس طرح بچے دوسروں پرانحصار
کرتے ہیں اس طرح بزرگ بھی اس عمر میں اپنے بچوں کا سہاراتلاش کرتے ہیں
۔یہ لوگ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جوانی اپنے ملک وقوم کی خدمت
اورحفاظت کیلئے وقف کر دی تھی اور جب ان کی خدمت کرنے کا وقت آیا تو
پنشن کے حصول کی خاطر سارا سارادن انتظار کی سولی پر لٹکے ا یڑیاں
رگڑتے نظرآتے ہیں ،کب ان کا نمبر آئے گا اور کب ان کو اپناحق ملے گا ۔کب
ایک لائن ختم ہوگی اور کب آٹھ سے دس گھنٹے کا انتظا ر ختم ہو گا ۔
زمین پر بیٹھ بیٹھ کر تھکاوٹ سے چورہو گیا ہوں، پتہ نہیں مجھے کس
ناکردہ گناہ کی سزا مل رہی ہے،اپنے منہ میں یہ الفاظ بڑبڑاتے ایک باریش
بابا جی دوبارہ گرم زمین پر بیٹھ گئے،انہوں نے خودکلامی کرتے ہوئے کہا
''لگتا ہے مجھے کل آنا پڑے گا''۔بنک منیجرزاوردوسرے سٹاف ممبرز توبنکوں
کے اندر سکون سے اے سی والے ٹھنڈے دفاتر میں بیٹھے ہوئے ان کو باہر
پسینے سے شرابور کھڑے ضعیف بز رگ شہریوں کا خیا ل کس طرح آئے گا کہ وہ
باہر جا کر ان کا حال ان کو در پیش مسا ئل پوچھیں۔
اصول وضوابط اور قوانین تو ہر ملک میں ہو تے ہیں مگر دنیا کے تما م مما
لک میں ان اصولوں کی پاسداری یقینی بنائی جا تی ہے اپنے شہریوں کو بہتر
سے بہتر سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہوتا ہے اور
اگر کوئی ان اصولوں کی پا بندی نہیں کرتا تو اس کو سخت سے سخت سزا دی
جا تی ہے۔ہمارے ملک میں بھی ایک ایسا نظام ہو نا چا ہیے جہاں جو شہری
بھی ریٹائرڈ ہوں ان کے اکاونٹ جلد از جلد کھلیں تاکہ ان کی پنشن براہ
راست ان کے اکاؤنٹ میں جمع ہواور اس کی فراہمی میں آسانی ہو اورانہیں
اتنی ضعیفی میں پریشان اورخوار نہ ہو نا پڑے جبکہ عدالت عظمیٰ نے بھی
اس بات کا حکم صادرکیا ہوا ہے۔
مگر کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
جہاں اس ملک کاحکمران طبقہ عدلیہ کے فیصلوں کا احترام نہیں کرتاوہاں ہم
ایک عام سے بینک ورکر سے کیا امید رکھ سکتے ہیں۔جوانسان دوسروں میں
آسانیاں تقسیم کرتے ہیں ان کی اپنی زندگی بھی آسان ہوجاتی ہے ۔اگرآج ہم
اپنے بزرگ خواتین وحضرات کااحترام کریں گے توکل ہمیں بھی احترام ملے
گا۔اِنسان کوبوتا ہے وہی کاٹتا ہے ۔ |