ہزار انسان شاہی قصر سے وابستہ ہوجائے
لڑکپن جن میں گزرا ہے وہ گلیاں یاد آتی ہیں
(پروفیسر جگن ناتھ آزاد)
اپنی زبان اور آبائی وطن کا رشتہ کچھ ایسا ہی ہوا کرتا ہے جیسا پروفیسر
جگن ناتھ آزاد نے شعر میں کہا ہے۔ دنیا کا کون ایسا شخص ہوگا جو ان
دونوں سے محبت نہ کرتا ہو۔ ہاں فخر کے ساتھ کہتا ہوں میری زبان، میری
پہچان، میری شان اور میری جان اُردو ہے۔یہاں ایک بات صاف کرتا ہوا چلوں
کہ اُردو اپنے اندر وہ تمام خصوصیات جذب کئے ہوئے ہے جو دنیا کی تمام
تر ترقی یافتہ زبانوں میں پائی جاتی ہے۔ دنیا کی ہر شئے کو عروج و زوال
ہے، نشیب و فراز کے دور سے کون نہیں گزرتا……اور یہی زندگی کی علامت ہے۔
اُردو کے ایک مشہور ناقدآل احمد سرور کی زبانی:
’’اُردو زبان کی ہردلعزیزی کا ہر شخص معتقد ہے اس کے الفاظ کی چاشنی سب
کو مرغوب ہے اور اس کے اشعار کے بلند پروازی کی سبھی داد دیتے ہیں۔
اُردو کی تائید میں فلک شگاف نعرے لگانے والے، اس سے زبانی ہمدردی
جتانے والے، اس کی حفاظت کے لئے خون بہانے والے اور بڑی قربانی کا وعدہ
پیش کرنے والے بھی کم نہیں ہیں۔
لیکن اُردو کی ترویج و ترقی کے لئے خون کے بدلے پسینہ بہانے والوں،
زبانی ہمدردی جتانے کے بدلے کچھ ٹھوس کام کرنے والوں اور بڑی قربانی
پیش کرنے کے بدلے چند پیسے خرچ کرنے والوں کی بڑی کمی ہے۔‘‘
(مضمون ’’اُردو دوستوں سے خطاب ‘‘از ۔آل احمد سرور، اُردو تحریک ،
ص۔۴۰)
موصوف کی باتوں سے پورا پورا اتفاق کرتے ہوئے ہمیں صرف اتنا ہی کہنا ہے
کہ اُردو کی صورت حال ہم آپ کو جو کچھ بھی نظر آئی ہو اس کے ذمہ دار
بھی ہم آپ ہی ہیں، بڑے ادب و احترام کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ
ہمارے اُردو دوست اور مخلص دوست جو اُردو کی ترویج و اشاعت میں ہمہ تن
مصروف ہیں ان کے گھر اور خاندان سے ہی اُردو کی روشنی غائب ہوتی جارہی
ہے۔ شاید اُن کی دلی خواہش یہ ہوا کرتی ہے کہ غالب، اقبال، آزاد اور
سرسید تو پیدا ضرور ہوں مگر ہمارے گھر نہیں کسی اور کے گھر میں۔
یہ بات بھی مسلم ہے کہ اُردو حکومت کی تنگ نظری کا ہمیشہ شکار رہی ہے۔
اردو ہندوستان کی پیداوار اور ہند کی زبان ہوکر بھی اجنبیت کا شکار
ہوچکی ہے، مگر غور کرنے والی بات تو یہ ہے کہ اس کے ذمہ دار صرف اور
صرف حکومت ہی ہے، اردو کی زبوں حالی میں کیا ہمارا کوئی رول نہیں۔
(۲)
اُردو زبان کی تعلیم نہ کل مشکل تھی نہ آج ہے اور نہ ہی کل رہے گی، نئی
نسل اُردو نہیں جانتی تو اس کی ذمہ دار نئی نسل نہیں بلکہ ہم اور آپ ہی
ہیں، نئی نسلوں کی صورت حال تواس مصرع کی طرح ہے:
’’نئی نسلیں سگنا چاہتی ہیں‘‘
اساتذہ کہا کرتے ہیں بچے اُردو نہیں جانتے، کتب فروش کہتے ہیں کہ اُردو
کی کتابیں نہیں بکتی، کبھی ہم نے اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھا ہے کہ
ہم نے ان نئی نسلوں کے لئے کیا کیا ہے۔ ہمارے اساتذہ Higher Secondary
Level تک اُردو پڑھانے سے بھاگتے ہیں، وجہ پوچھنے پر یہ بتاتے ہیں کہ
بچے اُردو پڑھ نہیں پاتے تو کیا ہم انہیں املا سکھائیں، جب کہ اُردو کی
بقا اور ترقی کا راز اس کی ابتدائی اور ثانوی منزل پر تعلیم میں ہی ہے۔
ویسے بچے جو انگریزی زبان کے ذریعہ تعلیم حاصل کررہے ہیں والدین کی یہ
ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے بچوں کو اُردو زبان کی تعلیم دینے کا معقول
انتظام کریں نہیں تو کم سے کم خود انہیں لیکر بیٹھے اور اُردو زبان سے
آشنا کرائیں اور جو والدین اس بنیاد کو نظرانداز کررہے ہیں وہ نئی
نسلوں کے ساتھ بڑی زیادتی کرتے ہیں۔
اگر بچوں کو ابتدا میں ہی اُردو زبان نہ سکھائی جائے تو بچے عمر بھر
اُردو سے ناآشنا ہی رہ جاتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اپنی تہذیب سے
بیگانہ ہوجاتے ہیں۔
اُردو زبان کی تعلیم باضابطہ طور پر جن اسکولوں میں ہوا کرتی ہیں یا
پھر وہاں اُردو کے اساتذہ موجود ہیں مگر اُردو کی پڑھائی نہیں ہوتی
ضرورت ہے اساتذہ کی ایک میٹنگ کی جائے اور ان کے مسائل کی نشاندہی کر
انہیں سہی راہ دکھائی جائے۔
اخیر میں بقول آل احمد سرور:
’’اگر واقعی میں اُردو زبان محبوب ہے اور ہم اس کو پوری آن بان کے ساتھ
زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو دوسروں کا بھروسہ چھوڑ کر صرف یہ سوچئے کہ آپ
اپنے حدود کے اندر اُردو کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔ اگر آپ ادیب ہیں تو ہر
فن اور ہرمعیار کی اچھی کتابیں شائع کیجئے۔ اگر آپ مدرس ہیں تو طریقہ
ہائے تعلیم کی ساری خوبیاں اپناکر اُردو کو دوسری زبانوں کے مقابلے میں
درسی طور پر آسان سے آسان تر بنائیے…… اگر آپ کسان ہیں تو اپنے گاؤں کے
ہربچے کو مقامی سرکاری اسکولوں میں اُردو پڑھائیے……اور اگر آپ کو اُردو
کی خدمت کرنے کا کچھ بھی موقع نہیں ہے تو کم از کم ایک دو اخبار اور
چند اُردو کتابیں ہی خرید کر اُردو طباعت کی ہمت افزائی کیجئے۔‘‘
(اُردو تحریک از آل احمد سرور، ص۔۴۱)
اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو آنے والی نسل اس شعر کے ساتھ ہمارا مذاق
اڑائیگی:
میں اپنے گھر میں آیا ہوں مگر انداز تو دیکھو
کہ اپنے آپ کو مانند مہماں لے کے آیا ہوں
٭٭٭ |