ہر بچے کی ذہنی نشوو نما اور جسمانی خدو خال کی
افزائش کے لیے سکول بنیادی کردار ادا کرتا ہے ۔ جس سکول میں اس اعتبار
سے تمام بنیادی سہولتیں دستیاب ہوں۔ اسے ہی حقیقی معنوں میں آئیڈیل اور
مثالی سکول قرار دیاجاتا ہے ۔اس اعتبار سے میرا آئیڈیل ٗ گورنمنٹ گلبرگ
ہائی سکول لاہور کینٹ ہے ۔ جس میں ٗ میں چھٹی سے میٹرک تک زیر تعلیم
رہا اورفارغ التحصیل ہوکر میں نے عملی زندگی میں قد م رکھا ۔اس سکول کی
خوبیوں اور اساتذہ کرام کے طریقہ تدریس کو مدنظر رکھیں تو یہ سرسید
احمدخان کے علی گڑھ سکول سے مقابلہ کرتا ہے ۔ جس طرح دور حاضر میں ہر
چوتھا پانچواں کامیاب شخص راوین ہے اسی طرح ہر ساتویں آٹھویں شخص
گلبرگین ہے ۔جس طرح انسان اپنی ماں کو نہیں بھولتا اسی طرح کوئی طالب
علم اپنی مادر علمی کو فراموش نہیں کرسکتا۔ کیونکہ ماں بھی انسان کی
برائیوں کو چھپا کراچھائیوں کونمایاں کرتی ہے اسی طرح مادر علمی بھی
انسانی کردار میں کچھ اس طرح خوبصورتی پیدا کرتی ہے کہ بات کرنے والا
شخص بے ساختہ پوچھتا ہے تم کس سکول کے پڑھے ہوئے ہو۔ اگر یہ کہاجائے تو
غلط نہ ہوگا کہ مجھے اپنی مادر علمی سے عشق کی حد تک محبت ہے ۔ اس محبت
میں اس وقت اور بھی اضافہ ہوجاتاہے جب میں اس سکول کے دردیوار میں اپنے
بچپن کی تلاش میں وہاں جاتاہوں ۔خان عبداللطیف خان سے ملک اشرف اور سید
شبیر حسین شاہ سے ایاز قریشی جتنے بھی افراد ہیڈماسٹر/ پرنسپل کے روپ
میں وہاں پہنچے ۔سب کے سب کے بے مثال کردار کے حامل عظیم انسان تھے ۔
اس کے باوجود کہ اب اس سکول کی از سر نو تعمیر ہوچکی ہے لیکن پھر بھی
سکول کے ماحول سے جو بھینی بھینی خوشبو اٹھتی ہے وہ والہانہ محبت
پرنسپل جناب ایاز قریشی ٗ وائس پرنسپل جناب شاہد تنویر صاحب اور دیگر
تمام اساتذہ کرام کی جانب سے ملتی ہے اسے محسوس کرکے دل چاہتاہے کہ ایک
ہاتھ میں بستہ اوردوسرے ہاتھ میں تختی پکڑ کر پھر لکڑی کے بینچوں پر
جابیٹھوں اور بھولا ہوا سبق ایک بار پھر یاد کرنے کی کوشش کروں ۔ کسی
نے کیا خوب کہاہے کہ استاد تو سبق دے کر امتحان لیتا ہے لیکن زندگی
پہلے امتحان لیتی ہے پھر سبق دیتی ہے ۔زندگی کی 63 بہاریں دیکھنے کے
باوجود میں خود کو ابھی تک چھٹی کلاس کا بچہ ہی تصور کرتاہوں ۔ جس کی
آنکھوں میں صبح اٹھتے ہی ماسٹر مجید صاحب کی صورت گھومتی ہے کہ وہ آج
کل والا سبق سننے کے لیے جب کہیں گے تو کیا وہ سبق مجھے یاد ہے ۔ مجھے
تو آج تک ان کا شاندار لباس اور چلنے پھرنے کا انداز بھی نہیں بھولا ۔
مجھے تو آج بھی انگلش ٹیچر مشتاق صاحب کی باتیں یادہیں جو کہاکرتے تھے
اگر زندگی میں کامیاب ہونا ہے تو انگلش لکھنا پڑھنا سیکھ لو۔ وہ یہ
کہتے ہوئے بلیک بورڈ پرلکھنا شروع کردیتے تھے انہوں نے کبھی ہم پر سختی
نہیں کی ۔ لیکن جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو سو نہیں دو سو فیصد ان
کی بات سچ ثابت ہوئی ۔ہمیں تو رانا صاحب کی وہ بات بھی نہیں بھولی جو
وہ اسمبلی کے دوران اپنے خطاب میں اکثر کہاکرتے تھے ۔بچو.... یہ آپ کی
زندگی کے سنہرے دن ہیں اچھی طرح لکھ پڑھ لو کیونکہ آپ نے بڑے ہوکر اس
ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے ۔ اس وقت ہم سوچا کرتے تھے کہ یہ کیسے ممکن
ہے کہ ہم پاکستان کے کلیدی افرادمیں شامل ہوں گے ۔آج راناصاحب کی بات
سو فیصد درست محسوس ہوتی ہے ۔ میرے ساتھ بیٹھ کر پڑھنے والوں میں کتنے
ہی طالب علم ساتھی کوئی آرمی افسر بنا ٗ تو کوئی انجینئر بن کے ملک کی
خدمت کررہا ہے توکوئی سیاست دان توکوئی عالم دین بن گیا ۔ دور حاضر میں
اپنے جذبوں اور ولولوں کو نئی زندگی دینے کے لیے میں جب سکول جاتا ہوں
تویوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں اپنی نانی گھر آگیا ہوں وہاں میری ملاقات
ایاز احمد قریشی صاحب سے ہوتی ہے ٗ جو سکول کے پرنسپل ہیں وہ اس قدر
محبت سے ملتے ہیں کہ ان سے مل کر دل خوش ہوجاتاہے ۔ اﷲ تعالی نے انہیں
بہت ہی ملنسار معاون اور وائس پرنسپل کی شکل میں شاہد تنویر صاحب عطا
کیے ہیں جو باتوں ہی باتوں میں دل میں اترنے کا فن خوب جانتے ہیں۔ جن
کی گفتگو کا ہر لفظ گلاب کی خوشبو سے معطر محسوس ہوتا ہے ۔ وہ حقیقی
معنوں میں ایک شفیق اور محبت کرنے والے استاد ہیں ۔مجھے دسویں بی کے
استاد بھی بہت اچھے لگتے ہیں کیونکہ سکول میں دسویں بی ہی میری آخری
کلاس تھی ۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ میرے گلبرگ ہائی سکول میں کوئی داخلہ
فیس وصول نہیں کی جاتی ۔کتابیں بھی بالکل فری مہیا کی جاتی ہیں ۔اساتذہ
کرام کی تعلیم بی اے ۔بی ایڈ اور پی ایچ ڈی ہے ۔سنیئر اساتذہ میں
نمایاں ہیں ۔ پچیس تیس کشادہ اور روشن کلاس رومز ہیں جن میں بجلی کے
علاوہ روشنی کا معقول انتظام بھی ہے ۔ ہر کلاس کے دروازے پر ٹھنڈے پانی
کے کولرموجود ہیں۔ جیسے ہی کسی بچے کو پیاس لگتی ہے تو وہ دور جانے کی
بجائے واٹر کولر سے پانی پی سکتا ہے۔ مزیدسہولت کے لیے یہاں دو بڑے
واٹر الیکٹرک کولر بھی نصب ہیں۔ سکول کے کھلے احاطے میں پھولوں کی
کیاریاں اور درخت بھی موجود ہیں جن کے سائے میں بچے فارغ اوقات میں
کھیل کود میں مصروف رہتے ہیں ۔ یہاں سائنس کی ایک لیبارٹری بھی موجودہے
جہاں سائنس کے تجربات کا معقول انتظام ہے ۔ اس سکول میں نعت خوانی ٗمضمون
نگاری ٗ تقریری مقابلے باقاعدگی سے منعقد ہوتے ہیں ۔اس سکول کی چار
دیواری میں ہی ایک وسیع و عریض پلے گراؤنڈ بھی موجودہے۔ جہاں کرکٹ ٗ فٹ
بال ٗہاکی ٗ والی بال اور سکوائش کے مقابلے جاری رہتے ہیں ۔ ان مقابلوں
میں حصہ لینے والے بچوں کی صحت اور ذہنی اپروچ دیگر بچوں سے کہیں زیادہ
بہتر دکھائی دیتی ہے ۔گلبرگ ہائی سکول کے بچے ڈویژن سطح پرجاتے ہیں ۔
بورڈ کے امتحانات میں ہمیشہ 90 فیصد رزلٹ رہا ہے ۔ ایسی خوبیاں ہیں کسی
اور سکول میں ۔ ہر گز نہیں ۔ دس دس ہزار روپے داخلہ فیس لینے والے
انگلش میڈیم سکولوں میں ایسی سہولتیں ٗ مفت تعلیم بمشکل دستیاب ہیں۔
مجھے اپنے سکول پر بلاشبہ فخر ہے ۔
|