زندگی بالکل ایک ویڈیو گیم کی طرح ہے ، ایک لیول مکمل
کرنے کے بعد اگلے لیول درجہ بدرجہ اس سے کہیں زیادہ کٹھن ہوتے چلے جاتے ہیں
.
اشفاق احمد کہتے ہیں کہ : " وہ خوش قسمت لوگ ہوتے ہیں جو گھڑے گھڑائے اللہ
کی طرف سے آ جاتے ہیں، میں ویسا نہیں ہوں ، نہیں بن سکا ، زور بھی لگایا
مگر کچھ نہیں بنا ـ اس کی خرابی یہ ہوئی کی میں اپنی راہ میں خود کھڑا ہوں،
میرے لئے کوئی دروازہ کھلتا ہے تو میری عقل ، دانش اور فکروفہم آگے بڑھ کر
وہ دروازہ بند کر دیتے ہیں . آپ خود محسوس کریں گے کہ زندگی کی 90 فیصد
مشکلات میں آپ کی ذات خود کھڑی ہوتی ہے ، کوئی دوسرا نہیں ہوتا ، میں نے
بار بار ٹٹولا ہے ، آدمی اپنی ذات میں خود رکاوٹ ہے ."
جو انسان غلطی کر کے سیکھتا نہیں ہے تو وہ انسان سراسر گھاٹے کا سودا کرتا
ہے اور یہ کھلی گمراہی ہے . یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے ہم کسی دوکان سے
خریداری کرتے ہیں تو اس کی قیمت ادا کرتے ہیں ، فرض کریں کہ ہم نے دوکاندار
کو قیمت ادا کر دی لیکن دوکاندار سے سامان نہیں لیا تو کیا یہ ہماری
بیوقوفی نہیں ہو گی ؟؟ یقینی طور پر بیوقوفی ہی ہے . بالکل اسی طرح اس دنیا
میں ہمارے ساتھ بڑے بڑے حادثات ہو جاتے اور کچھ بہت ناگوار واقعات ہو جاتے
ہیں جو ہمیں بہت برے لگتے ہیں لیکن ہمیں انہیں چاہتے یا نہ چاہتے صبر و
تحمل سے برداشت کرنا پڑتا ہے اور اس سے حاصل ہونے والا تجربہ نصیحت اور سبق
ہی تو ہمارا وہ کل اثاثہ ہوتا ہے جو ہماری قیمت یعنی تکلیف کے بعد اللہ
انعام کی صورت میں ہمیں دیتا ہے . |