لم یر للمتحابین مثل النکاح

 ام ھشام
کچھ لکھنے کو دل چاہ رہا تھا کوئی سرا ہاتھ نہیں آرہا تھا کہ شروعات کہاں سے کروں ,,,لیکن دل میں شدت سے یہ خواہش مچل رہی تھی کہ دل میں جو ان کہے سے جذبات کا طوفان امنڈ رہا ہے انھیں الفاظ دیکر ...ایک وجود دے دوں,, وہ وجود !! جو گواہ بن جائے نکاح کی طاقت کا , اسکی عظمت کا ,اسکی ناقابل تسخیر ,غیر مرئی کشش کا -

عید کے روز رات گئے میں گھر کے بکھرے کاموں کو سمیٹ رہی تھی ... .. دو دن کی مسلسل شب بیداری اور تھکن سے چور تھی میری حالت دیکھ کر میرے شریک سفر نے کہا !!آج تم واقعی بہت تھک گئی ہو اب آرام کرو بقیہ کام ہوتے رہیں گے ..بلکہ میں مدد کروادوں گا لیکن تم اب آرام کرو پلیز.... بقیہ کام انشاءاللہ کل صبح دیکھ لیں گے-

الفاظ تھے یا آب حیات مجھ میں گویا از سر نو جان آگئی , گذشتہ دو دن کی لگاتار مصروفیت کے باوجود انکے الفاظ نے مجھے نئ طاقت فراہم کردی -حالانکہ میں اچھی طرح واقف تھی کہ وہ میرے کسی کام میں تعاون کی اھلیت نہیں رکھتے چاہے وہ ایک کپ چائے کا پیالہ ہی کیوں نہ ہو- میں نے سارا کام ختم کیا اور سونے سے پہلے اللہ سے باتیں کرنے لگی کہ اللہ !!! کتنا عظیم اور برتر ہے تو ,,اپنی مخلوق کو نہ صرف بنایا بلکہ اسکی تمام تر ضروریات کا خیال بھی رکھا ہمیں اتنے پیارے پیارے رشتوں کا تحفہ دیا انکی مضبوطی اور سہارے سے ہمارے دلوں کو تقویت دی-

ہماری طبیعی معاشرتی,اخلاقی ,نفسانی ہر ضرورت کا نہ صرف انتظام کیا بلکہ احسن اور بے مثال درجہ پر اس کا اہتمام کیا ,,جیسے والدین کے لیے اولاد ,,, اولاد کے لیے والدین ,زوجین ایک دوسرے کے لئے ,,,,ان سبھی رشتوں میں اللہ نے طبیعی طور ہر لچک ,محبت ,احترام اور اہتمام کا سامان کیا ہے ناراضگی ,رنج وغم دلوں میں کشیدگی , باہمی گلے شکوے انکے دلوں میں زیادہ دنوں تک اہنا مسکن نہیں بناپاتے-

یہ محبت ایسی محبت کہ : زوجین کی باہمی محبت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بڑی نشانیوں میں ذکر فرمایا ہے:”اور اس (اللہ) کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے جوڑا بنایا تا کہ تم اس کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تم (مردوزن کے) درمیان محبت اور رحمت پیدا فرما دی۔ یقینًا اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی بڑی نشانیاں ہیں جو غورو فکر کرتے ہیں“۔

لہذا میاں بیوی کے درمیان محبت کے بغیر عائلی زندگی کا پرسکون انداز میں گزرنا مشکل ہے۔ یہی جذبہ ہے جو ایک دوسرے کے لیے قربانی دینے، غلطیوں سے چشم پوشی کرنے، اور دوسرے کی تکلیف کو اپنا درد سمجھنے کی بنیاد بنتا ہے۔لیکن ہماری زندگی کا سب سے بڑا سچ اور سب سے بڑا افسوس تو یہی ہیکہ ہم اسی جگہ ڈگمگا جاتے ہیں - شوہر کی دلی کیفیات ,اسکی جذباتی کشمکش , اسکے اندرون چھپے ہوئے کمسن سے بچے کو ہم کبھی سمجھ ہی نہیں پاتے کا ش ہم یہ سمجھ سکیں کہ ایک گھر سے رخصت ہوکر دوسرے گھر آئے ہیں تو شوہر بھی تو اپنے بہت سے شوق, مشغلہ , مصروفیات جیسی چیزوں کو چھوڑ کر , بہت سی چیزوں کو قربان کرکے ایک ذمہ دار شوہر ہونے کا فرض نبھانے کی پوری کوشش کرتا ہے - قربانی دونوں طرف ہے. ایک لڑکی اگر بیوی کے رول میں سارا گھر سنبھالتی ہے لڑکا بھی شوہر کے رول میں پورے کنبہ کا کفیل اور مربی ہوتا ہے مشکل ڈگر ہوتی ہے دونوں کیلیے ....

بہر حال ہر صورت ہمیں احسان مند ہونا چاہیے ہمارے شوہروں کا , بیشک انکی یہ قدر ومنزلت اس ذات باری نے ہم پر مقدم کی...جو ہمیں تخلیق و تربیت دینے والا ہے جو ہمیں ہمارے افعال واعمال میں ہم سے بہتر جانتا ہے اور اس قوامیت کو صد احترام کیساتھ قبول کرنے ہی میں صنف نازک کا سکون, قرار ,تحفظ اور وقار ہے- زندگی کے ہر موڑ ہر لحظہ میں اپنے شریک حیات کے وقار اور اسکی پسند نا ہسند کا پورا خیال رکھا جانا چاہئیے-
باپ کے بعد شوہر وہ شفیق ترین انسان ہوتا ہے جو عورت کے لاڈ اٹھاتا ہے . باپ بیٹی کو پاؤں پاؤں چلنا سکھاتا ہے تو شوہربیوی کو نئی زندگی میں احتیاط سے قدم اٹھانا سکھاتا ہے. دونوں شخصیات کا دیا ہوا اعتماد اور محبت عورت کی زندگی مکمل کر دیتا ہے. -

Hisaam Khan
About the Author: Hisaam Khan Read More Articles by Hisaam Khan: 7 Articles with 5411 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.