امرناتھ یاترا کا مقصد غار میں رکھے ہوئے شیولنگ کا دیدار
کرنا، اس کی پوجا کرنا، منتیں مانگنا ہے، اسی مقصد کی تکمیل لئے بہت سے
ہندو سفر کرتے ہیں اور 138کلومیٹر کی اونچائی پر پہنچ کر شیولنگ کو دیکھتے
ہیں، اپنی عقیدت کو تسکین بخشتے ہیں اور اس عمل کو باعث فخر اور قابل تعظیم
گردانا جاتا ہے، ہندو عقائد کے مطابق یہی وہ مقام ہے، جہاں شیو رہتے تھے
اور ان کی علامت اور پہچان کے طور برف کا یہ لنگ موجود ہے، عرصۂ دراز سے
لوگ اس کی زیارت کے لئے جاتے ہیں، مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس غار کی تلاش ایک
مسلمان چرواہے بوٹا ملک نے کی تھی، حالانکہ بہت سے لوگوں نے اس دعویٰ کا
انکار کیا اور یہ کہا کہ بوٹا گوجر تھا، مگر یہ دلیل کمزور نظر آتی ہے،
چونکہ آج بھی جو گھرانا اس غار کی صفائی اور نگرانی کرتا ہے اس کا تعلق
اسلام سے ہے اور وہ اپنے آپ کو بوٹا ملک کا جانشین کہتا ہے۔ اس دلیل سے
معلوم ہوتا ہے کہ بوٹا ملک مسلمان تھا اور اس مذہبی مقدس مقام کو تلاش کرنے
والا ایک مسلمان ہی ہے۔ امرناتھ یاترا میں ہمیشہ کشمیری مسلمان میزبانی کے
فرائض انجام دیتے ہیں اور سفر پر آنے والے حضرات کے استقبال میں پلکیں
بچھاتے ہیں، ان کی ضروریات کی تکمیل کے لئے جگہ جگہ دوکانیں لگائی جاتی
ہیں، کیمپ لگائے جاتے ہیں، جس سے کشمیریوں کو نفع حاصل ہوتا ہے، انہیں
کاروبار میسر آتا ہے اور عقیدت مندوں کو اپنی ضروریات کا سامان مہیا ہو
جاتا ہے، اس ضمن میں ہندو مسلم اتحاد کی مثالیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں اور
دلوں پر چڑھا ہوا میل بھی صاف ہوتا ہے۔ اسی طرح سے یہ روایت جاری ہے اور
عقیدت مندوں کا ہجوم ہر سال رخت سفر باندھتا ہے اور مذہبی ذمہ داری کو پوری
کرتا ہے، لیکن اس سفر پر جانے والے لوگوں کو بہت سے وحشی درندوں کا بھی
سامنا کرنا پڑتا ہے، جو خالی ہاتھ افراد پر حملہ کرتے ہیں، خون بہاتے ہیں،
وحشت وبربریت کا مظاہرہ کرتے ہیں، پوجا میں مشغول لوگوں کو موت کی نیند سلا
دیتے ہیں، حادثات کی فہرست طویل ہے، ہر سال کوئی نہ کوئی مذموم حرکت ہوتی
ہے اور قلب شکن واقعہ پیش آتا ہے، جو ملک کو فرقوں میں تقسیم کردیتا ہے،
محبت کو نفرت کا لباس پہنا دیتا ہے، خادموں کو مشکوک اور میزبانوں کو ملزم
بنا دیتا ہے، کافی عرصہ سے حادثات ہورہے، ظلم و ستم کی داستانیں رقم ہورہی
ہیں، خون سے کشمیر کی زمین کو سرخ کیا جارہا ہے اور عقیدت مندوں کو موت کی
نیند سلایا جارہا ہے۔ 1993میں دو مرتبہ حملہ ہوا، تین لوگوں کی موت ہوئی،
1994 دو لوگوں کو فنا کے گھاٹ اتار دیا گیا، 1995 میں تین حملے ہوئے، 1996
میں دو حملے ہوئے، ان دونوں سالوں میں جانی نقصان اگر چہ نہیں ہوا،
اگست2000 کو بہت بڑا حملہ ہوا جس میں 35افراد کی جان گئی، 60لوگ زخمی ہوئے،
پورے ملک میں اس حملہ کی تکلیف محسوس کی گئی، چوطرفہ مذمت ہوئی اور ہر شخص
نے اس حملہ کے درد کو محسوس کیا اور مرنے والوں کے اعزا و اقرباء کے غم میں
پورا ملک شریک ہوا، مگر لاشوں کے اٹھنے کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا اور 2001
میں 20جولائی کو پھر حملہ ہوا، 15لوگوں کو موت کا جام پینا پڑا اور 15لوگ
زخموں سے چور ہوئے اور سلسلہ اب بھی اختتام پذیر نہیں ہواکہ2002 میں پھر
حملہ ہوا10لوگ جاں بحق ہوئے، 25 لوگ زخمی اور درد و تکلیف سے دوچار ہوئے،
2003میں 8لوگوں نے جان گنوائی، 2006میں بھی ایک موت ہوئی، طویل سلسلہ کشت و
خون کی بہتی ندیاں، عقیدت مندوں کی تلف ہوتی جانیں اور حفاظتی انتظامات کی
کوتاہی، ہمارے ذہنوں میں چند سوال پیدا کرتی ہیں، حملہ کس نے کیا ؟ حملہ کے
چند لمحات بعد ہی ہماری انتظامیہ اعلان کردیتی ہے کہ حملہ میں لشکر طیبہ کا
ہاتھ تھا یا حملے میں کسی دہشت گرد کا ہاتھ تھا اور بسا اوقات کسی شخص کو
گرفتار بھی کرلیا جاتا ہے لیکن اب تک یہ علم نہیں ہوسکا کہ امرناتھ یاترا
کے عقیدت مندوں پر حملہ کرنے والوں میں کتنے لوگوں کو موقعۂ واردات پر
گرفتار کیا گیا ؟کتنے لوگوں سے ان کے نیٹ ورک کے بارے میں دریافت کیا
گیا؟کیا معلومات حاصل ہوئیں ؟اس سے کیا فائدہ ہوا ؟اور کتنے افراد کے جرم
ثابت ہوئے ؟آخر یہ حملے کیوں ہوئے؟ ان کا مقصد کیا تھا؟حملہ کرنے والے کیا
چاہتے تھے ؟کیا وہ ہندوستانی تھے؟چونکہ یہ ایک حملہ نہیں ہے بلکہ مسلسل
کوشش ہے کسی منصوبہ کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی، پھر ہماری ایجنسیوں کے
ہاتھ خالی کیوں ہے ؟کیوں اس خوفناک سلسلہ کو روکا نہیں جاسکا ؟یہ سب کیوں
ہونے دیا جارہا ہے؟ حملہ سے پہلے بھی ایجنسیاں تحقیقی ادارے حملہ کا خدشہ
ظاہر کرتی ہیں اور حملہ کے بعد مجرم کا اعلان بھی کرتی ہیں، پھر اس وقت
خونخوار درندہ حیوانیت و درندگی کا ننگا ناچ ناچ رہے ہوتے ہیں تو حفاظتی
دستہ کہاں ہوتا ہے ؟حالانکہ یہی افراد ہیں، جو بڑے بڑے معرکہ سر کرتے ہیں،
جان نچھاور کرتے ہیں اور ملک کی عزت و آبرو پر آنچ نہیں آنے دیتے، ماں باپ
بھائی بہن اولاد سب کے مقابلہ میں ملک کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن اس موقع پر
یہی افراد ہیں اور عمل اس کے بر خلاف محسوس ہو رہا ہے۔ پچھلے 24سالوں سے
مسلسل حادثات ہونا چہ معنی دارد ؟ پورا کشمیر تکلیف کا اظہار کررہا ہے،پھر
قاتل کون تھے ؟کہاں سے آئے تھے اور کہاں گئے ؟سندیپ شرما کی گرفتاری بھی
بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے۔اے ٹی ایس نے اس سے کیا دریافت کیا ؟میڈیا اس
کے جرائم کو چھوڑ کر مذہبی معاملات پر بحث کرچکا ہے، اس کے مسلمان ہونے کے
دعوے کرچکا ہے۔ بہرحال وہ کوئی بھی ہو، اس کی مکمل طور پر چھان بین کی جانی
چاہئے، چونکہ امرناتھ یاترا پر ہونے والے حملے دو دھاری تلوار کے مثل ہیں،
کشمیر میں بے گناہ معصوم عقیدت مندوں کو قتل کردیا جاتا ہے اور پھر اس کا
رد عمل پورے ملک میں ظاہر ہوتا ہے، ہر مسلمان کو شک کی نظروں سے دیکھا جاتا
ہے، اسے دہشت گرد تنظیم کا فرد سمجھا جاتا ہے، پھبتیاں کسی جاتی ہیں، طعنے
دئے جاتے ہیں اور ملک میں فرقہ پرستی کی آگ بھڑک اٹھتی ہے، امسال بھی
امرناتھ یاترا پر حملے کے بعد حصار میں ایک امام کو تھپڑ رسید کردیا گیا
اور کئی لوگوں کو ہراساں کیا گیا، ایسے وقت میں جب ملک میں گائے کی حفاظت
کے نام پر انسانوں کا قتل کیا جارہا ہے، یہ صورت حال پیدا ہونا حالات کو
اور زیادہ خطرناک بنا سکتا ہے اور نفرت کی چنگاری کو شعلوں میں تبدیل
کرسکتا ہے، اس لئے بہت ہی ذمہ داری کے ساتھ امرناتھ یاتریوں کی حفاظت کی
جائے اور مذہب کی عینک اتار کر ملک کی حفاظت کی جائے،اسی کے ساتھ ساتھ ایک
بڑا سوال یہ بھی ہے، جو بڑے حملے ہوئے ہیں، وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے دور
اقتدار میں ہوئے ہیں اور اندرون ملک اس سے برا اثر پڑا ہے۔ اس سلسلہ میں
وزیر اعظم کو سنجیدگی سے غور وفکر کرنے اور ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے
اور اس سے زیادہ منفی اثر کیا ہوسکتا ہے کہ سلیم شیخ نے اپنی جان پر کھیل
کر لوگوں کو بچایا، پھر بھی انہیں مجرم کی نگاہوں سے دیکھا گیا، بہت سے
افراد نے انہیں غلط خیال کیا؟ سوالات کو جنم دیا گیا،کیونکہ وہ مسلمان تھا،
اگر اس کی گاڑی شرائین بورڈ سے منظور نہیں تھی تو حفاظتی دستے نے اسے پہلے
ہی کیوں نہیں روکا؟ اب اس سوال کو کیوں جنم دیا گیا ؟کیا یہ انتظامیہ کی
کوتاہی نہیں ہے ؟اس موقع پر سلیم کی قربانی نے ملک کو جھلسنے سے بچایا، غم
واندوہ کے دریا میں غوطہ زن ہونے سے بچایا، پھر مسلمان ہی مشکوک کیوں ؟مذہب
کی عینک اتار کر تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مسلسل ہو رہے حادثات کو
روکا جاسکے، ملک کو فرقہ پرستی کی آگ سے بچایا جاسکے، محبت کو عام کیا
جاسکے، نفرت کو شکست دی جاسکے، انسانوں کو حیوانیت سے بچایا جاسکے، ابھی
کچھ نہیں بگڑا ہے، میڈیا اور سیاسی رہنما ہوش کے ناخن لیں، ٹی آر پی اور
کرسی کی فکر چھوڑ کر ملک کی فکر کریں، محبت کا پیغام عام کریں، ہندو مسلم
اتحاد پر اسٹورز کریں، لوگوں کی ذہنیت تبدیل کریں، مجرم کو مذہب کے خانہ
میں نہ رکھیں، اس کے جرم کی سنگینی بیان کریں، لوگوں کے جذبات سے کھیلنا
کامیابی کا ذریعہ نہیں ہوسکتا ہے، معصوموں کی جانیں جائیں گی اور ملک
بدنامی کا شکار ہوگا اور سیاحتی سفارتی بہت سے شعبہ نقصان سے دوچار ہوں گے۔
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔ |