مجھے یاد ہے جب ۷۹ء / ۸۰ء میں نوائے وقت ،مشرق اخبا ر و
میگزین پڑھتے تھے تو ایک رپورٹ نظر سے گزری جو اب بھی یاد ہے’’،سعودیہ کی
تعمیروترقی اور پاکستانی انجینئرز ‘‘،اس زمانے میں سعودیہ میں سڑکوں کے جال
بچھ رہے تھے ،بلندوبالا بلڈنگیں کھڑی ہورہی تھیں ،ہسپتالوں کا نیٹ ورک تیار
ہورہا تھا ،بڑے بڑے محلات اور گھرتیار ہورہے تھے ،دوسرے ممالک کی طرح
پاکستانی انجینئرز، ڈاکٹرز، اکاونٹنٹس اور ہنرمند لیبر بڑی معقول تنخواہوں
پر سعودی عریبہ کا رخ کررہے تھے ،تقریباًً ہر تیسرے پاکستانی گھر سے ایک
فرد یہاں ضرور پہنچا ہوگا، ہمیں بھی شوق چرایا تھا،یہ ۹۸ء کا زمانہ تھا جب
ملازمت نہ ملنے کی خواری کے بعد سعودیہ کوچ کرآئے کیونکہ اس وقت حکومت
پاکستان کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے بے روزگاری کا جن بوتل سے باہر آچکا
تھا اور اس وقت تک یہاں بھی تقریبا انفراسٹرکچر کا کام مکمل ہوچکا تھا یہ
ملک فہد کا دور بادشاہت تھا ،اور یہاں کی حکومت اپنے بے روزگار افراد کو
ملازمتیں دینے اور کام کی طرف راغب کر رہے تھے اور سعودائیزیشن کی آوازیں
سنائی و دکھائی دے رہی تھیں ،یہی مجھے مولانا مودودی صاحب کا کتابچہ بھی
پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں انہوں نے اپنے دورہ سعودی عرب ۶۳ء کا ذکر کیا
تھا اورلکھا تھا کہ سعودی عرب میں سعودائیزیشن ہورہی ہے ،اب اللہ جانے اس
وقت کس قسم کی سعودائیزیشن ہورہی تھی جس کا ذکر انہوں نے کیا ، کیونکہ اس
وقت تو سعودیہ کے خدوخال ڈھل رہے تھے شاید سعودی خدوخال وضع کیے جارہے ہوں
کیونکہ اس سے پہلے تیل کی دریافت اور باگ ڈوران کے ہاتھ آئی تھی ، لیکن ۹۸ء
میں سعودائیزیشن کا عمل زیادہ سے زیادہ سعودی افراد کو کام کی طرف راغب
کرنا تھا جس کے لیے انھیں خواندہ کیا جارہاتھا اور حکومتی اداروں میں کھپت
کی جارہی تھی جس میں وہ حق بجانب تھے اور ایسا کرنا وقت کی ضرورت
بھی،خارجیوں ( غیر ملکی تارکین کو خارجی /اجنبی کہتے ہیں اور محمد کہہ کر
بلاتے ہیں،مجھے یاد ہے جب میں انڈیا گیا تھا تو وہاں لوگ محمڈن کہتے تھے)
کیلئے سرکاری نوکریوں کے دروازے بند ہورہے تھے ،کیونکہ مواطن اس کے پہلے
حقدار تھے اور ہونے بھی چاہیے ،پرائیویٹ کمپنیوں میں بھی سعودی کوٹہ مقرر
کردیا گیاتھا،اس کے علاوہ مختلف حساس امور کے شعبہ جات پر بھی مواطن ہی
ہونے چاہیے تھے،جیسے سونے جیسا مہنگاکاروبار صرف سعودی ہی کرسکتا ہے۔
۷۰/۸۰ کی دہائی میں جتنی ترقی تھی وہ شروع ہوئی اور اس کے لئے حکومت نے بے
شمار ویزوں کا اجراء کیا لوگ دھڑا دھڑ قسمت آزمائی کیلئے آتے تھے ایک وقت
آیا کی سعودیہ کا ویزہ جس کی سرکاری فیس تو چند سو ریال تھی لیکن یہی ویزہ
۱۰ سے ۱۵ ہزار میں ملتارہا ہے ،جس کی قیمت ۲۰ ہزار ریال تک بھی جا پہنچی
تھی،پھر بھی لوگ اپنا اثاثہ بیچ کر یا قرضہ لے کر ادھر کا رخ کرتے اور
کفیلوں کے زیر عتاب رہتے ،پائی پائی جمع کرتے قرضہ اتارتے اپنے گھر والوں
کے سکون کیلئے،بہن بھائیوں کی شادیاں کرتے گھر بناتے اور زندگی کا ایک عرصہ
گذارتے مختلف قسم کی بیماریاں جن میں شوگر،بلڈپریشر،کڈنی سٹون ،ہارٹ پرابلم
،وغیرہ وغیرہ کے ساتھ عمر کے آخری حصہ میں گھر لوٹتے جہاں ان کی کوئی جگہ
نہ بن پاتی ،یہ سلسلہ اب تک چل رہا تھا لوگ خوش تھے کوئی ٹیکس نہیں بعضوں
کی کمائی بے حساب انہوں نے اپنی فیملیز بھی ساتھ رکھی ہوئیں تھیں ،کئی کئی
سالوں اپنے ملک نہیں گئے ،اگر گئے بھی تو چھٹیاں گذارنے ،کئی سمجھداروں نے
اپنے ممالک میں جائیدادیں بنا لیں تھیں وہ تو فائدے میں رہے اور جو اس گمان
میں تھے کہ یہی دیس ہمارا ہے ،وہ اب پچھتارہے ہیں ،کیونکہ حکومت نے تہیہ
کرلیا ہے کہ سعودی نیشنلز (مواطن) کو ہر صورت کا م کرنا ہے ،جس کیلئے پہلے
تو انہوں نے مختلف طریقے آزمائے جس میں کافی حد تک کامیابی ملی بھی، اور بے
شمار مواطن اعلی تعلیم حاصل کرکے اپنے ملک کی خدمت کررہے ہیں ،جن میں
ڈاکٹرز، انجینئرز اور دوسرے کئی شعبوں میں آپ کو بہت سارے قابل افراد ملیں
گے۔
موجودہ عالمی حالات اور دہشت گردی کے پیش نظر امن وامان قائم کرنے کی خاطر
غیرقانونی اور بغیر اقامہ کے لوگوں کی پکڑدھکڑ شروع ہوئی ،ریکارڈ کی درستگی
نئے لیبر قوانین متعارف کروائے مختلف قسم کے جرمانے عائد کیے تاکہ وہ افراد
جن کا کوئی ریکارڈ نہیں سسٹم کے تحت قانونی طور پر قیام پذیر ہوں۔اس کے
علاوہ پٹرول کی گرتی ہوئی قیمتوں نے ملکی معیشت کو نئے چیلنجز دئیے جس
کیلئے ضروری ہوگیا تھا کہ انکم کے نئے ابواب کھولے جائیں،لہذا نئے ٹیکسز کا
اجراء کیا گیاہے جس میں سرفہرست ڈیپنڈنٹ ٹیکس (Dependent Tax) ہے،اس ٹیکس
کے مطابق جو خاندان کے ساتھ رہ رہے ہیں وہ ہر فرد کے عوض ۱۰۰ ریال ماہانہ (
جولائی۲۰۱۷ تا حون ۲۰۱۸ ء)،پھر ۲۰۰ ریال ماہانہ (جولائی۲۰۱۸ء تا حون ۲۰۱۹ء
) جو بڑھتے بڑھتے ۴۰۰ ریال ماہانہ تک جا پہنچے گا ، یہ پلان ۲۰۲۰ ء تک کا
ہے اس کے بعد پتہ نہیں کیا نیا پلان متعارف ہوتا ہے ، علاوہ ازیں پہلے چھٹی
۲۰۰ ریال میں سال بھر کی لگ جاتی تھی مگر اب وہ بھی ۱۰۰ ریال ماہانہ ہے ،
اس وقت تک کئی ہزار فیملیز اپنے اپنے ممالک کوچ کر گئی ہیں ،اگلے سال
دیکھیں کون جیتا ہے تیرى زلف کے سر ہونے کو ۔
پرائیویٹ اداروں پر بھی ٹیکس Levy Taxکی شرح بڑھائی جارہی ہے ،جن کمپنیوں
میں سعودی افراد کی تعداد ۵۰ فیصد سے کم ہوگی انکے غیر سعودی افراد پر مکتب
عمل کی فیس ۴۸۰۰ ریا ل ہوگئی ،جو پہلے ۲۴۰۰ تھی جو بڑھتے بڑھتے ۲۰۲۰ء میں
۹۶۰۰ ریال ہو جائے گی ،لہذا اب پرائیویٹ کمپنیز والے بھی غیر ملکیوں کی
چھانٹی کررہے ہیں۔ سعودائیزیشن کا یہ عمل ضرورت وقت کے تحت اتنا وسیع ہوتا
جارہا ہے کہ دوکانوں پر بھی مواطن ہی ہونگے ،مثلاَ موبایل کی دوکانیں،پرچوں
فروش وغیرہ وغیرہ ، پہلے حج کیلئے بھی بڑی آسانی تھی اپنی گاڑی میں خیمہ
اور ضروری سامان رکھیں فیملی کے ساتھ تقریبا مفت حج کرآئیں، لیکن اب حج
کمپنیاں جو پچھلے سال سے حکومت نے اپنی سپرویژن میں لے لی ہے ۳۵۰۰ سے ۱۲۰۰۰
ریال میں حج تصریح دیتی ہیں بغیر تصریح پکڑے جانے پر خروج لگا دیا جاتا ہے
،ایسا کرنا بہت ضروری تھا جو بہت پہلے ہونا چاہیے تھا ۔اس وقت آبادی کے
بڑھنے کی وجہ سے مہنگائی اور افراط دیکھنے میں آرہا ہے جس کا اثور یہاں بھی
نظر آنا شروع ہوا ہے ،لوگ مثال دیا کرتے تھے کہ پٹرول سستا پانی مہنگا یعنی
۱ لیٹر پانی کی بوتل ۱ ریال کی اور ۴۵ ہلالہ کا لیٹر پٹرول اب وہ بھی برابر
ہو گیا ہے ،پیپسی ۱ ریال کی تھی جو اب ۲ ریال کی ملنے لگی ہیں ، بجلی کے
نرخ بڑھ گئے ہیں ،کالم کی طوالت کی وجہ سے کافی حقیقتیں خذف کرنا پڑیں جو
کسی اگلی نشست میں گو ش وگذار کی جائیں گی۔
اس وقت کالم کا مقصد یہ سوال اٹھانا ہے کی اتنی تعداد میں
ہنرمند،ڈاکٹرز،انجینئرز، ماہر فنوں پردیسیوں کی واپسی حکومت پاکستان کیلئے
باعث پریشانی نہیں ہوگی کیا؟ اس سلسلہ میں حکومت پاکستان نے کیا اقدام
اٹھائے ہیں جس کے سامنے ایک تو زرمبادلہ میں واضح کمی آئے گی ،دوسرے اتنی
تعداد میں ہنرمندوں کی واپسی سوالیہ نشان ہے؟ ،لیکن کیوں ہوکون سا ان
پربوجھ ہونگے جہاں ۲۰ کڑور خجل ہورہے ہیں یہ بھی سہی ،اتنی تعداد میں
فیملیز بھی اپنے اپنے گھروں سیٹل ہو ہی جائیں گی ،فکر کس بات کی؟اس سلسلہ
میں کو ئی حکومتی اقدام نظر نہیں آرہے،اور نہ ہی میڈیانے کھل کر اس موضوع
پر کوئی بات اٹھائی!!!!بس پانامہ اور سیاسی اشرافیہ کی باہمی بندربانٹ اور
پارلیمانی جنگ.................................. |