سیاست کے میدان میں کامیابی کے لئے کسی بھی سیاسی جماعت
یا سیاسی کارکن کے لئے سب سے اہم اس کا قائد یا رہنما ہوتا ہے۔اگر سیاسی
رہنما میں قائدانہ صلاحیت موجود ہوں تو وہ اپنی جماعت کو عروج تک لے جاسکتا
ہے۔ان باتوں کی دلیل قائداعظم محم علی جناح اور ذولفقار علی بٹھو جیسی
شخصیات ہیں۔برصغیر کے مسلمانوں کی کامیابی میں دو باتیں نہایت اہم تھیں ایک
انکا اتحاد اور ایک جناح صاحب کی قائدانہ صلاحیت۔مسلم لیگ کی عظیم سیاست کے
بعد پاکستان میں ذولفقار علی بٹھو بھی اپنی جماعت کے کارکنان کے لئے ایک
عظیم قائد ثابت ہوئے اور یہی وجہ تھی کہ انکی جماعت نے عروج دیکھا۔
قائداعظم محمد علی جناح کے بعد لیاقت علی خاں نے مسلم لیگ کو سہارا دیا مگر
انکی شہادت کے بعد پاکستان کی سیاست ہچکولے کھانے لگی۔اسی طرح ذولفقار علی
بھٹو کے بعد انکی بیٹی بینظیر بھٹو نے پیپلز پارٹی کو سمبھالا مگر بے نظیر
بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی بھی وہ عروج نہ دیکھ سکی جو اسے بھٹو کے دور میں
حاصل تھا ۔پیر صاحب پگارا پیر مردان شاہ کی سیاسی جماعت کے پاس اگرچہ کبھی
اکثریت نہیں رہی مگر اپنی مجاہدانہ صلاحیتوں کے باعث انہوں اپنی جماعت اور
اپنے کارکنان کی اہمیت پاکستان بھر میں منوائے رکھی۔لیکن انکی وفات کے بعد
فنکشنل لیگ کی خاص شخصیات نے پارٹی کو خیر باد کہہ دیا۔
ملک کی موجودہ سیاسی صورت جس ڈگر پر موجود ہے شاید اس سے قبل کبھی نہ
تھی۔احتساب کا عمل شروع ہوچکا ہے۔مسلم لیگ ن کی ناؤ اس وقت پاناما کی بھنور
میں پھسی نظر آتی ہے۔ڈوبتے سیاست دانوں نے ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے
ڈوبیں گے کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے پر الزام لگانا شروع کردیئے
ہیں۔پاناما کیس میں جہاں شریف خاندان مشکلات کا شکار ہے وہیں عمران خان کے
خلا ف بھی پٹیشن دائر ہے جس کا فیصلہ دس اگست کو سامنے آجائے گا۔امید ہے اس
سے قبل عدالت شریف خاندان کے مستقبل کا بھی فیصلہ بھی سنا دے گی۔
اسحاق ڈار کا مشرف دور میں دیا گیا بیان ان کے گلے پڑ گیا تو وہیں نہال
ہاشمی کی تقریر نے ان کے گرد گھیرا تنگ کیا ہوا ہے۔خواجہ آصف کا اقامہ بھی
عثمان ڈار منظر عام پر لے آئے ہیں۔ان سیاست دانوں کے علاوہ دیگر کئی سیاست
دانوں پر بھی کرپشن،منی لانڈرنگ اور ملک سے غداری جیسے سنگی الزامات
ہیں۔ملک میں احتساب کا جاری عمل جاری رہنا چاہئے او باشعور عوام کا بھی یہ
مطالبہ ہے کہ اسمبلیوں میں وہی آئیں جو آئین کی شک نمبر ۲۶ اور ۳۶ پر پورا
ترتے ہوں ۔اگر پاکستانی عوام اس بات پر سختی سے عمل کرنے لگ جائیں کے ووٹ
اسی کو دینا ہے جو صادق اور امین ہو تو پھر شاید اسمبلی میں چند ایک سیاست
دان رہ جائیں اور باقی سب کاروبار کی حد تک محدود ہوجائیں ۔
اس صورت حال سے کیسے نمٹا جائے ؟کیا اسمبلیاں خالی ہونے کے ڈر سے ہم منی
لانڈرنگ،افیڈرین،رنٹل پاور،ملک سے غداری اور اداروں کے خلاف ذہر اگلنے
والوں کو معاف کردیں؟اور اگلی بار پھر اسمبلیوں میں بیٹھا دیں؟ہر گز
نہیں۔۔۔اگر آج ہم نے اپنے آنے والی نسلوں کی بہتری کا فیصلہ نہ کیا تو کل
ہمیں پچھتاوے کا کوئی حق نہ ہوگا۔ہمیں اس فرسودہ نظام سے روگردانی کرنا
ہوگی ۔اور نوجوانوں کو ملکی سیاست میں حصہ لینا ہوگا۔خود قائد بننا ہوگا
اور دیگر نوجوانوں کی رہنمائی کرنا ہوگی۔
اس وقت ملکی سیاست میں جن لوگوں کے ماضی صاف ہیں ان میں سر فہرست سراج الحق
ہیں۔ان کے علاوہ شیخ رشید احمد ،مصطفیٰ کمال ،پرویز الہیٰ ، اسد عمر اور
جمشید دستی وغیرہ پر بھی کوئی خاص الزام نہیں ہے۔ان افراد کو بھی سیاست میں
آگے آنا ہوگا۔جن کی سیاسی جماعتیں ہیں انہیں اپنی پارٹیوں کو مضبوط کرنا
ہوگا ۔اور ملک میں یونٹ کی سطح پر خود کو مضبوط اور منظم کرنا ہوگا۔عوام سے
رابطے بڑھانے ہونگے تاکہ ووٹ کا حصول آسان ہو۔کیوں کہ عوام ہی طاقت کا اصل
سر چشمہ ہیں۔جو کرپشن سے ]اک افراد کسی جماعت کے سربراہ تو نہیں مگر جماعت
کا حصہ ہیں انہیں پارٹی کارکنان میں اپنی اہمیت کا احساس اجاگر کرنا ہوگا۔
پیپلز پارٹی کو بھی چاہیے کہ وہ اب پارٹی کی کمان مکمل طور پر بلاول کے
ہاتھ میں جبکہ ن لیگ حمزہ شہباز کے ہاتھ میں دے دے۔اور ریاستی اداروں کو
تمام سیاست دانوں کا احتساب کا عمل جاری رکھنا ہوگا۔
اس کے ساتھ ہی وہ نوجوان جو اس وقت دیگر نوجوانوں میں شہرت کے حامل ہیں
انکو بھی ملکی بقا کے لئے سیاست میں حصہ لینا ہوگا۔سوشل ورکر عالمگیر
خان،اویس ربانی ، جنرل حمید گل کے فرزند عبداللہ حمید گل،ایدھی صاحب کے
صاحبزادے فیصل ایدھی اور جے ڈی سی کے رہنما ظفر عباس اس وقت نوجوانوں میں
اچھی شہرت کے حامل ہیں ان افراد کو بھی ملکی حالات کو بدلنے کے لئے سیاست
میں قدم رکھنا ہوگا۔
اگر نوجوان طبقہ سیاست میں حصہ لے اور ریاستی ادارے سب کا احتساب کریں تو
انشا اللہ پاکستان ضرور ترقی کی راہوں پر گامزن ہوگا ۔ |