تعلیم نسواں کا ایک تجزیاتی جائزہ

اسلام نے عورت کے لئے ذمہ دارانہ معاشرتی حیات کا تصور دیا ہے۔ وہ بیٹی، بہن، بیوی اور ماں ہر روپ میں ہر مسلمان کی زندگی میں مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔ اسی لیے اسلام اخلاقی و روحانی، علمی و فکری کسی اعتبار سے عورت کو پیچھے نہیں رکھتا،صالح اور نیک معاشرے کی بنیاد رکھنے میں عورت ہی پہلا مدرسہ ہے،عورت ہی تمدن وتہذیب کی جڑ ہے، وہ تخلیق انسانیت کا فسوں ہے، معاشرت کا عمل بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی اس وقت سے شروع ہوجاتا ہے جب ماں کی گود اس کےلیےگہوارہ بنتی ہے،ہر بچہ دین فطرت پر ہی پیدا ہوتا ہے، اس کے ماں باپ صرف اس کے مذہبی کردار کی صورت گری کرتے ہیں، اس اعتبار سے معاشرے میں مذہب کی سب سے بڑی امین اور محافظ ماں ہے، وہی قوم کی حقیقی معمار ہے ،اس لئے عورت کو کتاب وسنت کی صحیح مذہبی تعلیم دینا حیات طیبہ کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے از بس ضروری ہے۔کیونکہ کتاب اللہ اور سنت رسول کو تھام لینا ہی ہر جہالت وگمراہی سے دوری کا سبب ہے- معاشرہ کی گمراہی کا سب سے بڑا سبب آج پہلی درس گاہ یعنی خواتین اہل خانہ کا تعلیم شریعت سے بے بہرہ رہنا ہے، پہلا درس گھر سے ملتا ہے، جب گھر مثل درس گاہ بن جائے تو افراد معاشرہ مہذب طالبعلم ہوجائیں گے،ایک تعلیم یافتہ دین دار عورت ہی اپنی دو حیثیتوں یعنی بیوی اور ماں بن کر فطرت کے دو عظیم الشان مقاصد تسلسل نسل انسانی اور تشکیل وتعمیر معاشرہ وملت کی تعمیل وتکمیل کر سکتی ہے،مرد کی تعلیم، واحد کی تعلیم ہے اور عورت کی تعلیم درحقیقت تمام خاندان کی، ایک نسل کی تعلیم ہے،حدیث پاک میں ہے:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ، (مسلم،1467)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دُنیا سامان ہے اور اس کے سامان میں سب سے زیادہ خیر والی چیز نیک بیوی ہے
وابن ماجه بلفظه ( إِنَّمَا الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَلَيْسَ مِنْ مَتَاعِ الدُّنْيَا شَيْءٌ أَفْضَلَ مِنْ الْمَرْأَةِ الصَّالِحَةِ، (ابن ماجه،1855)

"دُنیا سامان ہے اور دنیا کےسامان میں نیک بیوی سے زیادہ خیر والی چیز کچھ بھی نہیں ہے"
لہذا یہ فریضہ ایک باشعور اپنی عفت وعصمت کی حفاظت کرنے والی تعلیم یافتہ نیک سیرت خاتون خانہ ہی سرانجام دے سکتی ہے، ورنہ تو عصر حاضر میں بنام مہذب اخلاق و شرافت سے عاری قوموں نے مردوزن میں مساوات کے دلفریب نعروں کے ذریعے عزت خانہ کو شمع محفل بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اور اس کےلیے عیاری ومکاری کے ہر داؤ آزمائے، لیکن آج اس کے ملمّع ساز معاشرہ کی قلعی کھل چکی بے حیائی اور بدکاری جیسے ناسور اس مادر پدر آزاد معاشرے میں ایسے سرایت کرچکے ہیں کہ تہذیبی تنزلی تو ہے ہی ساتھ میں ان کی نسلیں اپنی بقا کی جنگ کرتی نظر آرہی ہیں- ایڈز جیسی لاعلاج بیماری ان کی جڑوں کو ختم کر رہی ہے، پورا مغربی معاشرہ بے حیائی اور زنا کاری میں اپنی مثال نہیں رکھتا جس کے چاہنے والے تمام دنیا پر ان کی حاکمیت کا دعوی کرتے ہیں وہ خود گھریلو اور خاندانی امن و سکون اور مسرت سے محروم ہیں- ان کے گھروں میں ماحول جنگلاتی حیات کے مثل خود غرضی اور جنسیت زدہ ہے اور انھیں انعام کی شکل میں اس جنسی بے راہ روی کے سبب لاعلاج بیماریوں کاتحفہ بھی میسر ہے،کہاں گئی ان کی جدید تعلیم جس کی افادیت اور معنویت پر مغرب کے ذہنی غلام زمین و آسمان کے قلابے ملاتے نہیں تھکتے،

جب کے تہذیب مہذّب، اسلام کے عطا کردہ اصول میں غور کریں تو ادراک ہوجائے گا کہ اسلام اعتدال کی تعلیم دیتا ہے، وہ نہ تو عورتوں کو دیوانہ وار، شمع بزم بننے کےلیے میدان عمل میں آنے کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ان کو یکسر ہر قسم کے معاملات سے روکتا ہے اسی لیےعورت کو صرف اقتصادی آزادی کے حصول کے لئے تعلیم دینا اسلامی مقصود نہیں ہے ،کیونکہ اس سے خاندانی وحدت کا رشتہ جو بنی نوع انسان کی روحانی زندگی کا جزو عظیم ہے، ٹوٹ جاتا ہے ،اسی لیے اسلام ان کی صنفی تخلیق،جسمانی نزاکتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے قیود و شرائط کے ساتھ انہیں ان تمام کاموں کی اجازت دیتا ہے،جن کی انہیں دنیوی یا اخروی اعتبار سے ضرورت ہے

چونکہ نجات کے لئے عقائد پر یقین کامل اوراحکام شریعت پرعمل ضروری ہے اور عمل کرنے کےلیے ان کاعلم حاصل کرنا لازم ہے جبکہ شریعت نےاحکامات، عبادات و معاملات میں مردو عورت کی کوئی تخصیص نہیں رکھی، بلکہ دونوں ہی اپنے کردہ اور ناکردہ کے جوابدہ ہیں، تو اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ عمل کےلیے دونوں کو علم حاصل کرنا ناگزیر ہے،اسی لئے قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے امہات المومنین کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ (احزاب: ۳۴)

’’اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور احکام(رسول کی احادیث) پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ لطف کرنے واﻻ خبردار ہے‘‘

آیات اللہ سے مراد قرآن ہے اور حکمت سے قرآنی اسرار اور رسول اللہ کی سنت جو حدیث پاک میں مذکور ہے، مراد ہے، اور انہیں ذکر یعنی تلاوت کے ذریعہ ملفوظی شکل میں یاد رکھنے، اور ان میں غور و فکر اور احکامات کی تخریج کےلیے لازمی علوم وغیرہ سب کی تحصیل کا حکم اس میں شامل ہے اس سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ نے ازواج مطہرات کو قرآن و حدیث میں بیان کردہ علوم و معارف کے حصول اور حاصل شدہ علوم کی حفاظت و اشاعت کا حکم دیا، اور اس کے عموم میں امت کی تمام عورتوں کا شمول ہے،
اس کےلیےحضور علیہ السلام نے خود حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے لئے تعلیم کا انتظام فرمایا اسی طرح ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بہت عظیم معلمہ اور فقیہہ تھیں، شاعری، طب اور تاریخ و فلسفہ پر بڑا عبور رکھتی تھیں انہی کے بارے حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا آدھا دین عائشہ(رضی اللہ عنھا) کی وجہ سے محفوظ ہوگا۔
" خذوا شطر دينكم عن الحميراء" ( المنار المنيف /60 ونقله العجلوني في كشف الخفاء 1/450)

نبی علیہ السلام نے فرمایا:تمھارے دین کا ایک کنارہ (آدھا) حمیراء (عائشہ رضی اللہ عنھا) سے اخذ کرو۔

یعنی آدھا دین جو باہر کی زندگی سے متعلق تھا صحابہ نے سمجھااور آدھا دین ازدواجی زندگی سے متعلق ہے وہ دین میری بیویوں نے سیکھا اور انہوں نے امت تک پہنچایا،آٹھ ہزار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے شاگرد ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی تعداد ازدواج کی متعدد حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی تھی کہ عورتیں بھی مسائل سیکھ سکیں اور ازواج مطہرات کے واسطے سے تعلیم نبوت عام عورتوں تک بھی پہونچ سکے۔ اسی لئے دور نبوت میں بھی عورتوں کی تعلیم کا اہتمام کیا گیا،نبی اکرم ﷺ مردوں کی طرح عورتوں سے بھی وعظ و نصیحت کرتے اور پیغام خداوندی سناتے۔ چناں چہ کتب حدیث میں عورتوں کی تعلیم اور ان سے وعظ کے متعدد واقعات مذکور ہیں، حضرت عبداللہ بن عباس ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ وَمَعَهُ بِلَالٌ ، فَظَنَّ أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعِ النِّسَاءَ ، فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ ، فَجَعَلَتِ الْمَرْأَةُ تُلْقِي الْقُرْطَ وَالْخَاتَمَ ، وَبِلَالٌ يَأْخُذُ فِي طَرَفِ ثَوْبِه(بخاری: کتاب العلم،97،مسلم،884)

’’رسول اللہ ﷺ نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ بلال رضی اللہ عنہ تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خیال کیا کہ (مردوں سے وعظ کے دوران) عورتیں آپ کی آواز نہ سن سکیں چنانچہ آپ نے ان سے وعظ کیا اور انہیں صدقہ کا حکم دیا تو عورتیں اپنی بالیاں اور انگوٹھیاں نکال کر دینے لگیں اور حضرت بلال کپڑے کےدامن میں لے رہے تھے‘‘۔
اس روایت سے یہ ثابت ہوتا ہیکہ عورتوں سے وعظ کرنا، انہیں احکام اسلام کی تعلیم دینا، انہیں صدقہ دینے پر آمادہ کرنے اور ان کی تعلیم کے لئے علاحدہ مجلس کا اہتمام کرنا مستحب ہےاس کےلیے باقاعدہ صحابیات نے حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں عریضہ بھی پیش کیا تھا‫...

(عَنْ أَبِي سَعِيدٍ(الخدريِّ) رضي الله عنه أنَّه قال:جَاءَتِ امْرَأَةٌ(هي أسماءَ بنت يزيد بن السَّكن)إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ؛ ذَهَبَ الرِّجَالُ بِحَدِيثِكَ، فَاجْعَلْ لَنَا مِنْ نَفْسِكَ يَوْمًا نَأْتِيكَ فِيهِ؛ تُعَلِّمُنَا مِمَّا عَلَّمَكَ اللهُ، فَقَالَ صلَّى الله عليه وسلَّم لهنَّ:اجْتَمِعْنَ فِي يَوْمِ كَذَا وَكَذَا، فِي مَكَانِ كَذَا وَكَذَا، فَاجْتَمَعْنَ فَأَتَاهُنَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَلَّمَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَهُ اللهُ، ثُمَّ قَالَ) لهنَّ: مَا مِنْكُنَّ امْرَأَةٌ تُقَدِّمُ بَيْنَ يَدَيْهَامِنْ وَلَدِهَا ثَلَاثَةً، إِلَّا كَانَ لَهَا حِجَابًا مِنَ النَّارِ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ(هي أمُّ سُليمٍ ،أو أمُّ أيمن أو أمُّ مبشِّرٍ): (يَا رَسُولَ اللهِ؛ و اثْنَيْنِ؟قَالَ أبو سعيدٍ: فَأَعَادَتْهَا مَرَّتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ صلَّى الله عليه وسلَّم: وَاثْنَيْنِ، وَاثْنَيْنِ، وَاثْنَيْنِ( ثلاثًا، )( بخاري،7310،101،1249،مسلم،2634)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ عورتوں نے دربار نبوی میں یہ شکایت کی کہ مرد آپ سے استفادہ میں ہم سے سبقت لے گئے، اس لئے آپ ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی دن متعین کردیجئے، اس دن ہم آپ کے پاس حاضر ہو جایا کریں تاکہ اللہ نے جو علم آپﷺکو دیا ہے آپﷺ ہمیں اس کی تعلیم دیں، آپﷺ نے فرمایا کہ تم عورتیں فلاں دن فلاں مقام پر جمع ہو جایا کرو، وہ سب اس جگہ جمع ہوگئیں پھر آپﷺ تشریف لائے اور عورتوں کو تعلیم دی پھر فرمایا کہ تم میں سے جس عورت کے تین بچے وفات پاجائیں وہ بچے اس کے لئے دوزخ سے حفاظت کا دریعہ بنیں گے، ایک عورت نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول دو کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس خاتون نے اپنا سوال دہرایا تو آپﷺ نے فرمایا دو، دو اور دو بھی۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کی اچھی تعلیم و تربیت کو اتنا ہی اہم اور ضروری قرار دیا ہے جتنا کہ مردوں کے لیےضروری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

‘‘الرَّجُلُ تَکُوْنُ لَہُ الْأمَۃُ فَیُعَلِّمُھَا فَیُحْسِنُ تَعْلِیْمَھَا، وَ یُؤَدِّ بُھَا فَیُحْسِنُ أدَبَھَا، ثُمَّ یُعْتِقُھَا، فَیَتَزَوَّجُھَا، فَلَہُ أجْرَانِ’’

( ترجمہ: اگر کسی شخص کے پاس ایک لونڈی ہو پھر وہ اسے خوب اچھی تعلیم دے اور اس کو خوب اچھے آداب مجلس سکھائے، پھر آزاد کرکے اس سے نکاح کرے تو اس شخص کے لئے دوہرا اجر ہے۔ (الفتح الباري،2849، 6/145، ،مسلم،1/135)

علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کے تحت لکھتے ہیں:
الاعتناء بالاہل الحرائر فی تعلیم فرائض اللہ وسنن رسولہ اکد ‫من الاعتناء بالاماء (فتح الباری: کتاب العلم، باب تعلیم الرجل امتہ)

’’آزاد گھر والوں کو اللہ کے فرائض اور اس کے رسول کی سنتوں کی تعلیم پر توجہ دینا باندی کی تعلیم پر توجہ دینے سے زیادہ اہم اور ضروری ہے‘‘
جب اسلام نے باندیوں تک کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کو کار ثواب قرار دیا ہے تو وہ آزاد لڑکوں اور لڑکیوں کے تعلیم سے محروم رکھے جانے کو کس طرح گوارا کرسکتا ہے، حضور علیہ السلام نے خود حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے لئے تعلیم کا انتظام فرمایاحضرت شفا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاکو کتابت سکھائی تھی،

أبو سليمان مالك بن الحويرث -رضي الله تعالى عنه اپنے اصحاب کے ساتھ حضور کی بارگاہ میں آئےجب واپسی کا وقت آیا تو حضور نے انھیں نصیحت فرمائی
فقال: (ارجعوا إلى أهليكم، فأقيموا فيهم، وعلموهم ومروهم........الخ(] بخاري،1/128، رقم:631،مسلم،1/465)

فرمایا :تم اپنے گھروں میں واپس جاؤ، اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہو، ان کو دین کی تعلیم دو اور ان سے احکامِ دینی پر عمل کراؤ
ایک روایت میں بچیوں کی تعلیم کے تعلق سے آیا،
حديث ابن مسعود
عند الطبراني : مَن كانت له ابنة،فأدَّبها وأحسن أدبها، وعلَّمها فأحسن تعليمها، وأوسع عليها من نعمة الله التي أوسع عليه،(اسبغ علیہ کانت لہ منعۃ وسترۃ من النار، )
(المعجم الکبیر: 1/197، روایت : 10447)

’’جس کے پاس لڑکی ہو اور اس نے اسے اچھا ادب سکھلایا اور اچھی تعلیم دی اور اس پروہ انعامات کو وسیع کیا جو کہ اللہ نے اس کو دیا ہے تو وہ لڑکی اس کے لئے جہنم سے رکاوٹ اور پردہ بنے گی‘‘

حديث ابن عباس عند الطبراني أن هذه البِشارة، وهي الحجاب من النار، لمن ولي من هذه البنات شيئًا (فأنفق عليهن وزوَّجهنَّ وأَحسَن أَدَبهن)( أبو يعلى،2457،طبرانی ،1154، ابن ماجه،3670،وابن حبان،2934)

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے طبرانی کی ایک روایت ہے کہ یہ بشارت یعنی جھنم سے ڈھال بننا اس کےلیے ہےجو لڑکی میں سے کسی کا والی ہواور ان پر خرچ کیا اور ان کی شادی کردی اور اچھا ادب سکھلایا،اچھی تعلیم دی-

خواتین کی بے شعوری کے متعدی اثرات ان بچوں پر پڑیں گے جن کے لئے اس کی گود شعور و آگہی اور تعلیم و تربیت کی پہلی درسگاہ ہے، اور حضور علیہ السلام نے جو بچوں کو سات سال میں نماز کی طرف راغب کرنے اور بچپن کی تربیت سے متعلق ارشادات فرمائے ان کا اجراء اور نفاذ ایک باشعور تعلیم یافتہ خاتون ہی کر سکتی ہے- مردوں کی ذمہ داری میں ایک عام حکم کے ذریعے خواتین اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے بچنے کا سامان کرنے کا حکم دیا گیا

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا"(التحریم،6)

اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ

اور فرمایا: وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ(شعراء،214)
اپنے قریبی رشتہ والوں کو ڈراو،

وقال صلى الله عليه وسلم "عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤول عَنْ رَعِيَّتِهِ، الإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْؤولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا،وَالْخَادِمُ رَاعٍ فِي مَالِ سَيِّدِهِ ومَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، ( بخاری:۸۹۳)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:سنو! تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اس سے (روزِقیامت) اپنی اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیاجائے گا۔ امام نگراں ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا، ایک مرد اپنے گھر والوں کا نگراں ہے۔ اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی نگراں ہے، اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا۔ غلام اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے وہ اس کے بارے میں جواب دہ ہے۔ سنو! تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اس سے اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھا جائے گا“

حضور علیہ السلام نےسورة البقرة کی آیات کے متعلق فرمایا:
”تم خود بھی ان کو سیکھو اور اپنی خواتین کو بھی سکھاؤ“ (سنن دارمی:۳۳۹۰)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: ( لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ، إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ مِنَ الْبَيْتِ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ ( مسلم780،2/188،احمد2/288)

’’ اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناو { بلکہ اس میں نماز پڑھا کرو ، قرآن مجید کی تلاوت کیا کرو } کیونکہ جس گھر میں سورۃ البقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے اس گھر سے شیطان بھاگ کھڑا ہوتا ہے
خلفائے راشدین کے دور میں بھی خواتین کی تعلیم و تربیت کی طرف بھرپور توجہ دی گئی۔ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی مملکت کے تمام اطراف میں یہ فرمان جاری کردیا تھا :

علّموانساؤکم سورة النور ( الدر المنثور:۵/۱۸)

” اپنی خواتین کو سورة النور ضرور سکھاؤ
کیوں ؟؟؟جواب قران پاک میں ہے
قال :" الله تعالى :" سورة أنزلناها وفرضناها وأنزلنا فيها آيات بينات لعلكم تذكرون " (سورة النور،1)

یہ ہے وه سورت جو ہم نے نازل فرمائی ہے اور مقرر کردی ہے اور جس میں ہم نے کھلی آیتیں (احکام) اتارے ہیں تاکہ تم یاد رکھو،
اس لیے کہ اس میں خانگی و معاشرتی زندگی کے متعلق بے شمار مسائل اوراَحکام موجود ہیں“
یہ ساری ذمہ داریاں اور گھر کے دینی ماحول کو قائم کرنے کےلیے ایک تعلیم یافتہ، صالح خاتون کی موجودگی اشد ضروری ہوگی، حتی کہ اس تعلیم کی خاطر عورتیں اپنی ازدواجی زندگی میں احتیاط برتیں تو ان کو جنت کی خوشخبری تک عطا کی گئی
ابن بشران عن أنس."أيما امرأة قعدت على بيت أولادها فهي معي في الجنة". (التنويرشرح الجامع الصغير،4/460،رقم،2988)

جو (بیوہ)عورت اپنے بچوں کے گھر میں(دوسری شادی نہ کرتے ہوئے) بیٹھ جائے وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگی،

مراد یہ ہیکہ کوئی بیوہ عورت جس کا شوہر انتقال کر جائے اور وہ اپنے اولاد کی محبت اور ان کی تعلیم وتربیت اور کفالت کے خاطر دوسری شادی کرنے سے رک جائے تو وہ جنت میں سابقین اولین کی صفوں میں ہوگی ،اس کی وضاحت اس حديث سے ہوتی ہے

ابن بشران عن أنس: "أنا أول من يدخل الجنة لكن تبادرني امرأة فأقول ما أنت، فتقول أنا امرأة قعدت على أيتامي". (أخرجه ابن بشر في أماليه،1/رقم،869، وأبو يعلى،6651،ديلمي،58)

حضور علیہ السلام نے فرمایا:جنت میں میرا دخول سب سے پہلے ہوگا، تبھی ایک عورت سبقت کرے گی تو میں دریافت کرونگا تم کون ہو؟؟؟ وہ کہے گی میں وہ عورت ہوں جو یتیموں کی تعلیم تربیت کی خاطر دوسری شادی سے رک گئی تھی،
یہ حقیقت ہیکہ کسی بھی قوم اور اس کے نونہالوں کو مجموعی طور پر دین سے روشناس کرانے، تہذیب وثقافت سے بہرہ ور کرنے، اوصاف حمیدہ سے مزین کرنے اورصالح نشوونمامیں اس قوم کی خواتین کا کرداراہم بلکہ مرکزی اور اساسی ہوتا ہے
*تفقہ فی الدین:*
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا انصار کی ان عورتوں کی تعریف کرتی ہیں جو ’’تفقہ فی الدین‘‘ حاصل کرنے کی متمنی اور اس میں منہمک تھیں جیسا کہ امام بخاری نے آپ رضی اللہ عنہا کا قول ایک باب باندھ کر ان الفاظ میں نقل کیا ہے:

( باب الحياء في العلم. وقال مجاهد: لا يتعلم العلم مستحي ولا مستكبر. وقالت عائشة: نعم النساء نساء الأنصار لم يمنعهن الحياء أن يتفقهن في الدين).(بخاری: کتاب العلم، باب الحیاء فی العلم امام مجاہد نے کہا شرم کرنے اور تکبر کرنے والا علم نہیں حاصل کر پاتا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’انصار کی عورتیں کتنی بہتر ہیں دین میں تفقہ حاصل کرنے میں انہیں حیاء مانع نہیں ہے‘
مسئلہ تعلیم میں شریعت نے مرد و عورت کی کوئی تفریق نہیں رکھی ہے، مرد کی طرح عورت کو بھی تعلیم کا حق ہے، کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے

*فرض عم:*
عن أنس بْنِ مَالِكٍ قَالَ :عن النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم أنه قالَ : ( طَلَبُ العِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلَىْ كُلِّ مُسْلِمٍ ) . رواه ابن ماجه ( 224 )

"ہر مسلمان پر علم کا حاصل کرنا فرض ہے"
اس حدیث کے عمومی حکم میں خواتین اسلام بھی شامل ہیں چنانچہ علامہ سخاوی نے فرمایا ہے کہ بعض مصنفین نے اس حدیث کے آخر میں ’’ومسلمۃ‘‘ کی زیادتی کردی ہے جس کا اس حدیث کی کسی بھی سند میں تذکرہ نہیں ہے، اگرچہ کہ اس زیادتی کا معنی صحیح ہے‘‘

معنوی طور پر اس زیادتی کے صحیح ہونے کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ام کثیر بنت یزید انصاری کی بہن سے فرمایا:

فلتسأل فان طلب العلم فریضۃ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،8/283)

’’پوچھ لو (شرم مت کرو) کیوں کہ علم کا حاصل کرنا فرض ہے‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تحصیل علم کے عموم میں مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہیں، اس لئے کہ آپ نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ علم کا حاصل کرنا فرض ہے اگر علم کا حصول عورتوں پر فرض نہ ہوتا تو آپ ان کو مخاطب بناکر یہ بات نہ کہتے،
’ بعض فقہاء نے تو ان عورتوں پر علوم شرعیہ کا سیکھنا واجب قرار دیا ہے جو اس کی اہلیت رکھتی ہوں جیسا کہ حضرت عائشہ اور تابعات عورتیں اس سلسلے میں اگر عورتیں اپنے پیش آمدہ مخصوص مسائل کی تعلیم خود حاصل کریں تو زیادہ بہتر ہوگا جیسا کہ انصار کی عورتوں کے تعلق سے گزرا وہ اسی طرح مسائل حیض کےسلسلے میں بھی ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف رجوع کیا کرتیں تھیں جو ان کےلیے کسی جھجھک کے بغیرمخصوص مسائل کے دریافت کرنے میں سہولت کو واضح کرتا ہے-

*تعلیم نسواں اور ذمہ داریاں:*
ہاں یہ بات قابل توجہ ضرور ہیکہ خواتین کی تعلیم کا نظم مکمل شرعی پردہ کا لحاظ رکھتے ہوئے ہونا چاہیے کیونکہ مقصود اسلامی ،عورت کو صرف اقتصادی آزادی کے حصول کے لئے تعلیم دینا نہیں ہے، بلکہ صالح معاشرہ ،تمدن وتہذیب کی تخیلق کار باشعور خاتون کا وجود مسعود نعمت خداوندی کی شکل مہیا کرانا ہے،لیکن جنسی نزاکتوں سے بے بہرہ مخلوط،سیکولر تعلیم اس مقصد کو سبوتاژ کر دے گا،عورت کو سیکولر تعلیم دینے کے معانی یہ ہیں کہ ایک پورے خاندان کو بلکہ ایک پوری نسل کو بے گانہ دین ومذہب بنا ڈالا جائے کیونکہ عورت کے دین ومذہب سےبیگانگی کالازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ پورا معاشرہ اور ساری قوم ابتداء میں دین سے بے تعلق اور بالآخر دین سے منحرف ہوجائے گی
چنانچہ ڈاکٹر اقبال"ضرب کلیم " میں لکھتے ہیں:
تہذیب فرنگی ہے، اگر مرگ امومت
ہے حضرت انسان کے لئے اس کا ثمر موت
بے گانہ رہے دین سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق ومحبت کے لئے علم وہنر موت

فی زمانہ عورت کی عفت وعصمت کو سب سے زیادہ اندیشہ ان مخلوط اداروں سے ہے جن میں مرد وزن آزادانہ مل جل کر قوم کو ”ترقی،، کے اوج ثریا پر پہنچانے کی فکر میں گھلتے جارہے ہیں کیونکہ مردوزن کا اختلاط فتنوں کے نئے دروازے کھولتا ہے آج کافر قومیں اہل اسلام کو حکومتی ریشہ دوانیوں کے زریعے مخلوط تعلیم اور سیکسوئل ایجوکیشن کو اختیار کرنے پر مجبور کررہی ہیں مسلمان اگر اس سلسلے میں بیدار ذہنی کا استعمال نہیں کریں گے تو اس کے نتائج بہت ہی بھیانک ہوں گے جس کی آہٹ کا احساس چند واقعات مشتھرہ سے بخوبی ہونے لگا ہے لہذا اپنے دین وایمان اپنی نسلوں کی امین خواتین کی مذہبی تعلیم آج وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن گئی ہے، "اقبال اور مسئلہ تعلیم میں ہے، ڈاکٹر اقبال کہتے ہیں "علم دینی مفید ہے جو دین کے تابع رہے، فرماتے ہیں ”علم سے مراد وہ علم ہے جس کا دار ومدار حواس پر ہے، عام طور پر میں نے علم کا لفظ انہیں معنوں میں استعمال کیا ہے، اس علم سے ایک طبعی قوت حیات آتی ہے جس کو دین کے ماتحت رہنا چاہئے ،اگر دین کے ماتحت نہ رہے تو محض شیطانیت ہے"
لہذا ان کے لیے پہلے نمونۂ حیات دختر رسول کی پاکیزہ زندگی کے شب وروز کو ذہن و دل میں میں بسانے کا اہتمام ہونا چاہیے کیونکہ اولیں نقش جب ان کے قلوب واذہان پر سیرت فاطمۃ الزہراء کا منقش ہوگا تو الحاد وبے دینی و فکری وجنسی بے راہ روی کا شکار ہونے کا خدشہ بھی نہیں رہے گا جب ان کی رہنمائی ہر معاملے میں دختر رسول کی پاکیزہ زندگی کے افکار فردوسی کریں گے تو ان کی مہمیز حیات اسلام کی سرحدوں سے تجاوز کرنے کے خیال سے کوسوں دور ٹھر جائے گی،
ڈاکٹر اقبال کہتے ہیں:
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اس علم کو ارباب نظر موت
اس شعر میں ”علم،، سے مراد مغربی اور لادینی تعلیم ہے اور ”نازن،، سے مراد مغرب زدہ عورت ہے۔

*مخلوط تعلیم:*
یہ ہوسکتا ہیکہ مسلمان اپنی علاحدہ لیڈیز کالیجز کے قیام کا مطالبہ کریں،اس کے لیے قوم کا درد رکھنے والے مفکرین نے نظریہ عمل بھی پیش کیا ہے،چنانچہ ڈاکٹر اقبال نے آخری بار انجمن حیات اسلام لاہور کے جلسہ کی صدارت کرتے ہوئے جہاں یہ تجویز پیش کی کہ انجمن حمایت اسلام لڑکیوں کے لئے ایک علیحدہ نصاب مرتب کرے اور اس میں امتحان لے ،وہاں مشورہ بھی دیا کہ انجمن پہلے ایک امتحان لینے والے ادارے کے طور پر کام کرے اور پھر اس دائرہ کو خواتین کی آزاد یونیورسٹی میں تبدیل کردے۔ (اقبال اور مسئلہ تعلیم،ص:۴۸۴)
لیکن اگر اس میں کامیابی نہ ملے توہمارے معلمین شرعی حدود ومسائل سے واقف کار ہوں کہ وہ اپنی تدریس میں ہی اسلامی شرعی تعلیم کا نمونہ پیش کریں اور اس طرح کے پیش آمدہ فتنوں کا سد باب کرسکیں اور وہ تعلیم دیں جو اسلامیات کی پابند ہواور خاص طور پر اس گوشۂ حیات کی اہمیت کو ان کے ذہنوں میں راسخ کردیں کہ "عفت وعصمت وہ گوہر گراں مایہ ہے جس سے انسانیت کے تاج کی زیب وزینت ہے، یہ وہ جوہر ہے جس کی قیمت پہچاننے اور قدر کرنے سے انسانیت کوچار چاند لگ جاتے ہیں اور اس کی بے قدری سے انسانیت پامال ہوجاتی ہے" سورہٴ احزاب میں ارشاد ہوتا ہے:ِ

وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (الاحزاب:۳۵)

”اپنی عصمت کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو بکثرت یاد کرنے والے مرد اور عورتیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے معافی اور بڑا ثواب رکھا ہے،،
سیرت مصفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدنظر رکھیں
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال كان النبي صلى الله عليه وسلم أشد حياء من العذراء في خدرها(بخاری، 3369)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کنواری دلہن سے زیادہ شرم وحیا والے تھے،

وعن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال إن الحياء والإيمان قرناء جميعا فإذا رفع أحدهما رفع الآخر .وفي رواية ابن عباس فإذا سلب أحدهما تبعه الآخر . رواه البيهقي في شعب الإيمان(مشکوٰۃ، 1019)

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حیاء اور ایمان کو ایک دوسرے کے ساتھ یکجا کیا گیا ہے لہذا جب کسی کو ان دونوں میں سے کسی ایک سے محروم کیا جاتا تو وہ دوسرے سے بھی محروم رکھا جاتا ہے اور ایک دوسری روایت جو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے منقول ہے یوں ہے کہ ان دونوں میں سے جب ایک کو دور کیا جاتا ہے تو دوسرا بھی جاتا رہتا ہے۔

یعنی ایمان اور حیاء لازم ملزوم ہیں توجو شخص ایمان سے محروم رہتا ہے وہ حیاء سے محروم رکھا جاتا ہے اور جس میں حیاء نہیں ہوتی اس میں ایمان بھی نہیں ہوتا
پھر جس تعلیم کاحصول شرم وحیا سے عاری کرتے ہوئے، عزت وعصمت کے تاروپود کوبکھیردے اسے علم کے نام سے موسوم کرنا ہی جھالت ہوگی کیونکہ علم تو نور ہے اس کے روشنی سے کردار واخلاق کےساتھ تن بدن منور ہوجاتے ہیں، تعلیم نسواں کے مقاصد، تمدن کی نمو، عورت کے جذبہ زوجیت اور امومت کی تعمیر وتر قی، اس کی عفت وعصمت کی حفاظت ،اور اس کو اپنے بنیادی فرائض بطریق احسن ادا کرنے کے قابل بنانا ہے۔
علم عصمتوں کی حفاظت کرتا ہے، تواگر پھر بھی جدید تعلیم کی آڑ میں مغرب زدہ ذہنیت کی حامل نسوانی اطوار سے عاری عورتیں خاتون خانہ نہ رہتے ہوئے، شمع بزم بننے کو ترجیح دیں اورجب تعلیم غیر اسلامی اور لادینی ہو تو ایسی تعلیم سے باز رہنا ہی بہتر ہے، ان کے لیے ڈاکٹر اقبال کا ایک شعر پیش کرتے ہوئے بات ختم کرتا ہوں.
عصمتیں علم پر مقدم ہیں
آج بہتر ہے بیٹیاں نہ پڑھیں
اللہ رب العزت اپنے حبیب پاک و دختر حبیب پاک کے صدقے قوم مسلم کو پاکیزہ علم و فکر کا امین بنائے..........

Irfan raza misbahi
About the Author: Irfan raza misbahi Read More Articles by Irfan raza misbahi: 15 Articles with 37274 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.