ماہِ ذی قعدہ (جسے حج کا دوسرا مہینہ اور چار عظمتوں
والے مہینوں میں سے پہلا مہینہ کہا جاتا ہے) اسلامی تقویم کے اعتبار سے
گیارہواں مہینہ کہلاتا ہے۔ اس مہینہ کی عظمت و فضیلت کے لئے یہی کچھ کافی
ہے کہ اس میں عام طور پر دُنیا بھر سے ’’حج‘‘ جیسی عظیم الشان عبادت اداء
کرنے کے لئے حجاجِ کرام حرمین شریفین کی طرف رخت سفر باندھ کر وہاں کی
حاضری کی سعادت حاصل کرتے ہیں ، لیکن پھر بھی اﷲ تعالیٰ نے ماہِ ذی قعدہ کو
خصوصی شرف و فضیلت بخشی ہے اور اس کو اُن چار مہینوں میں شامل فرمایا ہے کہ
جن کی عظمت و بزرگی اسلام سے پہلے بھی تھی اور اسلام کے بعد بھی ہے ، اور
وہ چار مہینے یہ ہیں : (۱) ذی قعدہ (۲) ذی الحجہ (۳)محرم (۴) اور رجب ۔ ان
مہینوں کی عظمت و بزرگی اسلام سمیت دوسرے آسمانی مذاہب میں بھی تسلیم کی
گئی ہے ، یہاں تک کہ مشرکین مکہ کفر و شرک کی حالت میں بھی ان چاروں مہینوں
کی عظمت و فضیلت کے کھلے دل سے قائل تھے ۔
اسلام کے آغاز تک ان چاروں مہینوں میں جہاں عبادت و طاعت کی خاص فضیلت
تسلیم کی جاتی تھی تو وہیں ان میں جہاد و قتال وغیرہ کرنا بھی منع سمجھا
جاتا تھا ، اور اسلام میں تو اب بھی ان مہینوں میں عبادت و طاعت کی فضیلت
برقرار ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ترجمہ: جب سے اﷲ
تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اُس وقت سے (لے کر آج تک) مہینوں کی
تعداد اﷲ تعالیٰ کے یہاں بارہ (۱۲) ہے ۔ ان میں سے چار مہینے (ذی قعدہ ، ذی
الحجہ ، محرم اور رجب) عظمت و بزرگی والے ہیں ۔ یہی ہے سیدھا دین ۔ لہٰذا
ان مہینوں میں اپنے اوپر ظلم مت کرو!……‘‘ (سورۂ توبہ : ۳۶/۱۰)
اور حدیث شریف میں حضرت ابو بکرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲؐ نے ارشاد فرمایا
:’’ جس دن سے اﷲ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اُس دن سے لے کر آج تک
زمانہ اُسی حالت پر گھوم پھر کر واپس آگیا ( یعنی اب اس کے دنوں اور مہینوں
میں کمی و زیادتی نہیں ہے جو زمانۂ جاہلیت میں مشرک کیا کرتے تھے، بلکہ اب
وہ ٹھیک ہوکر اُسی طرز پر واپس آگیا ہے جس طرز پر اپنی ابتدائی اصلی صورت
میں تھا ) ایک سال بارہ (۱۲) مہینوں کا ہوتا ہے ۔ ان میں چار مہینے عزت و
حرمت والے ہیں ، جن میں تین مہینے تو مسلسل ہیں یعنی ذی قعدہ ، ذی الحجہ ،اور
محرم، اور ایک مہینہ ( جو اِن سے علیحدہ آتا ہے ) وہ رجب کا ہے جو جمادی
الاخریٰ اور شعبان کے درمیان واقع ہے۔ (بخاری )
ایک مرتبہ رسولِ پاکؐ نے ایک صحابی کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا کہ : ’’صبر
یعنی رمضان کے مہینے کے روزے رکھو! اور ہر مہینے میں ایک دن کا روزہ رکھ
لیا کرو! صحابی نے عرض کیا کہ : ’’مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے، لہٰذا میرے
لئے مزید اضافہ فرمادیجئے! ‘‘ آپؐ نے فرمایا کہ : ’’ہر مہینے میں دو دن
روزہ رکھ لیا کرو! ‘‘ صحابی نے عرض کیا : ’’میرے اندر اس سے بھی زیادہ کی
طاقت ہے اس لئے مزید اضافہ فرمادیئے !‘‘ آپؐ نے فرمایا کہ : ’’ہرمہینے میں
تین دن روزے رکھ لیا کرو! ‘‘ صحابی نے عرض کیا : ’’ میرے اندر اس سے بھی
زیادہ کی طاقت ہے اس لئے میرے لئے مزید اضافہ فرمادیئے! ‘‘ آپؐ نے فرمایا
کہ: ’’ حرمت والے مہینوں ( ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، محرم اور رجب) میں روزہ
رکھو اور چھوڑو! اور آپؐ نے اپنی تین انگلیوں سے اشارہ فرماکر ان کو ساتھ
ملایا پھر چھوڑ دیا ( مطلب یہ تھا کہ ان مہینوں میں تین دن روزہ رکھا کرو!
، پھر تین دن ناغہ کیا کرو! )اور اسی طرح کرتے رہا کرو!۔‘‘(ابوداؤد)
حضرت سالم ؒ سے روایت ہے کہ : ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ حرمت و عظمت والے
چاروں مہینوں ( ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، محرم اور رجب)میں روزے رکھا کرتے تھے۔
(مصنف عبد الرزاق)
امام نوویؒ نے بھی اپنے اصحاب کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حرمت و عظمت والے ان
چار مہینوں ( ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، محرم اور رجب) میں روزے رکھنا مستحب
روزوں میں سے ہے۔(المجموع شرح المہذب: ۳۸۶/۶)
اسی طرح امام نوویؒ ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ : ’’ ماہِ رمضان کے بعد سب
سے زیادہ جن مہینوں میں روزے رکھنے کا ثواب ملتا ہے وہ یہی چار مہینے (ذی
قعدہ ، ذی الحجہ ، محرم اور رجب) ہیں ۔‘‘ (روضۃ الطالبین:۳۸۸/۲)
قرآنِ مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جو یہ واقعہ موجود ہے کہ اﷲ
تعالیٰ نے ان کو نئی شریعت اور کتاب دینے کے لئے کوہِ طور پر پہلے تیس (۳۰)
راتوں کا اعتکاف کرنے کا حکم فرمایا اور پھر مزید دس (۱۰) راتوں کا اضافہ
فرماکر کل چالیس (۴۰) راتیں مکمل ہونے پر اُن کو شریعت اور کتاب (تورات)
عطاء فرمائی تو ان چالیس (۴۰) راتوں کے بارے میں حضرات مفسرین نے لکھا ہے
کہ یہ چالیس (۴۰) راتیں ذو قعدہ کے پورے مہینے اور ذی الحجہ کے پہلے عشرے
کی تھیں ۔چنانچہ امام ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ : ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام
کے اعتکاف کی میعاد عید الاضحی کے دن پوری ہوئی تھی اور اسی دن آپ ؑ کو اﷲ
تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف نصیب ہوا تھا۔‘‘ (تفسیر ابن کثیرؒ: ۴۲۱/۳)
بعض جاہل اور اَن پڑھ لوگ ذی قعدہ کے مہینہ کو خالی کا مہینہ کہتے ہیں تو
وہ شاید اس وجہ سے کہ یہ مہینہ اپنے سے پہلے اور بعد کے مہینوں کے برعکس
عید الفطر و عید الاضحی وغیرہ سے خالی ہوتا ہے ،اورخالی کا مطلب وہ یہ
سمجھتے ہیں کہ اس مہینہ میں کسی نیک عمل و طاعت کی بالکل ضرورت نہیں ، یہ
خیال بالکل غلط ، فاسد اور سراسر جہالت اور لاعلمی پر مبنی ہے ، اس سے بچنا
چاہیے!۔
اسی طرح بعض لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ چوں کہ یہ خالی کا مہینہ ہوتا ہے
اس لئے اس مہینہ میں نکاح اور اور شادی وغیرہ بھی نہیں کی جاسکتی کہ کہیں
وہ خیر و برکت سے خالی نہ رہ جائے ، چنانچہ اکثر و بیشتر دیکھنے میں آیا ہے
کہ لوگ ماہ شوال میں جلدی جلدی شادیاں کرکے فارغ ہوجاتے ہیں تاکہ کہیں ذی
قعدہ کا مہینہ شروع نہ ہوجائے ،حالاں کہ ماہِ ذی قعدہ سنہ 5 ہجری میں رسول
اﷲؐ نے اُم المؤمنین حضرت زینب ؓ سے نکاح فرمایا تھا ۔ (البدایہ والنہایہ :
۱۶۶/۴) اسی طرح ماہِ ذی قعدہ سنہ 7 ہجری میں آپؐ نے حضرت میمونہؓ سے نکاح
فرمایا تھا ۔ (سیر اعلام النبلاء: ۲۳۹/۲) الغرض ماہِ ذی قعدہ میں نکاح و
شادی وغیرہ عبادات کرنے کو خیر وبرکت سے خالی سمجھنا یہ سب زمانۂ جاہلیت کی
باتیں اور توہمات پرستیاں ہیں ، جن کا شریعت اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
اسی طرح بعض لوگوں میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان
کو ماہِ ذی قعدہ کے شروع ہونے پر مبارک باد دے تو اُس پر جنت واجب ہوجاتی
ہے ، اور اس فضیلت کو سن کر بعض جاہل و ناداں لوگ ماہِ ذی قعدہ کے آغاز پر
ایک دوسرے کو زبانی ، تحریری اور ذرائع ابلاغ (جیسے مثلاً آج کل فیس بک ،
وٹس اپ ، اور مسنجر وغیرہ ہیں( کے واسطہ سے مبارک باد دینا شروع کر دیتے
ہیں ، سو! یاد رکھناچایئے کہ اس طرح کی کوئی بات بھی نہ شریعت میں وارد
ہوئی ہے اور نہ ہی شریعت سے ثابت ہے، اس لئے ایسی توہم پرستی کی باتوں سے
حتیٰ الامکان بچنا لازمی اور ضروری ہے۔
|