جہیزقوم وسماج کا ایک ایساناسور ہے جومعاشرے میں کینسر کی
طرح پھیل چکا ہے اس لعنت نے لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا
کر رکھ دیا ہے ان کی معصوم آنکھوںمیں بسنے والے رنگین خواب چھین لئے
ہیں،ان کی آرزوؤں ، تمناؤں اور حسین زندگی کے سپنوں کا گلا گھونٹ دیا ہے
انہیں ناامیدی ،مایوسی اور اندھیروں کی ان گہری وادیوں میںڈھکیل دیا ہے
جہاں سے اجالے کا سفرنظر آنا ناممکن دیکھائی دیتا ہے۔غرض یہ ا یک ایسی
قبیح رسم بن چکا ہے جس سے صرف غریب والدین زندہ درگور ہو رہے ہیں ۔آیئے
دیکھتے ہیںکہ جہیز کیا ہے اور اس کے نقصانات سماج پر کیا عائد ہوتے ہیں:
جہیز کی تعریف اور اس کی قباحت: جہیز عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے
اسباب و سامان : یہ اس سامان کو کہتے ہیں جو لڑکی کو نکاح میں اس کے ماں
باپ کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ جہیز دینے کی رسم پرانے زمانے سے چلی آ رہی
ہے۔ ہر ملک اور ہر علاقے میں جہیز مختلف صورتوں میں دیا جاتا ہے۔ لیکن عام
طور پر زیورات ، کپڑوں ، نقدی اور روزانہ استعمال کے برتنوں پر مشتمل ہوتا
ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں یہ رسم ہندو اثرات(تلک وغیرہ) کی وجہ
سے داخل ہوئی اور ایک لعنت کی شکل اختیار کر لی ۔
جہیز اور تلک کے مابین فرق : خالد سیف اللہ رحمانی اپنی کتاب میں جہیز و
تلک کی رسم کے متعلق رقم طراز ہیں:’’اسلام میں نکاح کی حیثیت ایک معاہدہ کی
ہے جس میں مرد و عورت قریب قریب مساویانہ حیثیت کے مالک ہیں یعنی نکاح کی
وجہ سے شوہر بیوی کا یا بیوی شوہر کی مالک نہیں ہوتی اور عورت اپنے خاندان
سے مربوط رہتی ہے۔ والدین کے متروکہ میں تو اسکو لازمًا حصہ میراث ملتا ہے۔
بعض اوقات وہ بھائی بہنوں سے بھی حصہ پاتی ہے۔ ہندو مذہب میں نکاح کے بعد
عورت کا رابطہ اپنے خاندان سے ختم ہوجاتا ہے۔ شاستر قانون کی رو سے وہ اپنے
خاندان سے میراث کی حقدار نہیں رہتی۔ اسی لئے جب لڑکی کو گھر سے رخصت کیا
جاتا تھا تو اسے کچھ دان دیکر رخصت کیا جاتا تھا۔
بد قسمتی سے مسلمانوں نے بھی بتدریج اس ہندووانہ رسم کو اپنا لیا اب
مسلمانوں میں بھی جہیز کے لین دین اور پھر لین دین سے بڑھ کر جہیز کا
مطالبہ اور اس سے بھی آگے گذر کر جہیز کے علاوہ تلک سرانی اور جوڑے کے نام
سے لڑکوں کی طرف سے رقم کا مزید مطالبات کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ یہ اسلامی
تعلیمات اور شریعت کے مزاج کے بالکل ہی برعکس ہے۔ اسلام نے تو اسکے برخلاف
مہر اور دعوت ولیمہ کی ذمہداری شوہر پر رکھی ہے اور عورت کو نکاح میں ہر
طرح کی مالی ذمہ داری سے دور رکھا تھا۔ فقہاء کے یہاں اس بات کا کوئی تصور
ہی نہیں تھا کہ مرد بھی عورت سے روپئے کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ اسلئے اس مسئلہ
کا عام طور پر کتب فقہ میں تذکرہ نہیں ملتا۔ البتہ اس بات کا ذکر ملتا ہے
کہ لڑکی کا ولی اگر مہر کے علاوہ داماد سے مزید رقم کا طلبگار ہو تو یہ
رشوت ہے اور یہ مطالبہ جائز نہیں۔ تاہم بعض فقہاء کے یہاں لڑکے اور اسکے
اولیاء کی طرف سے مطالبہ کی صورت کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اسلئے تلک اور جہیز
کا مطالبہ رشوت ہے اسکا لینا تو حرام ہے ہی۔ شدید ضرورت کے بغیر دینا بھی
جائز نہیں اور لے چکا ہو تو واپس کرنا واجب ہے۔
اثرات: کتنی ہی عورتیں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں بیٹھے بیٹھے بوڑھی
ہو جاتی ہیں ۔ کم جہیز کی وجہ سے بہت سی عورتوں کی زندگی عذاب ہو جاتی
ہے،مار پیٹ کے علاوہ بعض دفعہ ان کو جلا دیا جاتا ہے یا ان پر تیزاب پھینکا
جاتا ہے ۔ دوسری طرف آج کل کا معاشرہ انسانی رشتوں سے زیادہ دولت کو اہمیت
دیتا ہے جس کی وجہ سے یہ لعنت اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ا سلام میں جہیز
کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام سادگی کا دین ہے اور اسلام کی نظر میں عورت کا
بہترین جہیز اس کی بہترین تعلیم و تربیت ہے۔
برصغیر میں یہ لعنت مزید ابھرکرسامنے آگئی ہے اور روزانہ سیکڑوں حادثات کے
رونما ہونے کے باوجود بھی یہ لعنت سماج سے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے،
ذیل میں نیشنل کرائم کی ایک رپورٹ پیش کی جارہی ہے جس سے آپ اس قباحت او
رسماجی لعنت کا جائزہ لے سکتے ہیں: ہندوستان میں جہیز کی وجہ سے ہر گھنٹے
میں ایک عورت ہلاک ہوتی ہے : نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے مطابق صرف پچھلے
سال ہی ہندوستان میں شادی کے وقت دولہا اور اس کے خاندان والوں کی جانب سے
جہیز دینے سے متعلق تنازعات میں 8,233 خواتین ہلاک ہوئیں۔ بیورو کی جانب سے
حالیہ ہفتے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق، جہیز سے متعلق جرائم میں
سزا کی شرح صرف 32 فیصد ہے۔گو کہ ہندوستانی قانون میں جہیز دینا اور لینا
منع ہے تاہم صدیوں سے جاری سماجی رسم و رواج آج بھی جاری ہیں۔جہیز کے
مطالبے اکثر شادی ہونے کے کئی سال بعد تک جاری رہتے ہیں۔ہر سال، ہزاروں
نوجوان ہندوستانی لڑکیوں کو محض اس لیے پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی جاتی ہے
کہ وہ مناسب جہیز نہیں لائی۔خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں اور پولیس
کا کہنا ہے کہ جہیز کی روک تھام سے متعلقہ قوانین میں سقم، پراسیکیوشن میں
تاخیر اور کم سزا کی شرح ایسے جرائم میں مسلسل اضافے کا سبب ہیں۔اس رپورٹ
سے آپ سماج میں پھیلے ہوئے اس برائی او رقبیح خصلت کا جائز ہ لے سکتے ہیں
۔
یقینا رسم جہیزایک قابل لعنت عمل اور انتہائی حقارت سے دیکھے جانے کے قابل
ہے اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے،جس کا کتاب وسنت کے اندر کوئی ثبوت نہیں
ملتا،یہ فعل نہ سنت ہے نہ واجب اور اسلامی معاشرے میں اس کی نہ کوئی اصلیت
ہے ، بلکہ یہ معاشرے کے لیے ایک ناسور ہے،آج اگرسماج سے جہیز کی لعنت کا
خاتمہ ہوجائے اور شادیاں سستی ہوجائیں تو کئی نوجوان بچیوں کے چہرے ان گنت
خدشات سے پاک ہوجائیں گے اور غریب والدین ان داخلی زنجیروں اور فرسودہ
رسموں کے طوق سے آزاد ہوکر اپنے فرائض کو ادا کر سکیں گے۔
معاشرے میں جہیز جیسی لعنت کو ختم کرنے میں والدین کو بھی سختی سے عمل کرنا
ہو گا وہ عہد کریں کہ نہ جہیز دیں گے اور نہ لیں گے ،لوگوں کو بھی بتایا
جائے کہ جہیز مانگنا ہی جرم نہیں بلکہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر تحائف کے نام
پر جہیز دینا یا اپنی جائداد وغیرہ فروخت کر کے جہیز کے مطالبات پورے کرنا
ایک اخلاقی جرم ہے،ہمارے معاشرے میں جہیز کے علاوہ بہت سی غیر اسلامی رسمیں
پائی جاتی ہیں،جن کی وجہ سے سماج میں زبردست بے چینی بڑھ رہی ہے ،امرا
ءکیلئے تو کوئی بات نہیں لیکن غریبوں کے لئے بیٹیاں مصیبت ثابت ہو رہی ہیں
اور روزانہ ہزاروں لڑکیاں اس ناسور کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں ،جہیز کی لین دین
غیر اسلامی اور ہندوانہ رسم ورواج ہے ، اس گھناؤنی غیر اسلامی رسم کو ختم
کرنے میں نوجوان اہم رول ادا کر سکتے ہیں یہ اسی صورت ممکن ہے جب آج کی
نسل جہیز کا لالچ اپنے دلوں سے نکال دیں اور معاشرے میں اپنے اس مخلصانہ
عمل سے انقلاب برپا کریں۔اللہ ہماری اصلاح فرمائے اور قوم کی بہن بیٹیوں کی
عزت عفت کی حفاظت فرمائے ۔ آمین |