امین کھمبے پرہے

عدالت عظمیٰ میں حاکم وقت کے صادق اورامین ہونے یانہ ہونے کافیصلہ محفوظ کرلیاگیاہے جبکہ دوسری طرف لاہورکارکشہ ڈرائیورامین بجلی کے کھمبے پرچڑھااپنے ہونے کاماتم کررہاہے ۔معاشی مسائل کے بوجھ تلے دباچھ بچوں کایہ باپ چیخ چیخ کراس نظام پرلعنتیں بھیج رہاہے جوایک مفلس کوگھسٹ گھسٹ کربھی جینے نہیں دیتا۔بجلی کے کھمبے پرچڑھااپناہی تماشہ کرتایہ عمررسیدہ شخص ہماری معاشرتی بے حسی کی ایک بھیانک تصویرتوہے ہی لیکن یہ خوشحالی کے بلندوبالادعوے کرتے حکمرانوں کیلئے ایک طمانچہ بھی ہے ۔

امین نے محبتوں کی سرزمین جھنگ میں آنکھ کھولی ۔باپ سبزی منڈی میں مزدوری کرتاتھا۔اس نے سکول کاصرف منہ ہی دیکھااس کے نزدیک سرکاری سکول میں ماسٹرکے ڈنڈے کھانے سے کہیں بہترتھاکہ وہ اپنے ہم جولیوں کے ہمراہ مائی ہیرکے مقبرہ کے پہلومیں برگدکے گھنے پیڑتلے موج میلہ کرلیتا۔باپ منہ اندھیرے گھرسے نکلتاتودن ڈھلے تھکاہاراجب لوٹتاتھاتواس کاانگ انگ ٹوٹ رہاہوتاتھاویسے بھی درجن بھربچوں کااسے نام یادرہ جاتایہ ہی کافی تھاان کی سرگرمیوں کی خبررکھنے کااس کے پاس وقت تھانہ ہی دلچسپی اسے توزندگی کی ضرورتوں نے کولہوکابیل بنادیا۔ان حالات میں کوئی نہ تھاجوامین کوروکتاٹوکتا،اچھائی برائی سے روشناس کرتاوہ کٹی پتنگ کی طرح ادھرادھرڈولتے دس برس کاہوگیا۔ایک روزباپ نے کان سے پکڑااورساتھ سبزی منڈی لے گیااب وہ بھی کام میں جت گیا۔باپ کاہاتھ بٹاتے بٹاتے کئی سال گزرگئے ۔پھراس کی شادی ہوگئی اس کوزندگی کی ہم سفرملی توکم بخت خواب بھی آنکھوں میں اترآئے ۔وہ اس زندگی سے بے زارتوپہلے ہی تھاجہاں گدھے کی طرح کام کرکے بھی پیٹ بھرروٹی اورتن ڈھانپنے کیلئے کپڑوں کے لالے رہتے تھے چنانچہ ایک روزاس نے لاہورجاکرقسمت آزمائی کافیصلہ کرلیا۔

داتاکی نگری میں آیاتواس کی چمک دمک نے اس کی آنکھوں کوخیرہ کردیا۔مزدورکابیٹاتھاسخت کام سے گھبراتانہیں تھااس لئے بہت جلدکام پرلگ گیا،شروع شروع میں وہ لاہورکے ہجوم اورشورشرابے سے گھبراتاتھالیکن جلدہی وہ اس کاعادی ہوگیا۔اس نے مزدوری کی ،ٹھیلہ لگایا،تانگہ چلایا،مشکلات سے لڑناورثے میں ملاتھااس لئے زندگی کی کوئی مشکل اسے ڈگمگانہ سکی ۔

وقت اتنی تیزی سے گزراکہ خبرتک نہ ہوئی اس کے بالوں میں سفیدی نے گھونسلہ سابنالیاتھااس کے چھ بچے تھے سبھی پڑھ رہے تھے بڑی بیٹی تواب یونیورسٹی میں تھی اب وہ رکشہ چلاتاتھاگزراوقات مشکل سہی مگرزندگی کاپہیہ چل ضروررہاتھا۔

اس روزابھی وہ رکشہ لیکرنکلاہی تھاکہ بیٹے کی کال آگئی گھرپہنچاتوبیوی دردسے بے حال تھی اس نے دوڑلگائی اوربیوی کوسرکاری ہسپتال پہنچایاڈاکٹروں نے بتایاکہ اس کے گردے جواب دے گئے ہیں ۔پھرکئی روزتک اس کی زندگی گھراورہسپتال کے درمیان چکرلگانے تک محدودہوگئی اس سے بیوی کی تکلیف دیکھی نہ جاتی تھی وہ بہت صابرخاتون تھی عمربھرروکھی سوکھی کھائی مگرزبان پراف تک نہ لائی تھی اب جب بھی وہ ہسپتال جاتااسے لگتاکہ بیوی کی خاموش آنکھیں اس سے احتجاج کررہی ہیں اس کے لبوں سے نکلتی کراہیں اس کاسینہ چیردیتی تھی وہ ڈاکٹروں کے سامنے گڑگڑاتا،منت سماجت کرتاان کے آگے ہاتھ جوڑتاکہ خداکیلئے میری بیوی مررہی ہے مگرنقارخانے میں طوطی کی کان سنتاہے ۔کئی دن کی خواری کے بعداس پریہ دلخراش حقیقت عیاں ہوچکی تھی کہ سرکاری ہسپتالوں میں بھی علاج معالجے کیلئے تگڑی سفارش درکارہوتی ہے ۔

آخرکاراس نے فیصلہ کیاکہ وہ اپنی بیوی کاپرائیویٹ ہسپتال میں علاج کرائے گا۔جب وہ شہرکے مشہورہسپتال پہنچاتواس وقت اس کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی جب اسے بتایاگیاکہ ایک لاکھ روپے ایڈوانس جمع کراناہوں گے اورمزیدرقم کی بھی ضرورت پڑے گی ۔اس نے ڈاکٹرسے عارضی ریلیف کیلئے دوالکھوائی اورگھرچل گیا۔

کئی روزتک وہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے رکشہ چلاتارہااوراس کی بیوی گھرمیں تڑپتی رہی اس روزنصیرآبادکے قریب اس نے سواری اتاری تورکشہ ایک سائڈپرکھڑاکرکے جمع پونجی گننے لگااتنے روزکی سخت محنت کے بعدبھی اس کے پاس 6ہزارروپے ہی جمع ہوسکے تھے اس کے دماغ میں ہتھوڑے سے برس رہے تھے اس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ آخرکرے توکیاکرے؟آنکھوں کے سامنے بیوی کادردمیں ڈوبابے بس چہرہ تھااورکانوں میں اس کی کراہیں گونج رہی تھیں۔وہ کسی اورہی دنیامیں تھاجب ایک کرخت آوازنے اسے چونکادیا۔وہ ٹریفک وارڈن تھاجوغلط جگہ رکشہ روکنے پراس سے لائسنس مانگ رہاتھا۔اس نے بحث کی تھی تواس نے زبردستی اس کی جیب سے شناختی کارڈنکالااوربھاری بھرکم جرمانہ کی رسیدتھمادی ۔اس نے کئی روزہسپتال کے ڈاکٹروں کی بے حسی دیکھی تھی عملہ کی ڈانٹ ڈپٹ برداشت کی نرسنگ سٹاف کے دھکے کھائے تھے اورسب بڑے صبرسے سہہ گیاتھامگراس وقت اچانک ایساہواکہ جیسے اس کے دماغ میں لاوہ ساپھوٹ پڑاہواسے لگاکہ اگروہ چیخ چیخ کرنہ رویاتواس کادل پسلیوں کے پنجرے کوتوڑکرباہرنکل آئے گا۔وہ حلق پھاڑکرچیخااورپھرچیختاہی چلاگیاپھرنہ جانے یکدم سے اسے کیاہوااس نے دوڑلگادی اورقریب ہی موجودبجلی کے کھمبے پرچڑھ گیاوہ چیخ رہاتھا،چلارہاتھا،زاروقطاررورہاتھا،اپناسینہ پیٹ رہاتھا،کچھ ہی دیرمیں وہاں لوگوں کاہجوم اکٹھاہوگیاریسکیواہلکاربھی آگئے بہ مشکل اسے کھمبے سے اتاراگیا۔اس وقت وہ عجیب بہکی بہکی باتیں کررہاتھاوہ لوگوں سے پوچھ رہاتھاکہ میں کون ہوں؟میں کیوں ہوں ؟میں آزادہوں یاغلام ہوں؟میں انسان ہوں یاجانورہوں؟میں کیاہوں؟۔

ریسکیواہلکاروں نے درست نتیجہ نکالاکہ یہ مخبوط الحواس شخص ہے اس کادماغ ٹھیک نہیں ہے لیکن کسی نے یہ سچ بیان نہیں کیاکہ حالات کے جبرکاشکاربیس کروڑعوام میں سے اکثریت زہنی مریض بن چکی ہے ،یہ سب مخبوط الحواس ہیں ،اس نظام کی چکی میں پستے یہ بھوکے ننگے لوگ دن بھرذلیل ہوتے ہیں ان کوعلاج کے نام خواری انصاف کے نام پرگالیاں ملتی ہیں یہ سادھونمامخلوق اپنے حکمرانوں سے پوچھ رہی ہے کہ ہم کون ہیں؟کیوں ہی ہم آزادہیںیاغلام ہیں؟ہم تخت لاہورکے قیدی ہیں،ہم جمہوریت کے قیدی ہیں ہم کس کس کے قیدی ہیں ،ہمارے گھروں سے مفلسی کاآسیب کیوں نہیں اٹھتا،ہماری تنکاتنکاچنتی حسرتوں کومنزل کیوں نہیں ملتی اورذرائع ابلاغ پرحکمران جس خوشحالی کاڈھنڈوراپیٹتے ہیں جس ترقی کے دعوے کرتے ہیں جس کارکردگی کی سرکس سجاتے ہیں وہ کہاں ہے اس کے ثمرات عام آدمی تک کیوں نہیں پہنچتے اورصادق پنکھوں سے کیوں جھول رہے ہیں ،امین بجلی کے کھمبوں پرکیوں چڑھے بیٹھے ہیں؟

Hafeez Usmani
About the Author: Hafeez Usmani Read More Articles by Hafeez Usmani: 57 Articles with 40338 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.