ام ھشام
-----------------------
بیمار کے لیے اچھے ریکارڈ والے ڈاکٹراور اچھی سہولت والے اسپتال کی تلاش
کبھی ختم نہیں ہوتی۔یہ زندگی کے ایک شعبے (صحت) سے متعلق فکرمندی ہے مگر وہ
شعبہ جس پر دنیا اور آخرت کی کامیابی کا انحصار ہے، اللہ کے دین کی تعلیم۔
اس کے لیے مسلمان نیم عالموں کے چکر میں پڑگیا ہے۔ اس کے دو اسباب ہیں: ایک
جس کا ذکرزیر نظر مضمون میں بڑی صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے کہ جنھیں دوا
دینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ خود بیمار وں میں شامل ہوگئے ہیں،
نتیجتاً نہ انھیں اپنی بیماری بیماری لگتی ہے اور نہ دوسرے بیماروں کی
بیماری سے کوئی تکلیف ہوتی ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ جو ڈاکٹر یا وکیل اپنے
پیشے میں کامیاب نہیں ہوسکے یا جنھیں دعوت وتبلیغ کا چورن دینے میں زیادہ
اسکوپ نظر آیا وہ ڈاکٹر فلاں یا ایڈوکیٹ فلاں جیسے ناموں سے دین کم، بے
اطمینانیاں زیادہ پھیلانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ بردر حضرات بھی یہاں
وہاں سے منہ اٹھائے آگئے ہیں۔ دراصل منہ میں جو دو انچ کی زبان ہوتی ہے
اسی کا کمال ہے کہ بھولے بھالے مسلمان دھوکے میں پڑجاتے ہیں ۔ بردرس کا
مسئلہ اس لیے بھی زیادہ گمبھیر ہے کہ مسجد میں منہ کھولیں تو عالموں جیسی
بات کرتے ہیں مگر ٹی وی پر بے دین (سیکولر) ہوجاتے ہیں۔ بنیا تو بنیا ہوتا
ہے، بریڈ کی فروخت کم ہوجائے تو سگریٹ بھی بیچنا شروع کردے گا۔مطلب تو
بیچنے سے ہے۔ اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جس عالم ذات نے اس گھس پیٹھ کا
موقع فراہم کیا ہے اس نے اس مسئلے کے خلاف صرف بولنا ہی اپنا مشغلہ بنالیا
ہے۔ حالانکہ اسے اپنا کام کرنا چاہیے، بہروپیے خود بے سند ٹھہریں گے۔ اب یہ
مضمون پڑھیے اور سر پیٹئے کہ بردرس کی طرح اب سسٹرس بھی اس بزنس میں کیسے
کیسے گل کھلارہی ہیں۔۔۔۔ایڈیٹر_
پہلے ایک واقعہ سنیے !
ممبئی کے ایک علاقے میں تین مہینوں سے مستقل ایک خاتون کا درس جاری تھا۔
سسٹر کہلائی جانے والی ایسی کئی داعیات ممبئی بھر میں دعوت و تبلیغ کے کام
سے جڑی ہوئی ہیں جن کا کل سرمایہ علم چند انگریزی اردو کی کتابوں کی سیلف
اسٹڈی اور دو چار دعوتی کورس پر منحصرہے۔ محترمہ انہی داعیات میں سے ایک
تھیں ۔ درس ظہر کی نماز کے بعد شروع ہوتا اور عصر سے پہلے پہلے ختم ہوجاتا۔
باجی عصر کی نماز سے پہلے گھر کو روانہ ہولیتیں ۔ ایک دن درس لمبا چل گیا۔
عصر کی نماز کا وقت ہوگیا۔ سامعات نے اصرار کیا کہ نماز پڑھا کر جائیے ۔
باجی نے عصر کی نماز پڑھائی ؛ جہری نماز۔ سامعات سکتے میں آگئیں ۔ نماز کے
بعد باجی کو بتایا گیا کہ عصر کی نماز جہری نہیں سرّی پڑھی جاتی ہے ۔ باجی
کا جواب تھا ’’ اچھا ؟ مجھے نہیں پتہ تھا۔‘‘
ممکن ہے آپ کو ہنسی آرہی ہو لیکن یہ مقام رونے کا ہے ۔ علم کی قلّت کے
ساتھ دعوت کا رجحان آہستہ آہستہ ایک فتنے کی شکل لے رہاہے ۔ اس فتنہ کو
روکنے کے لیے اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل انتہائی خطرناک ثابت
ہوسکتاہے ۔
دین پرباطل طاقتوں کے چوطرفہ حملے سبب ہوں یا اس کو آپ اسلام کی نشاۃ
ثانیہ کا نام دے لیں لیکن پچھلے کچھ سالوں میں ہندستان میں بالعموم اور
شہروں میں بالخصوص دینی رجحان میں شدّت سے اضافہ محسوس کیا گیا ہے ۔ پہلے
دین کی تعلیم محض مدارس تک محدود تھی۔ لیکن اب الحمد للہ دعوت کا مزاج عام
ہوا ہے، مساجد کی دعوتی سرگرمیاں بڑھی ہیں، دعوت کے مراکز، لائبریریوں اور
سینٹرز میں اضافہ ہوا ہے ۔دعوت و تبلیغ کے لیے اب حالات نہایت سازگار ہیں
بالفاظ دیگر ایک خوش آئند مستقبل داعیان اسلام کو صدائیں دے رہا ہے لیکن
اس خوشی اور امید کے ساتھ کئی فکرمندیاں بھی جڑی ہوئی ہیں ۔ جہاں ایک طرف
جاہلیت، لاعلمی ، شرک و بدعت کی کثرت نے مسلم سماج کو ضلالت و گمراہی کا
شکار بنایا ہوا ہے، وہیں کچھ ایسے داعیات کاایک سیلاب امڈ آیاہے جیسے بارش
میں اُگ آنے والے خود رو پودے۔ کوئی چار کتابیں پڑھ کر مدرّس بن گیا ہے،
کوئی سہ ماہی قرآن فہمی کے short Coursesکا مطالعہ کرکے لوگوں میں مفسر
بنا ہوا ہے، کسی نے دو چار دعوتی کورسز کرکے اسٹیج کو رونق بخشی ہوئی ہے ۔
کوئی بائبل ، گیتا، وید پڑھ کر دین پر اتھارٹی بنا ہوا ہے ۔ خواتین بھی اس
معاملہ میں پیچھے نہیں۔ اگر ہم نظر دوڑائیں تو آج عالمات کی کثرت ہے لیکن
دعوت کا میدان ان کی علمی تابانیوں سے خالی ہے ۔ اور’’ گوگل عالمات ‘‘ خود
رو گھاس کی طرح پھل پھول رہی ہیں اور اسلامی تعلیمات کو غلط ڈھنگ سے پیش کر
رہی ہیں ۔
بلاشبہ ’’ بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ آیَۃ ‘‘ کے تحت دعوتِ دین ہر مسلمان
کی ذمہ داری ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوچار مجالس میں بیٹھ کر کوئی
بھی واعظ بن جائے ، مفتی بن جائے، عوام کو اپنی فکر اور اجتہادات کا شکار
بنائے، لوگوں کو جذباتی تفریح فراہم کرکے ان میں پذیرائی حاصل کرنے کی کوشش
کرے۔
ان حالات میں مدارس سے فارغ التحصیل عالمات پر سب سے بڑی ذمہ داری عائد
ہوتی ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور دعوتِ دین کے فریضے کو انجام دیں اور امت
مسلمہ کو ایک صحیح نہج پر لائیں لیکن یہ ’’ عالمات علوم شرعیہ‘‘ اور ’’
طالبات علوم نبوت‘‘ اپنی میراث کو مال مسروقہ کی طرح نہ جانے دنیا کے کس
گوشہ میں چھپائے بیٹھے ہیں۔
الحمد للہ ہر سال مدارس سے ایک بڑی تعداد طالبات کی فراغت پاکر باہر نکلتی
ہے۔ لیکن پھر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ محض چند مہینوں اور سالوں کے بعد ہی
ان روشن کہکشائوں کی تابندگی ماند پڑنے لگتی ہے ۔ کیونکہ دینی سرگرمیوں سے
کٹ کر یہ طالبات نجانے کہاں گم ہوجاتی ہیں۔ جبکہ فراغت کے بعد ہی کا دَور
سنہری دور ہوتا ہے کیونکہ اس دور میں اصلی آزمائش ہوتی ہے جس کے لیے ’’
طالب علوم نبوت‘‘ اپنے علم و ہنر کے آلات سے لیس ہوکر اس مادہ پرست دنیا
میں قدم رکھتا ہے تب کئی متفرق راہیں اسے اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے
آواز دیتی ہیں ۔
اب یہ تو اس ہستی پر منحصر ہے کہ وہ اپنی فوز و فلاح کی کوئی راہ چن کر
ابدی سعادت پالے یاپھر مادّہ پرستی کی خیرہ کردینے والی روشنی میں اپنی
بصیرت کھودے ۔
طالبات کی عملی ، فکری اور دعوتی جمود کے وجوہات اور اسباب کیا ہیں؟ جنھوں
نے اصلاحی ، دعوتی کارکردگی پر قدغن لگا رکھی ہیں۔
چند اسباب حسب ذیل ہیں :
۱)احساس ذمہ داری کا فقدان:
طالبات میں خود اپنے فرض کو لے کر سنجیدگی نہیں پائی جاتی ہے کیونکہ دل سے
اللہ کا خوف کم ہوتا جارہا ہے جذبوں میں قوم کا درد نہیں اور سوچ آخرت کی
فکر سے محروم ہوئی جاتی ہے ۔ نظام تعلیم کے پیچھے ایک تہذیب کارفرما ہوتی
ہے جو لاشعوری طور پر طلبہ کا کردار بناتی چلی جاتی ہے بلاشبہ دینی تعلیم
ہی وہ واحد نظامِ تعلیم ہے جو بندے کو اس کے وجود کی آگہی اور شعور بخشتی
ہے ۔ کوئی قانون،کوئی پالیسی کوئی حکمت عملی اس تعلیم کا مقابلہ نہیں کر
سکتی کیونکہ دینی تعلیم ایک ربانی نظام تعلیم ہے جسے معلّمِ اعظم ؛رحمت
عالم نبی کریم ﷺ نے ترتیب دیا ہے۔ اس دینی تعلیم کے ذریعہ جلا پانے والے
اذہان وقلوب نہ صرف دین کے لیے ماہ تاباں بنے بلکہ دنیا کو بھی منور کرگئے۔
دینی تعلیم روحانی تربیت کا وہ منبع ہے جس کے حصول کے بعد ایک بندہ عام
انسان کی سطح سے اٹھ کر ایک عالم کے درجہ پر فائز ہوجاتا ہے اور پھر وہ
لوگوں میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے ذریعہ بھولی بھٹکی انسانیت کو
فلاح وبہبود کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔ آج ہم نے اپنا یہ اعزاز کھو دیا ہے
دنیا کی چکا چوند میں ہم ایسے کھوئے ہوئے ہیں کہ خود اپنے وجود اور مقصد
وجود سے ہی نا آشنا ہیں ۔
رب کائنات نے جس مقدس فریضے کے لیے ہمیں منتخب کیا تھا اور اپنے مقدّس دین
کے عالم ہونے کا اعزاز بخشا تھا آج ہمیں اپنے اس اعزاز پر شرم آتی ہے،
کیوں ؟؟؟ وہ اس لیے کہ ہم نے اپنے ہی ہاتھوں اس اعزاز کو مٹی میں ملادیا ہے
، ہمارے دل سیاہ ہوچکے ہیں ، آنکھیں پتھراگئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو ذمہ
داری بحیثیت عالمات ہمیں بخشی تھی ہم نے اس کا حق ادا نہیں کیا۔ امت کی ان
ناخواندہ بہنوں کو دیکھ کر کیوں ہمارا دل نہیں تڑپتا ؟ جہالت کے گہرے اندھے
کنویں میں پڑی ہوئی بہنیں نظر کیوں نہیں آرہی ہیں ؟ مسلمان عورتیں دین کے
فقہی احکامات و مسائل سے ہی نہیں عقیدہ توحید تک سے ناآشنا ہیں۔ ان کو
ضلالت کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی میں لانے کی ذمہ داری اگر
ہماری نہیں تو کیا ان کے لیے اللہ رب العزت آسمان سے پھر کوئی نبی بھیجنے
والاہے ؟
کیا کبھی یہ سوچنے کی زحمت کی ہے کہ قیامت کے روز ہم اللہ کے سامنے جوابدہ
ہوں گے ۔علم کے حامل ہونے کے باوجود امت کے جن مسائل سے ہم نے آنکھیں
موندلی ہیں اس کے بارے میں اللہ لم یزل ولایزال ہمار ا مواخذہ نہیں کرے گا؟
ضرورت ہے اپنے اندر سوئی ہوئی مسلمہ ومومنہ عورت کو جگایا جائے کیونکہ بر
وقت یہ بیداری ساری ملت اسلامیہ کے لیے سود مند ثابت ہوگی ۔
۲)آئیڈیل ازم:
عموماً یہ دیکھنے میں آیاہے کہ طالبات دوران طالب علمی آئیڈیل ازم کا
شکار ہوجاتی ہیں ’’خیالی شخصیت، وجیہہ پرسنالٹی اور اس کے ساتھ ایک پُر
تعیش زندگی‘‘۔ جو آگے چل کر انھیں قدم قدم پر احساس کمتری میں مبتلا کر
دیتی ہے ۔ افسوس! کفایت شعاری، سادگی، وقار اور متانت کے اسباق فراغت کے
ساتھ ہی فارغ کردیے جاتے ہیں۔ اور ان کی جگہ ہینڈسم شریک حیات، اچھا گھر ،
اچھی جیولری ، اور فرنشڈ فلیٹس ان بچیوں کا اولین اور آخری خواب بن جاتا
ہے اور یہ خواب سن شعورسے ہی معصوم نگاہوں میں ایسا اترتا ہے کہ قرآن و
حدیث کی تعلیم اور والدین کی نصیحتیں بھی انھیںاس خواب غفلت سے بیدار نہیں
کرپاتیں۔
خالص دعوت الٰہی کے لیے پیدا کی گئیں اس ملت کی بچیاں جنھیں ہم ’’طالبات
علوم نبوت‘‘ کہتے ہیں آج ہر میدا ن میں پیچھے ہیں ۔ طالبات کی حالت یہ ہے
کہ پڑھائی کے دوران اور فراغت کے بعد بھی ان کی اکثریت فلمی ایکٹروں اور ٹی
وی اداکاراؤں سے متأثر رہتی ہے، رومانوی کہانیاں ان کے دل و دماغ سے نہیں
نکل پاتیں ۔ مخربِ اخلاق لٹریچر کی تباہ کاریا ں مزید کام کرجاتی ہیں اور
اپنا مقصد حیات یکسر بھول جاتی ہیں۔
غور کریں ایک مومنہ عورت جس کی ذات ہی محض اسلام کی وجہ سے انفرادی و
امتیازی حیثیت رکھتی ہے اور مومنہ بھی وہ جس کو رب نے اپنے اتارے ہوئے دین
کی تعلیم کے لیے چن لیا ہو ۔ جس کو کسی ایک فرد یا ایک خاندان کی اصلاح کے
لیے نہیں بلکہ امت کی اصلاح و تربیت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ اللہ کی اس
بندی کا اپنی زندگی، اپنے اصول، اپنے افکار، اپنی تعلیم و تربیت ،اپنا طرز
ِ زندگی یوں مادّہ پرستی اور دنیا داری کے سپرد کردینا کہاں کی ہوشمندی ہے
؟
۳)دعوتی میدا ن میں مدارس کی عدم دلچسپی :
آج قلم گستاخ ہے ، اس گستاخی کو برداشت کرلیں ۔ علم و ہنر کے یہ ضیاء بار
روشن میناریں، جنھیں ’’ مدارس اسلامیہ‘‘ کے نام سے جاناجاتا ہے بلاشبہ ’’
ملّت اسلامی ‘‘ کے محافظ ہیں ۔ یہی وہ مسکن ہیں جہاں آج کے ملحدانہ ماحول
میں’’ دین ‘‘ سانسیں لے رہا ہے، جو اس امّت کے رگوں کو خون فراہم کررہے
ہیں۔یہ وہ ادارے ہیں جہاں اس خیر امّت کے رہنمائوں کی تربیت ہوتی ہے ۔ لیکن
یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے کہ طلبہ کو جس جذبے کے ساتھ دعوت کے لیے تیار کیا
جاتا ہے اتنے جذبہ سے بچیوں کی تربیت نہیں ہوتی ۔ مدارس کا رول بچیوں کی
دعوتی ذہن سازی میں کہیں بہت پیچھے چھوٹ گیا ہے بلکہ ’’ نہ ‘‘ کے برابر رہ
گیا ہے ۔ جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اصلاح امت کا آدھے سے زیادہ انحصار
خواتین پر ہی ہے ۔
مدارس ہر سال ایک بڑی تعداد میں ’’ طالبات علوم نبوت‘‘ کی اچھی خاصی فوج
تیار کرتے ہیں ۔ الحمد للہ طالبات کی بڑی تعداد ذہین اور باذوق ہوتی ہے
لیکن عجیب معاملہ ہے کہ عقیدہ و حدیث ، فقہ واصول کے مضامین میںاچھے نمبرات
حاصل کرنے والی یہی بچیاں دعوت کے بنیادی منہج و اسلوب سے بالکل نا آشنا
ہوتی ہیں ۔ لہٰذا ارباب حل و عقد کو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک لڑکی کو
اس کی زندگی کے بیش قیمت دس سالوں کے بدلے میں مدارس اس کی صلاحیتوں کا ثمر
ہ کس شکل میں دے رہے ہیں ؟ محض چند ایسی کاغذی ڈگریاں،جن کی حیثیت عملی
زندگی میں اس تھیوری جیسی ہے جو پریکٹیکل کے بغیر ادھور ی ہوتی ہے،یہ کیا
ظلم ہے ؟
جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس عظیم مقصد کے لیے طالبات کو ۸۔۱۰سال تک
مشق کرائی جاتی ہے وہ مقصد ان کا نصب العین ہوتا ۔ ان کے ذہنوں میں روزِ
اول سے ہی مقصد کی تکمیل کی لگن پیدا کی جاتی تاکہ وہ رسول اللہﷺ کے مشن سے
محبت کرتیں ۔ خود کو اس کے لیے تیار کرتیں۔ پر آشوب اور مخدوش معاشرہ کو
اسلامی تعلیمات کے سائے تلے تشکیل کرتیں۔
افسوس! مدارس کی دنیا سے فارغ ہوکر جب ہماری طالبات باہر نکلتی ہیں تو ہم
انھیں کیسا پاتے ہیں ؟ … بے انتہا کمزور ، ڈگمگاتا ہوا اعتماد ، بمشکل ایک
دو زبانوں کا علم جن پر کوئی عبور نہیں ۔ ادبی زبان میں لکھنا اور بولنا تو
دور کی بات، سمجھنے کی بھی صلاحیت نہیں ۔
اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مدارس میں ہفتہ واری انجمن اور سالانہ مسابقہ کے
علاوہ ایسا کوئی نظم ہو جس سے طالبات کے اندر ازخود کچھ بدلنے کا جذبہ و
شعور پیداہو ، وہ اپنے ذاتی تجربوں کو کھل کر زبان دے سکیں ۔ ایک ایسے
مؤثر نظم کی ضرورت ہے جہاں بچیوں کی صلاحیتوں اور ذہانت کو فی الحقیقت
سنوارا اور نکھارا جا سکے ۔ با ضابطہ ایسے معلمین و معلمات کا تقرر کیا
جائے جو سماج میں دعوتی اور تبلیغی سرگرمیوں سے منسلک ہوں اس کے علاوہ
بچیوں کے درسی نصاب میں ایک ایسا مضمون بھی شامل کیا جائے جس میں دعوت کے
طریقے اور معلومات شامل ہوں۔علاوہ ازیں جو کام بڑی اہمیت کا حامل ہے وہ یہ
کہ ان کی ذہن سازی کی جائے ان کے ذہن کو معاشرے کے لیے دعوتی و اصلاحی
بنایا جائے۔ طالبات کو دعوتی راہ کے اتا ر چڑھاؤ سمجھائے جائیں ۔نیز صبر و
ضبط ، حسن اخلاق اور عملی کردار کی اہمیت سے واقف کرایا جائے ۔
نصابی سرگرمیوں سے باہر نکل کر خارجی، عصری علوم کی طرف بھی توجہ دلائی
جائے، اردو ،عربی کے علاقائی اور قومی زبان سیکھنے کا حوصلہ دیا جائے تاکہ
دعوتی فیلڈ میں قدم رکھنے کے بعد وہ با آسانی دوسروں سے ان ہی کی زبان میں
Communicateکر سکیں ۔ جس سے سماج کو صحیح نہج پر لے جایا جا سکے ۔
۴)والدین کی کج فکری:
موجودہ دور میں بچیوں کی شادیاں کرنے میں والدین کی کج فکری بھی ایک بڑی
وجہ ہے ۔آج یہ ہورہا ہے کہ الحمد للہ والدین اپنی بچیوں کو دینی تعلیم و
تربیت سے آراستہ تو کرتے ہیں لیکن جب ان کی زندگی گزارنے کے لیے شریک حیات
کا انتخاب کا وقت آتاہے تو یہی والدین انصاف سے کام نہیں لیتے۔ اکثر
والدین عالموں کی قلیل تنخواہ اور ان کی دقّت بھری نانِ شبینہ کی محتاج،
مجبوریوں والی ’امیج‘ کے تحت اپنی بیٹیوں کی شادی نہیںکرتے ۔ بزنس مین،
کاریگر یا پھر بچی کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے کسی بھی پیسے والے کے
پلّے باندھ دیتے ہیں ۔ اور پھر فکری ، علمی نا ہم آہنگی کی وجہ سے مایوس
کن اثرات آگے چل کر کئی مصیبتوں کا پیش خیمہ بنتی ہیں۔ ایسے اکثر رشتوں کے
انجام ہمارے سامنے طلاق ، خلع ، ناچاقی اور اختلافات کی شکل میں آتے ہیں ۔
حرف آخر:
ستاروں سے روشنی، دریاؤں سے روانی ، سمندر سے ظرف اور پھولوں سے ان کی مہک
سے دستبردار ہونے کو کہا جائے تو کتنی مضحکہ خیز بات ہوگی آج ٹھیک یہی کام
، یہی ناانصافی ان عالمات کے ساتھ ہو رہی ہے۔ معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گی
کہ حق میراث کی طرح اس امت کے مردوں نے عورتوں سے حق دعوت دین کو بھی غصب
کرلیا ۔ اس پر بھی روز قیامت مردوں کا مؤاخذہ کیا جائے گا کیونکہ عورت
اللہ کی بندی ہے کسی مرد کا نہ تو ضمیمہ ہے نہ اس سے کمتر ۔ تو پھر آپ اس
سے اللہ کا عطا کردہ حق کیوں چھیننا چاہتے ہیں ۔
درحقیقت دعوت کی سرزمین نہایت وسیع ہے اگر عورتیں چاہیں تو وہ چھوٹے دائرے
میں رہ کر بھی دعوت و تبلیغ کا فریضہ بخوبی انجام دے سکتی ہیں ۔ کہنے کا
مقصد یہ نہیں تھا کہ دعوت کے نام پر وہ سارے شہر میں گھومتی پھریں ۔ اور
گھریلوکاموں سے جی چرائیں ۔ وہ جہاں بھی ہیں جس گھر میں بھی ہیں وہیں سے
وہیں پر اسے اصلاح کا کام کرنے کی اجازت اور آزادی دی جائے تاکہ اپنے مرکز
پر رہ کر دعوت و تبلیغ کا کام اس طرح کرے کہ روشن چراغ سے دوسرے چراغ بھی
روشن ہوجائیں ۔ اور اس طرح دین کی روشنی پھیلتی جائے ۔
شہروں میں ماہانہ اجلاس اور خطبات جمعہ ناکافی ہیں ۔ عورتیں پوری طرح ان
بیانات سے مستفیض نہیں ہو پاتیں ۔ امت کی بہنوں میں First Step سے تعلیمی
شعور پیدا کرنے کی شدید ضرورت ہے ۔ جیسے ناظرہ قرآن پڑھانے کاانتظام،
عقیدہ اور منہج کے بنیادی اسباق ، طہارت ، طریقہ صلوٰۃ اسی طرح کئی اور
دیگر بنیادی مسائل سے ان کی تربیت کا آغاز ہو ناچا ہیے۔
آج ضرورت ہے کہ اپنے گھر میں غافل بیٹھی ہوئی ہر عالمہ احسا س ذمہ داری کے
ساتھ سامنے آئے ، صدق دل سے اس کارِخیر میں حصہ لے ، اپنے گھر وں میں ،
محلوں میں ، پاس پڑوس کی عورتوں کو جمع کرکے انھیں دین سکھانے کی کوشش کرے
اور امت محمدیہ کی بڑھتی ہوئی جہالت اور غفلت کو دور کرکے ازسر نو معاشرے
کو اسلامی شعائر پر استوار کرے۔ |