ہپنا ٹزم کیا ہے(قوتِ تصور) آخری حصہ

بِسمَ اللٰہ الرحمٰن الرحیم
محترم قارئین کرام السلام علیکم
محترم قارئین اس سے پہلے میں اس موضوع پر تین کالم لکھ چکا ہوں، جن کو قارئین کرام نے بہت پسند کیا اور بیشمار ای میلز کیں اور اس سلسلے کو جاری رکھنے اور ہپنا ٹزم سیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا، یہ اس سلسلے کا چوتھا اور آخری کالم ہے۔ گو کہ یہ کالم کافی وقفہ سے لکھ رہا ہوں جس کی بہت سی وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک بڑی وجہ مصروفیت کی تھی۔ اس کے لیے میری ایک خواہش یہ بھی تھی کہ اس کالم کے ساتھ ہی ہپنا ٹزم سیکھنے کا شوق رکھنے والے حضرات کے لیے ہپنا ٹزم سیکھنا سمجھنا اور اس کو عملی زندگی میں بروئے کار لانا آسان ہو جائے، یہ سب کیسے ہوگا آگے جا کر اس کا ذکر آئے گا، پچھلے کالموں میں قوتِ ارادی، قوتِ خیال پر بات ہو چکی ہے، اب ہمارا موضوع ہے قوتِ تصور، بات کرتے ہیں کہ تصور کیا ہے، اور اس میں طاقت کیسے پیدا کی جا سکتی ہے ، قوتِ تصور کے خود اپنے آپ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، اگر قوتِ تصور کی طاقت کسی دوسرے شخص پر مسلط کی جائے تو اس کے کیا اثرات ہونگے۔

تصور کیا ہے؟
تصور زندگی ہے، تصور خوشی اور تصور ہی غم ہے، تصور ماضی تصور حال اور تصور ہی مستقبل ہے بلکہ تصور ہی سے اپنے ہونے کا احساس ہے، جن لوگوں کے پاس تصورات کا خزانہ نہیں ہوتا وہ لوگ کبھی بھی کامیاب زندگی نہیں گزار سکتے، تصور کے بغیر غم انسان کا مقدر بن جاتے ہیں، تصور سے چیزیں عدم سے وجود میں آجاتی ہیں۔ سوچیں اور غور کریں جب پاکستان نہیں تھا تو کیا تھا؟ کسی ایک شخص نے پاکستان کا تصور کیا یہ تصور ایک دماغ سے نکل کر لاکھوں کروڑوں انسانوں کا تصور بن گیا اور یہ تصور ایک طاقت کی شکل اختیار کر گیا پھر قانونِ قدرت سے ایسے حالات پیدا ہو گئے اور پاکستان معرضِ وجود میں آگیا یہ سب تصور ہی کی طاقت تو ہے۔

جتنی بھی سائنسی ایجادات ہیں کیا یہ سب تصور کی مرہونِ منت نہیں ہیں؟ یہ سب ایجادات تصور ہی سے ممکن ہوئیں ہیں۔

آپ اپنے گردو پیش کا جائزہ تو لیں اپنے ارد گرد طالب علموں کی زندگیوں کا مشاہدہ کریں آپ دیکھیں گے جو طالب علم اپنے ذہن میں جو کچھ بننے کا تصور رکھتا ہے یا کسی طالب علم کے والدین اپنی اولاد کو کچھ بننے کا تصور دے دیتے ہیں وہ طالب علم بالکل اس تصور کے مطابق کچھ بن جاتا ہے، انجینئر، سائنسدان ، ڈاکٹر بننے سے پہلے یہ ان کا تصور تھا کہ وہ یہ سب کچھ بنیں گے، ایک دن آیا وہ اپنے تصور میں کامیاب ہو گئے، اس کے برعکس جن طلبا کا کوئی تصور نہیں ہوتا وہ کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کرتے، تصور جتنا پختہ ہو گا کامیابی اتنی ہی جلدی اور آسانی سے ملتی ہے۔

تصور اور خیال انسان پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں؟
ہمارا پورے کا پورا جسم دماغ کے تابع ہے، ہم دماغ میں جو کچھ سوچتے ہیں ہمارا جسم ویسے ہی حرکت کرتا ہے اور ہمارا دماغ خیالات کے ذریعے حرکت میں آتا ہے اور خیالات تصور کو جنم دیتے ہیں اور تصور چیزوں کو شکل دیتا ہے، آپ ابھی آنکھیں بند کر کے دیکھیں اور کسی چیز کا نام لیں یا کسی چیز کے متعلق سوچیں، مثلا میں کپ یا گلاس کا نام لیتا ہوں آپ کے دماغ میں فوراً کپ اور گلاس کا نام سن کر آپ کے دماغ نے آپ کو بتایا کہ کپ یا گلاس کی یہ شکل ہوتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خیال سے تصور اور تصور سے چیزوں یا اشیاء کی شکل واضع ہوتی ہے، ہمارے دماغ میں ان سب چیزوں کی شکل پہلے سے موجود ہوتی ہے۔

اسی طرح آپ آرام دہ حالت میں بیٹھ کر آنکھیں بند کر لیں ناک کے ذریعے آہستہ آہستہ سانس کو اندر کھینچیں اور منہ کے ذریعے خارج کر دیں اس عمل کو تین بار دہرائیں اب آپ اپنے ذہن میں کسی شادی کا کسی جگہ کا یا کسی اس لمحے کا تصور ذہن میں لائیں جس میں آپ نے بہت زیادہ خوشی محسوس کی ہو، آپستہ آہستہ سانس لیتے رہیں ایک منٹ کے تصور کے بعد اپنی سانس نارمل کر کے آنکھیں کھول لیں آپ کا دماغ اس تصور کو آپ کے پورے جسم پر حاوی کر دے گا اور تصور میں محسوس کی ہوئی خوشی کو آپ کے جسم میں منتقل کر دے گا آپ کا پورا جسم خوشی محسوس کرنے لگے گا، کیونکہ یہ خوشی آپ کے دماغ میں پہلے سے موجود تھی آپ نے صرف تصور کے ذریعے اس خوشی کو محسوس کیا اور دماغ نے وہ خوشی آپ کے جسم میں منتقل کر دی،اسی طرح رات کے اندھیرے میں آپ پر خوف طاری ہو جاتا ہے اور آپ کے ذہن میں خوف کی مختلف شکلیں بننا شروع ہو جاتی ہیں اور آپ کو اندھیرے میں کبھی کبھی مافوق الفطرت سائے بھی نظر آنا شروع ہو جاتے ہیںپھر خوف سے جسم بھی کانپنا شروع ہو سکتا ہے یہ سب تصورات کی جادوگری ہی تو ہے جس کے ہمارے جسم پر واضع اثرات ہوتے ہیں، تصور کے انسانی جسم پر اثرات کی سب سے بڑی دلیل پیش کر رہا ہوں میرا خیال ہے کہ اس دلیل کے بعد کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ نماز پڑھتے ہوئے یہ تصور رکھو کہ میں اﷲ تعالٰی کو دیکھ رہا ہوں یا پھر اللہ تعالٰی مجھے دیکھ رہا ہے۔

یہ تو ہو گئے تصور کے خود اپنے جسم پر اثرات اب بات کرتے ہیں کہ خیال اور تصور کو کسی دوسرے شخص پر مسلط کرنے سے کیا اثرات ہوتے ہیں اور کیسے ہوتے ہیں تصور میں پختگی اور طاقت کیسے پیدا کی جاسکتی ہے، خیال اور تصور ایک ایسی طاقت ہے جس کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا اس سے کسی بھی ذی روح کو انکار نہیں ہو سکتا ہم تصور کی طاقت کو دیکھ نہیں سکتے مگر جب اس طاقت کو کی پر مسلط کیا جائے تو یہ اپنا آپ منواتی ہے اور اس کے نتائج سے آپ حیران ہو جاتے ہیں، ہر انسان کے جسم اور دماغ سے ہر وقت لہریں خارج ہوتی رہتی ہیں اور ہر انسانی دماغ ہر وقت خیالات کی لہریں وصول کرتا رہتا ہے مگر یہ خیالات کی لہریں عام نوعیت کی ہوتی ہیں اسی طرح ہر انسان کے جسم کے گرد ایک روشنی ک ہالہ ہوتا ہے ہر انسان ہی نہیں بلکہ کائنات کی ہر چیز روشنی کا ایک وجود رکھتی ہے، اسی طرح ہر انسان کے گرد جو روشنی کا ہالہ یا وجود ہوتا ہے اس کو اورا یا جسمِ مثالی کہتے ہیں ہر انسان کے گرد جو روشنی کا ہالہ ہوتا ہے اس کا سائز اور رنگ مختلف ہوتا ہے، تصور اور ارتکازِ توجہ کی مشقوں کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ آپ کے دماغ سے خارج ہونے والی خیالات کی لہروں میں طاقت پیدا کی جا سکے اور جسمِ مثالی کو مضبوط اور وسیع کیا جا سکے جب ارتکازِ توجہ کی مشقوں کے ذریعے خیالات کی لہروں میں طاقت پید ہو جاتی ہے تو دماغی حالتیں مختلف ہوتی ہیں دماغ کی فریکوئنسی اپ ڈاؤن ہونا شروع ہو جاتی ہے عام طور پر دماغ کی فریکوئنسی اپ رہتی ہے مگر ارتکازِتوجہ کی مشقوں سے دماغ کی فرکوئنسی ڈاؤن ہو جاتی ہے جب دماغ کی فریکوئنسی ڈاؤن ہوتی ہے تو اس وقت آنکھیں اور سر بھاری ہو جاتا ہے، جب دماغ کی فریکوئنسی ڈاؤن ہوتی ہے تو اس وقت دماغی خیالات اور جسمِ مثالی میں ایک خاص قسم کی قوت پیدا ہو جاتی ہے،اس علم کے ذریعے جب آپ اپنے دماغ کی فریکوئنسی پر کنٹرول حاصل کر لیتے ہیں تو آپ اس سے بہت سے کام لے سکتے ہیں اور ہلکی سے ہلکی آوازوں کو بھی سننے پر قادر ہو جاتے ہیں جن آوازاوں کو عام حالات میں نہیں سنا جا سکتا، جیسے کہ حضرت سلیمان علیہ اسلاام کے لشکر کو دیکھ کر ایک چیونٹی کہنے لگی اے چیونٹیوں اپنی اپنی رہائش گاہوں میں چلی جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر تمہیں کچل دے اور انہیں خبر بھی نہ ہو حضرت سلیمان علیہ السلام اس چیونٹی کی آواز سن کر مسکرادئیے، اللہ تعالٰی نے اپنے انبیاء کرام کو بہت سی طاقتیں عطا کی ہوتی ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی اللہ تعالٰی نے یہ طاقت بخشی تھی کہ چیونٹیوں کی آواز تک سن لیتے تھےوہ اللہ تعالٰی کے نبی تھے ان کو مشقوں کی ضرورت نہیں تھی، اللہ تعالٰی نے تمام مخلوق میں خصوصاً انسانوں میں انبیاء کرام کو فوقیت بخشی ہے، انبیاء کرام علیہ اسلام میں اللہ تعالٰی کی ذات نے یہی قوتیں بھر کر ان سے معجزات رونما کروائے ہیں جیسے حضرت داؤد علیہ السلام ان کے اندر اللہ تعالٰی کی یہی قوت موجود تھی یہی روحانی طاقتیں تھیں وہ اپنے ہاتھ میں لوہے کو پکڑ کر موم کی طرح نرم بنا دیتے تھے، یہی قوت روحانی طاقت حضرت موسٰی علیہ السلام کو اللہ تعالٰی نے عطا کی تھی وہ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر باہر نکالتے تھے تو وہ روشن ہو جاتا تھا اسی طرح یہی روحانی طاقتیں اللہ تعالٰی نے حضرٹ عیسٰی علیہ السلام کو عطا فرمائی تھیں وہ اندھے شخص کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے تھے اس کو نگاہ دے دیتے تھے اسی طرح اللہ تعالٰی نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللٰہ علیہ وسلم کو یہی طاقتیں معجزات کی صورت میں بہت زیادہ عطا فرمائی تھیں آپ نے اپنی انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے کر دیئے۔

اسی طاقت کے ذریعے اللہ تعالٰی نے انبیاء کرام علیہ السلام سے معجزات رونما کروائے اور اسی علم کے ذریعے الیاء کرام اور بزرگانِ دین سے کرامتیں ظہور پذیر ہوئیں ہیں، اب بھی یہ علم ختم نہیں ہوا یہ علم اولیاء کرام بزرگانِ دین علماء کرام کے پاس موجود ہے یہ سب انبیاء کرام علیہ السلام کے وارث ہیں یہ علم سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا رہتا ہے اس علم کی قوت اللہ تعالٰی نے ہر انسان کے اندر رکھی ہوئی ہے کیونکہ انسان کو اللٰہ تعالٰی نے اس دنیا میں اپنا نائب بنایا ہے اس علم کی قوت کی کچھ شاخوں کو سائنسدانوں نے تلاش کر کے اس کو ہپنا ٹزم ٹیلی پیتھی مسمریزم کا نام دے دیا ہے جسس پر ہم بات کر رہے ہیں ۔

کوئی بھی شخص ارتکازِ توجہ کی مشقوں اور اسماء الحسنٰی کے ورد سے اپنے اندر سوئی ہوئی طاقتوں کو بیدار کر سکتا ہے جس سے آپ بہت طرح کے کام لے سکتے ہیں اس دوران آپ کسی کو بھی بڑی آسانی سے ہپنا تائز کر کے اپنے زیرِ اثر کر سکتے ہیں، آنے والے واقعات کو قبل از وقت جان سکتے ہیں، دور بیٹھے ہوئے شخص کو اپنے پاس بلا سکتے ہیں، لوگوں کے دلوں کے راز آشکار ہونا شروع ہو جاتے ہیں آپ حال میں رہ کر مستقبل کو دیکھ سکتے ہیں ، پرائز بانڈز کے نمبر حاصل کر سکتے ہیں، کسی بھی شخص سے اپنی خواہش کے مطابق کام لے سکتے ہیں، امتحان میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں، مال و دولت حاصل کر کے ایک کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں،بیماریوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے،اس علم سے اور بھی بہت سے فائدے حاصل کیے جا سکتے ہیں سب گنوانے لگوں تو مضمون بہت طویل ہو جائے گا، آپ محنت اور کوشش کریں پھر دیکھیں قدرت کیسے آپ پر مہبان ہوتی ہے ارتکازِ توجہ کی مشقوں اور اسماء الحسنٰی کے ورد کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے اندر سوئی ہوئی طاقتوں کو بیدار کر کے اور اپنے روز مرہ کے کاموں میں بروئے کار لا سکے، میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ ارتکازِ توجہ کے ساتھ ساتھ مخصوص اسماء الحسنٰی کے مخصوص طریقہ سے ورد کرنے سے انسان کے اندر سوئی ہوئی طاقتیں جلد بیدار ہو جاتی ہیں اور مشقوں کا دورانیہ عبادت میں بھی شمار ہو جاتا ہے۔

یقیناً قارئین یہ سب باتیں پڑھ کر سوچ رہے ہونگے کہ نا جانے اپنے اندر ایسی طاقتیں بیدار کرنے کے لئے کتنی محنت کی ضرورت ہو گی، ہاں اس میں محنت کی ضرورت تو ہے مگر اتنی نہیں جتنا کہ آپ نے سوچ لیا ہے اس کے لئے صرف تین ماہ کی قلیل مدت درکار ہے، روزانہ صرف ایک گھنٹہ چاہئے آدھ گھنٹہ صبح اور آدھ گھنٹہ شام کو روزانہ ایک گھنٹے کی مشقوں سے آپ پنے اندر سوئی ہوئی طاقتوں کو بیدار کر سکتے ہیں،
قرآن پاک میں اللہ تعالٰی کا فرمان ہے ۔ ترجمہ: اور انسان کو اتنا ہی ملے گا جتنی اس نے کوشش کی۔

میری بتائی ہوئی مشقیں اتنی پرفیکٹ پُر اثر اور جامع ہیں کہ جن کو کرنے سے پہلے ہی ہفتے آپ اپنے اندر ایک نمایا تبدیلی محسوس کریں گے یہ مشقیں کرنے سے آپ اپنے اندر عجیب طرح کی توانائی محسوس کریں گے، خود اعتمادی میں اضافہ ہو گا ہر مشکل کام آسان لگنے لگے گا جن لوگوں کے پاس ایسا علم ہے وہ لوگ شاذو نادر ہی نظر آتے ہیں اور جو نظر آ بھی جاتے ہیں وہ کسی کو کچھ بتانا گناہ سمجھتے ہیں مگر میرا مقصد اس علم کو عام لوگوں تک پہنچانے کا ہے تا کہ ہر کوئی اس علم کے ذریعے سوئی ہوئی طاقتوں کو بیدار کر کے اپنے مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ مخلوقِ خدا کی پریشانیوں کا ازالہ کر سکے اسی مقصد کے حصول کے لئے میں نے ایک پروگرام ترتیب دیا ہے جس میں مختلف قسم کی مشقیں بتائی گئی ہیں اور ان مشقوں سے حاصل کردہ طاقت سے کام لینے کے طریقے بتائے گئے ہیں اور ساتھ ہی ان مشقوں کو کرنے کے طریقے بھی بتائے گئے ہیں تا کہ کسی بھی مشق کے منفی اثرات سے محفوظ رہا جا سکے ایسا اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے لوگوں میں اندرونی طاقتیں قدرتی طور پر بیدار ہوتی ہیں مگر وہ ان سے کام نہیں لے سکتے کیونکہ ان کو علم نہیں ہوتا کہ اس طاقت کو کیسے استعمال کیا جائے اس پروگرام میں یہ سارے طریقے بتائے گئے ہیں مخصوص اسماءالحسنٰی کو جاننے اور ان کو مخصوص طریقے سے ورد کرنے کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے، یہ پروگرام مختصر مگر جامع قسم کا ہے جس سے کوئی بھی بڑی آسانی سے استفادہ کر سکتا ہے اس پروگرام میں ایسی ایسی مشقیں بتائی گئی ہیں جن سے اس علم کے شوقین حضرات کی تشنگی دور ہو جائے گی، میرا چوتھا کالم لیٹ ہونے کی وجہ بھی یہی تھی میری کوشش تھی کہ میرے آخری کالم کے ساتھ ہی یہ پروگرام بھی مکمل ہو جائے جسے میں نے بہت محنت اور خلوص کے ساتھ ترتیب دیا ہے یہ پورا پروگرام میں نے ایک سی ڈی پر ترتیب دیا ہے اس علم کے شائق لوگ یہ سی ڈی حاصل کر سکتے ہیں اس سی ڈی کے ذریعے آپ ہپنا ٹزم کے ساتھ ساتھ اور بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں میرا خیال ہے کہ پاکستان میں اس سے پہلے اس طرح کا کام نہیں ہوا کہ ہپنا ٹزم کے پورے علم کو ایک سی ڈی پر منتقل کر کے اتنا آسان بنا دیا گیا ہو، میں نے پورے خلوص کے ساتھ سب کچھ اس سی ڈی پر منتقل کر دیا ہے اس سی ڈی کے ذریعے آپ ان طاقتوں کو حاصل کر سکتے ہیںجن کا ذکر اس کالم میں ہو چکا ہے اب اس سے فائدہ حاصل کرنا آپ کا کام ہے ، قارئین اس کالم کے ساتھ ساتھ ہپنا ٹزم پر میرے پہلے سے شائع شدہ کالمز کا مطالع کر یں جو میں نے ہپنا ٹزم کے متعلق لکھے ہیں

اپنی قیمتی آرا سے نوازیئے گا
Hafiz Taj Muhammad
About the Author: Hafiz Taj Muhammad Read More Articles by Hafiz Taj Muhammad: 8 Articles with 52263 views Spiritual Healer, Reiki Healer, Hypnotherapist, NLP practitioner and Silva mind control... View More