کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد تایاتائی ایک گاؤں کے بس اڈے
پر اترے۔سفر کی تھکاوٹ تھی اور گاؤں کا پینڈا(فاصلہ)ابھی کافی دور
تھا۔دونوں چلنے لگے ۔۔پَر جلد ہی انھیں اپنا ارادہ ترک کر کے قریب لہلہاتے
کھیتوں کے بیچ بنے ڈیرے کا رُخ کرنا پڑا۔
یہ تایا کے بھتیجے اقبال کا ڈیرہ تھا۔نوکر نے مہمانوں کو دیکھ کر جلدی سے
درختوں کے نیچے پڑی چارپائی پر کھیس ڈال کر انھیں بٹھایا۔لسّی لا کر پلائی
اور کھانے کا پوچھا۔کھانے کا سن کر مہمانوں کے چہرے پر تھوڑی بشاشت آ گئی۔
بس اڈے کا ڈھابہ ،گرما گرم کھانا ان کی نظروں کے سامنے آ کر بھوک کی اشتہا
مزید بڑھا گیا۔اب نوکر حکم کا منتظر تھا اور ادھر دونوں میں تکرار شروع ہو
گئی۔
تائی بھنا ہوا مُرغا کھانا چاہتی تھی اور تایا فش فارم کی تازہ مچھلی۔۔!
ایک دوسرے کو قائل کرنے کے لیے دونوں میں گرما گرمی ہونے لگی۔اتنے میں ان
کا بھتیجا اقبال آ گیا۔اس نے یہ صورتحال دیکھی تو دھیرے سے مسکرا دیا اور
نوکر کو دونوں کا من پسند کھانا لانے کے لیے کہا۔
تھوڑی دیر بعد تندور کی تازی گرم گرم روٹیاں اور کھانا آگیا۔اقبال نے خود
آگے بڑھ کر تایا کے آگے کھانے کی خوشبوئیں اڑاتی مچھلی رکھی اور تائی کے
آگے لال گھی سے تربتر مصالحے دار چٹپٹا مرغ۔۔، لیکن ایک شرط کے ساتھ کہ اب
وہ دونوں صرف اپنا اپنا کھاناہی کھائیں گے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھیں گے
بھی نہیں۔۔ کھانا شروع ہوا لیکن تھوڑی دیر بعد ہی تایا دزدیدہ نظروں سے
بھنے مرغے کو دیکھ رہا تھا اور تائی کی للچائی نظریں مچھلی کی پلیٹ کا طواف
کر رہی تھیں۔٭
۔۔ کائنات بشیر (جرمنی) ۔۔ |