برسوں بیشتر کی کہانی ہے جب شناختی کارڈ 18کی بجائے
21برس کی عمر میں بناکرتاتھا، ہمارا شناختی کارڈ بناتو شوق چرایا کہ کچھ نہ
کچھ تو کم ازکم ہمارے نام کے ساتھ لگنا چاہئے ،بجلی کامیٹرابھی تک داد ا جی
کے نام پر چل رہا ہے، کہیں ابو جی کانام چلتاہے اورکہیں بڑے بھائی جان کا،
خیر چونکہ شناختی کارڈ بننے کے بعد عجب سا شوق اٹھا تھا یہ کہانی الگ کہ اس
دوران دو ایک قومی اخبارات کے نمائندگی کارڈ البتہ جیب میں ضرور تھے۔ خیر
انہی دنوں مقامی بلدیاتی ادارہ سے سرکاری نل یعنی ٹونٹی لگوانے کی باتیں چل
رہی تھیں ہم نے یونہی شوشا چھوڑدیا کہ ’’ یہ ٹونٹی یا نل ہمارے نام پر لگے
گا ‘‘ کسی نے اعتراض نہ اٹھایا اور پھر ہمارے نام فائنل کرکے بلدیاتی ادارے
میں درخواست جمع کرادی گئی کنکشن لگا ،سال سوا تو پانی خوب آتا رہا پھر
پانی بھی پاکستانی قوم کی نصیب جیسی جھلک دینے لگا ، کبھی کبھار مہربان
ہوجاتاتو چند بوندیں میسرآجاتیں ورنہ․․․․ خیر وہ کنکشن کٹواکر باقاعدہ
سرکاری محکمہ کو آگاہ کردیا کہ اب ہم آپ کے ’’کسٹمر‘‘ نہیں رہے، جواب ملا
’’کوئی بات نہیں یہ آج کے دن ہمیں چھوڑنے والوں کی تعداد میں ایک نیااضافہ
ہے‘‘ہم کہانی ختم سمجھے مگر محض چندہی ماہ بعد ایک اہلکار نوٹس لئے گھر آن
پہنچا ، والد محترم نے نوٹس وصول کرکے اگلی صبح ہمارے حوالے کئے جس پرواضح
الفاظ میں لکھاہواتھا کہ ’’اگر آپ نے 215روپے جمع نہ کرائے تو آپ کاکنکشن
کاٹ دیاجائیگا‘‘ الہٰی خیر، ہمارے منہ سے نکلا ،کیسے 215روپے؟؟اچھا وہ پانی
والے ؟؟ خود سے باتیں کرتے ہم نے وہ نوٹس فوراً جیب میں ڈالا کہ کہیں آس
پاس کے لوگ یا پڑوسی یہ نوٹس نہ دیکھ لیں کہ ہم سرکاری ادارہ کے مقروض ہیں،
اگلے دن متعلقہ سرکاری افسر کے حضور پیش ہوکر گزارش کی کہ ہم کنکشن لگوانے
کے محض چند ماہ بعد ہی پانی سے محروم ہوگئے تھے ،آپ کے حضورباربار استدعا
کی کہ آپ براہ کرم کم ازکم پانی نہیں دے سکتے تو کنکشن ہی کاٹ دیں مگر نہ
پانی آیا نہ کنکشن کٹا ،ہم بل اداکرتے رہے اوربالآخراپنے ’’صحافتی اختیارات
‘‘ استعمال کرکے کنکشن کٹواہی لیا۔ وہ صاحب اپنی عینک کو ناک سے مزید نیچے
کھسکاتے ہوئے بولے ’’اچھا مگر ہمارے ریکارڈ میں توآپ ابھی تک ہمارے پانی کے
کسٹمر ہیں یعنی آپ کو پانی فراہم کیاجارہاہے‘‘ عرض کی ’’حضور ! کنکشن کٹے
مہینوں بیت گئے ،آپ کے افسران کو آگاہ کرچکے ہیں لیکن ․․․․․․․‘‘ ان صاحب کی
زد کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے 215روپے جمع کرادیئے،اطمینان ہوگیا کہ اب ہم
سرکار کے ’’مقروض‘‘ نہیں رہے ،تاہم محض تین برس بعد ہی پھر نئی کہانی شروع
ہوگئی، پھرایک نیا نوٹس وہی 215روپے بقایا جات کا ،مگر اس بات نوٹس پڑوسی
کے ہاتھ لگ گیا ، وہ حیرانی سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے بولا ’’ یار !کم ازکم
ایک آدھ گھر تو آپ بھی چھوڑدو ‘‘ ہم نے عرض کی ’’حضور ! یہ کس ضمن میں
کہاجارہا ہے‘‘ فرمایا ’’یہ215روپے کی بات کررہاہوں ،بہتر ہے کہ آپ یہ
اداکریں اور جا ن چھڑائیں، غالباً یہ تین سال پہلے بھی نوٹس آیاتھا ‘‘ ہم
سرپیٹ کر رہ گئے، بلدیہ کا رخ کیا اورپھر نئے سرے سے کہانی سناناپڑی کہ اس
سیٹ پر اب کوئی نیانوجوان موجود تھا،ہماری ساری بپتا سن کر وہ ہنسا
اوربولا’’ صاحب! آپ کو جانتاہوں فکر نہ کریں ، اب کوئی نوٹس نہیں آئیگا‘‘
ہم نے پھر خدشہ ظاہر کیاتو بولا’’آپ بے فکر رہیں، ویسے بھی آپ نے الیکشن
تھوڑی لڑنا ہے کہ پریشان ہوئے جارہے ہیں‘‘ ہم نے حیرانی سے پوچھا ’’215روپے
کا الیکشن لڑنے سے کیا تعلق؟؟‘‘ فرمانے لگے کہ ’’الیکشن لڑنے والے کیلئے
ضرور ی ہے کہ وہ کسی سرکاری ادارے کا مقروض نہ ہو ، اگر ہوتو قرض اقساط کی
صورت میں ہی سہی اداکیاجارہاہو تو ٹھی ہے ورنہ پھر الیکشن لڑنے کے اہل نہیں
ہوسکتے‘‘ ہم نے فوراً جواب دیا ’’اول تو یہ بیوقوفانہ خیال ذہن میں آنہیں
سکتا اگر کبھی تھوڑا دماغ خراب ہواتو ضرور سوچیں گے لیکن اس سے پہلے․․․․‘‘
ہماری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ نوجوان بولا ’’215روپے پہلے ضرور جمع
کرادیجئے گا‘‘
صاحبو! اس کہانی کو برسوں بیت چکے ، اب بھی کبھی کبھار سوچتے ہیں کہ کہیں
دوبارہ 215روپے وصولی کا نوٹس نہ آجائے، ایک سوچ ذہن میں آرہی ہے کہ ہم تو
محض 215روپے کا وزن نہیں اٹھاپارہے جو ’’عادی سیاستدان ‘‘ ہیں وہ بھلاکیسے
’’سہار‘‘ سکتے ہونگے۔ یہ محض کہانی نہیں حقیقت ہے اورہمیں یقین ہے کہ آج
بھی ہمارے نام کے آگے 215روپے بقایا ،ضرور لکھے ہونگے۔ لیکن بڑے بڑے نام
ہزاروں ہڑپ کرگئے مگر کھاتہ کھولو تو ’’خالی‘‘ ۔ہم اپنے قر یبی بنک کے
سامنے ہر ماہ ایک نیا بینر دیکھتے ہیں جن پربڑے بڑے رئیس ،جاگیرداروں
،موجودہ سابقہ ممبران اسمبلی کے نام ضرور جگمگاتے نظرآتے ہیں اوراوپر جلی
حروف میں لکھاہوتا ہے ’’جائیداد برائے فروخت (مدقرقی) ، مگر اس کے باوجود
بھی کبھی نہیں سنا کہ ان شخصیات کی اراضی یابنک بیلنس میں کمی واقع ہوئی ہو
، پھر وہی بنک انہی شخصیات کودوبارہ قرض بھی دے دیتے ہیں‘‘ یہی حال ملوں،
فیکٹریو ں کے نام پر قرض لینے والوں کا بھی ہے، ملیں آج تک باقی مگر قرض
ڈوب گئے، گویا ان شخصیات کے نام 215روپے بقایاجیسا کوئی نوٹس نہیں آتا ،
اگر آتا بھی ہے تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے اور215 کے بعد بھی نیا قرض لے
لیتے ہیں،قرض درقرض فہرست بڑھتی نہیں بلکہ ختم ہوتی جاتی ہے،بعد میں عقدہ
کھلتا ہے کہ ’’قرض معاف کردیئے گئے کیوں صاحب غریب ہوگئے تھے ، قرض اداکرنے
کی ہمت نہیں رہی تھی ‘‘مگرظاہری ٹھاٹھ باٹھ، لش پش پہلے سے زیادہ دکھائی
دیتی ہے
آخری بات!ضیا الحق دور میں متعارف کرائی جانیوالی شق62-63 کا پہلا اور سب
سے کاری وار نوازشریف پرپڑا ہے اور اب ملک بھر میں باتیں ہورہی ہیں کہ ان
شقوں کو آئین کا حصہ نہیں رہناچاہئے، اپوزیشن سے لیکر اقتدار کے ایوانوں تک
، ہرکسی کو صادق، امین ہونے پر اعتراض ہے، کوئی کہتاہے کہ بھلااتنا صادق
امین کون ہوسکتا ہے،تو کسی کو اعتراض ہے کہ سیاست کے کھیل میں بھلا ’’صادق
امین ‘‘ کا کیاکام، یہ لفظ اب ایوانوں سے نکل کر عام آدمی تک بھی پہنچ چکے
ہیں ہرشخص کو صادق امین ہونے پراعتراض ہے، گویا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ
ہمیں بحیثیت قوم ’’صادق امین ‘‘ ہونے پراعتراض ہے، ہم نہیں چاہتے کہ عادی
چور ڈکیت ، لٹیرے سیاستدانوں سے جان نہیں چھڑانی البتہ ان شقوں سے ضرور جان
چھڑالیتے ہیں کہ ہمیں نوازشریف کی زیادہ ضرورت ہے ، ایماندار یاامانتدارکی
نہیں، گویا ہم چاہتے ہیں کہ ہم یونہی لٹتے رہیں گے لیکن ایماندار، امانتدار
کوکسی صورت برداشت نہیں کرینگے۔پھریہ بھی سوچئے گا کہ ضرور ہمارے اس روئیے
سے بیرون ممالک ہمارے لئے کیاتاثرات پائے جاتے ہیں؟؟ چور ،بے ایمان، دھن
دولت کیلئے ماں تک بیچ دینے والے تو ہم پہلے ہی مشہورتھے اب․․․․․․․․․․․․
|