’’عورت اور معاشرہ ‘‘

صنف نازک (عورت) کو ہر معاملے میں بے چاری، کمزور، ڈرپوک اور کم عقل تصور کیا جاتا ہے۔ حقوق نسواں کے نام پر زیادہ تر اس صنف پر رواں رکھے جانے والے ظلم اور زیادتیوں کو بیان کر کے گویا اس کی بیچارگی کو ہوا دی جاتی ہے۔ جہاں عورت کا لفظ طعنے دینے میں استعمال ہوتا ہے، اﷲ کی ذات پاک نے جس کے پیروں کے نیچے جنت بسا دی اسے علی الاعلان پیر کی جوتی سمجھے جانے والی باتیں زد عام ہو وہاں یہ سب کچھ اچنبھے کی بات نہیں۔

ان تمام باتوں کا یہ نتیجہ نکالا کہ عورت بھی ان تمام باتوں کو پختگی کے ساتھ قبول کرچکی ہے اور یہ تصور بچپن سے ہی بچیوں کے دماغ میں پروان چڑھایا جاتا ہے جس میں سب سے عام فہم تصور یہ ہے کہ لڑکے روتے نہیں ہیں بلکہ رونا دھونا تو لڑکیوں کا کام ہے اور اس کے علاوہ بہت سی صلاحیتیں لڑکیوں کی اس چکر میں ان کے اندر ہی دفن ہو کر رہ جاتی ہیں کہ یہ کام لڑکوں کا ہے لڑکیاں نہیں کرتیں ہمارے معاشرے کی اہم لائن و تکیہ کلام یہ ہے کہ تم یہ کرو گی، ایسا سوچو گی، ایسے بولو گی یا ایسا خیال بھی تصور کرو گی تو ’’لوگ کیا کہیں گیں‘‘ جب کہ اس کے برعکس لڑکوں کو ہمارے معاشرے نے اس ’’تکیہ کلام‘‘ سے مکمل طور پر بری الزمہ کر رکھا ہے وہ ہر چیز سے مکمل طور پر آزاد ہیں، خیر یہ ایک لمبی بحث ہے اس پر جتنی بات ہوگی اتنے ہی دلائل بڑھیں گے۔

عورت کو اس کی نو عمری سے ہی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر روک ٹوک اور اس کے ساتھ ہی اس کے دماغ کو بھی ایسے پروان چڑھایا جاتا ہے کہ عورت ایک انتہائی مجبور اور کمزور ہے۔ سب سے اہم بات کہ بیٹی تم پرائی ہو یہ تمہارا گھر نہیں ہے تم یہاں پر ایک مہمان ہو اور جس معاشرے میں مہمان کو پانی بھی اس کے ہاتھ میں لاکر دیا جاتا ہے۔ وہی اِس مہمان سے جس نے پرائے گھر جانا ہے چھوٹی سی ہی عمر سے گھر کے کام کروائے جاتے ہیں اور وہی اس لڑکی کے بھائی جو کہ اس گھر کا مستقل رہائشی ہے پانی کا گلاس تک اٹھا کر رکھ دیں تو بیٹا یہ کام تمہارا نہیں تمہاری بہن کا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر یہ مہمان نوازی سمجھ نہیں آتی خیر یہ تو ایک تصور ہے جو کہ بچپن سے ہی ہمارے ذہنوں میں پیدا کیا جاتا ہے۔ ایک اہم بات بظاہر تو وہ ایک معمولی بات سمجھی جاتی ہے وہ یہ کہ ’’بیٹی گھر کی عزت صرف تمہارے ہاتھ میں ہے‘‘ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو کہ اگر غور نہ کیا جائے تو ایک بیکار ترین بات ہے اگر اس بات پر غور کیا جائے تو گھر کی اور والد کی عزت کا دارومدار حقیقتاً بیٹوں پر ہوتا ہے کیوں کہ گھر سے باہر وہ زیادہ وقت گزارتے ہیں نہ کہ بیٹیاں گو کہ بیٹیوں کو یہ سیکھانے کے بجائے کہ ’’باہر کوئی لڑکا بد تمیزی کرے تو نظر انداز کردینا‘‘ زیادہ نہیں بس ایک چھوٹی سی بات والدین نو عمری سے سیکھادیں اور ذہن نشین کروا دیں کہ بیٹا اگر باہر جاؤ تو کسی کی بہن بیٹی کو غلط نگاہ سے نہیں دیکھنا اور نہ ہی بد تمیزی کرنا اگر تم اس بات کا پاس رکھو گے تو تمہاری بہن بیٹی سے بھی کوئی بد تمیزی اور غلط نگاہ سے نہیں دیکھے گا‘‘۔ یہ خاکہ اس کے بالکل بر عکس ہی بنایا جاتا ہے کہ بیٹی کے کاندھوں پر عزت کا پورا بوجھ لاد دیا جاتا ہے جب کہ خاندان کی عزت کا دار و مدار خاتون کے بجائے مردوں پر لازم آتا ہے۔ اسی طرح عورت کو اگر غصہ آئے تو وہ جوتا اُٹھا کر مار نہیں سکتی کیوں کہ یہ بھی اس کی تربیعت کا اہم جُز ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ یہ احترام کرنا بھی صرف عورت پر ہی لازم ہے۔ بد زبانی کر لے تو مرد اس سے زیادہ بد زبانی کرنے کو موجود ہوتا ہے۔ عورت اگر گالی دے تو کیسے دے کہ ہر گالی تو ماں بہن کے بارے میں ہوتی ہے تو کیا وہ اب اپنے آپ کو گالیاں دے۔ نفسیاتی جائزہ لیا جائے تو مردوں کا عورتوں کو تضحیک کرنے کا یہ رویہ ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ گو کہ انگریز بھی پیچھے نہیں۔ ان کے ہاں بھی عورت کو بُرے ناموں سے پکارا جاتا ہے اور مرد کے لئے چند گِنی چُنی گالیاں ہیں۔ لیکن برصغیر میں اول تہ آخر تمام گالیاں صرف اور صرف عورت سے ہی منسوب ہیں۔ پیر کی جوتی عورت، عورت کا تو دماغ ہی چھوٹا ہے، عورت مکار ہوتی ہے، عورت کے پیٹ میں بات نہیں ٹھہرتی، عورت کمزور ہوتی ہے، عورت لگائی بجھائی کرتی ہے، عورت کو مرد سے زیادہ زیور سے پیار ہوتا ہے، عورت بے وفا، بدزبان ہوتی ہے، عورت کی گواہی آدھی ہوتی ہے یہ سب باتیں عورت کے حوالے سے ہمارے رویے کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں توازن قائم رکھنے کے لئے عورت اور مرد کا آپس میں دوستانہ رویہ، باہمی عزت و احترام اور آپس میں مکالمہ انسانیت کی قدروں کا اساس ہے۔ اس مقابلے میں عورت اور مرد کے درمیان گالیوں کا تبادلہ انسانیت کی ضد ہے۔ بچہ جب خاندان اور علاقے میں استعمال ہونے والی گالیاں سیکھتا ہے تو اس کی نفسیات کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اس کے اندر بڑوں بالخصوص عورتوں کا احترام کرنے کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے۔ ماں جسے سب سے زیادہ احترام کا درجہ ملنا چاہیے پھر اسی کے ساتھ ’’تو تڑاخ‘‘ سے بولنے کو عین مردانگی سمجھتا ہے۔

معاشرتی سطح پر دیکھیں تو ہر بے جان اور نحیف چیز کو نسوانیت سے منسلک کرنا اور طاقتور کو مردانگی کا درجہ دیا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ عورت کی نفاست، سلیقہ مندی اور آداب ہی ہیں جو ایک مرد کو مرد بناتے ہیں۔ اگرچہ افسوس کہ ہمارا معاشرہ اس سچائی سے منہ پھیرے ہوئے ہے۔ دوسری طرف اس معاشرے میں ایسی خواتین بھی ہیں جو دسیوں گھروں میں جھاڑو پونجھا کرنے کی مشقت کرتی ہیں اور اپنے نصفِ بہتر کے مساؤی ہاتھ بٹاتی ہیں۔ کچھ کام کرنے والیوں کے شوہر بیمار اور لاچار ہوتے ہیں تو کچھ نشے کے عادی، جس کے باعث معاش کا سارا ذمہ ان کے سر ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ خواتین بھی ہیں جو دن بھر دفاتر میں کام کر کے جب تھک کر گھر واپس آتی ہیں تو گھر داری میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔ اگر ماں ہے تو یہ ایک اور اہم اور بھاری ذمہ داری ہے۔

اسی طرح دیہاتیوں میں کھیتی باڑی اور فصلیں کاٹنے میں بھی عورت موسم کی سختیوں سے بے پروا ہو کر مرد کے شانہ بشانہ ہوتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ خواتین اور لڑکیاں ڈرپوک ہوتی ہیں کیوں کہ وہ لال بیگ تک سے خوفزدہ ہو کر چیخنے لگتی ہیں کبھی ان کا نازک دل بجلی کی کڑک اور زور دار دھماکے کی آواز پر اتنی زور سے دھڑکتا ہے کہ وہ حواس باختہ ہوجاتی ہیں۔

مردانہ سماج میں ایک ڈر اپنے تحفظ کا بھی لگا رہتا ہے، شادی کی عمر نکل جانے کا ڈر کالے اور گورے رنگ کی وجہ سے رشتوں کے انکار سے مایوسی اور اس کی وجہ سے خود اعتمادی کا ختم ہونا، شادی کے زندگی کا ڈا اور پھر جہالیت کے شکار لوگوں میں بیٹے کی خواہش اور بیٹی کی پیدائش پر طلاق اور دوسری شادی کی دھمکیاں اور خدانخواستہ بے اولادی اور مار پیٹ کا سلسلہ اور ساتھ ہی مرد کی اپنی کمزوری پر عورت پر جبر، غصہ، برداشت کرتی ہے اور اس کے علاوہ تشدد کا عالم یہ ہے کہ سالن میں نمک کا کم یا زیادہ ہونا قتل کا باعث بن جاتا ہے ’’جب کہ والدین کی تلکین ہوتی ہے کہ بیٹی برداشت اور صبر سے کام لو ایک دن سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔

اس بات کا دوسرا پہلو سمجھیں تو وہ بھی عورت ہے جو کھیتوں میں کام کرتے ہوئے بلی، کتے سے ہی بے خوف نہیں ہوتی بلکہ سانپ اور بچھو جیسے موذی جانور بھی مار دیتی ہے۔ وہ خواتین اور لڑکیاں بھی تو ہیں جو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ڈاکٹر بنی بیٹھی ہیں جب کہ میڈیکل میں داخلے کا پہلا قدم ہی مینڈک اور لال بیگ وغیرہ پکڑ کر ان پر مختلف تجربات کرنا ہی ہے اور ڈاکٹر بن کر بھی وہ مریض کو مشکل اور پیچیدہ مراحل سے نبرد آزما ہونے میں مدد دیتی ہے اور صرف ڈاکٹر ہی کیوں آج کل کون سا ایسا شعبہ ہے جس میں عورت مرد کے شانہ بشانہ نہیں ہیں۔ فوج، ائیر فورس، نیوی پولیس، رینجرز میں لیڈی افیسرز ہیں، آئی ٹی کی دنیا میں سائنس، سیاست، کھیل کی دنیا اور ہر جگہ عورت نے اپنا لوہا منوایا ہے۔

باقی سب تو معاشرتی رویعہ ہیں جنہیں خود خواتین بھی غیر محسوس طریقے سے آگے بڑھارہی ہیں۔ جسے دور کرنا چاہیے اپنی حفاظت کے لئے کراٹوں کے علاوہ مختلف جسمانی مشقیں تو کرنی چاہیے لیکن ان سب سے پہلے عورت ذات کو خود پر بھر پور اعتماد کی ضرورت ہے ورنہ ان سیلف ڈیفنس ٹرینگینز کا بھی کوئی فائدہ نہیں لہٰذا اس طرح کے رویوں کے مقابل خود کو بھی پس پا نہیں کرنا چاہیے بلکہ مخاطب کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ اپنے گریبان میں جھانکے اور محاسبہ کرے۔

گویا اگر خاتون چاہے تو خود کو معاشی طور پر مستحکم کرنا کوئی مشکل نہیں مگر اس کے لئے سب سے پہے اپنے آپ کو ذہنی بیچارگی اور خود ترسی کے حصار سے نکلنا ہوگا۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے عورت میں برداشت اور صبر کی قوت پیدا کی ہے اور دوسری جانب اسے اتنی صلاحتیں بخشی ہیں کہ وہ جب چاہے خود کو مضبوط بناسکتی ہے۔

ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے اس کے لئے عمر کے بڑھنے اور خوبصورتی کے گھٹنے کے ڈر کو خود پر سوار کرنے سے بہتر ہے کہ ’’مثبت سوچ اور احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ پھر ہماری شخصیت میں ایک خوبصورتی ہمارے اعتماد کی بھی ہیں اگر ہم احساس کمتری کا شکار ہوجائیں تو پھر اس حسن کا ازالہ ممکن نہیں۔

عورت کو اس کے بنیادی حق اور تعلیم سے روکنا انتہائی غیر مناسب رویہ ہے۔ فطرت نے مرد کے ساتھ عورت کو بھی اشرف المخلوقات بنایا ہے تو پھر کیوں کہ مرد صرف خود کو ہی اس زمرے میں شامل سمجھتے ہیں پہلے عورت کو تعلیم سے محروم کرتے ہیں اور پھر اسے کم عقلی کا طعنہ دیتے ہیں اگر عورت تعلیم حاصل کرنے کا اظہار کر لے تو اسے یہ کہہ کر تذلیل کردیا جاتا ہے کہ اتنا پڑھ لکھ کر کیا کرو گی‘‘ پکانی تو تمہیں روٹیاں ہی ہیں‘‘۔ مرد شاید غیر محسوس طریقے سے عورت پر حاکمیت رکھنا چاہتے ہیں کہ اگر عورت تعلیم حاصل کرے گی تو ان سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرے گی۔ آج کی اس اکیسویں صدی میں بھی جسے ہم جدت کا دور کہتے ہیں، زمانے کے طرز عمل اور زندگی کے رنگ تو بدلے ہیں، پر اگر کچھ نہیں بدلا تو وہ ہے لوگوں کی سوچ۔ آج کے جدید دور کے انسان کی سوچ آج بھی ویسی ہی ہے جیسے زمانہ قدیم میں تھی۔ آج بھی لوگوں کی سوچ اس بات پر منجمد ہے کہ عورت کبھی بھی مرد کے ساتھ قدم ملا کر نہیں چل سکتی اور یہاں رکاوٹ کی سب سے بری وجہ مرد کی انا ہے، جس نے عورت کو ہر روپ میں ایک نصاب کے مطابق زندگی گزارنے پر آمادہ کیا ہے، جب کہ عورت نے ہر روپ میں خود کو منوایا ہے۔ پھر وہ بیٹی ہو یا بیوی اسے اپنہ نصاب کا حساب لینے کی اجازت نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ تو عورت ہے۔ تو اسے تو بس سفر کرتے رہنا ہے اور یہ ایک نہ رکنے والا سفر ہے۔ یہاں تک کہ اسے اپنے پہناوے کو بھی مرد کے مطابق ہی کرنا پڑتا ہے اور کیوں نہ کرے آخر وہ ایک جاہل سی عورت ہی تو ہے۔

سب نصاب کو مکمل آزمانے پر کس چیز کی کمی ہے، جو مرد کو حاصل نہیں، اسے ابھی بھی چین کیوں نہیں ملتا، کیوں کہ وہ آج بھی نہیں جانتا وہ آخر عورت سے چاہتا کیا ہے اب تو عورت کی گھٹن کو بھی گھٹن ہوتی ہوگی۔ وہ بھی اکیلے میں خود سے کہتی ہوگی کیا میں زندہ ہوں؟

اب اگر ہمیں خود کو بدلنا ہوگا تو پہلے اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ تب ہی ہم ایک اچھے اور پُر فضا ماحول میں سانس لے سکتے ہیں۔ عورت اور مرد میں جب اﷲ کی ذات نے فرق نہیں کیا، تو ہم کون ہوتے ہیں۔ مرد کو عورت کا سائناب مقرر کیا گیا ہے، خدا نہیں۔ ہمارے معاشرے میں بس ایک یہی چیز ہے اور یہی سوچ ہے جو لوگوں کو خاص طور پر ہمارے معاشرے کے مردوں کو بدلنا ہوگی۔ ان تمام باتوں سے یہ ثابت ہوا کہ عورت اگر خود کو بے چاری تصور کرنا چھوڑ کر اگر زندگی کو جینا چاہے تو اﷲ کی ذات پاک نے اسے اتنی صلاحیتوں سے نوازا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہر طرح کی کمزوری اور بیچارگی سے آزاد کرواسکتی ہے۔

بس اس کے لئے سب سے پہلا اور اہم قدم یہ ہے کہ عورت اپنی ذات پر رحم کھانا چھوڑے اور خود عورتوں پر مظالم کے نام پر اسے رحم کا حقدار قرار دینے کے عمل کا بھی حصہ نہ بنے۔ اسی طرح وہ ایک خوبصورت، بہتر اور پر اعتماد زندگی کی شروعات کرسکتی ہے۔

Qurratulain Nasir
About the Author: Qurratulain Nasir Read More Articles by Qurratulain Nasir: 37 Articles with 56985 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.