وقت بدل گیا ہے کچھ بدل رہا ہے اور کچھ ہی عرصہ بعد سب
کچھ بدل چکا ہو گا ۔ محکمۂ صحت کے آئے روز نئے نئے اشتہارات دیکھ دیکھ کر
اتنے نفسیاتی ہوتے جا رہے ہیں کہ اپنے سائے سے بھی ڈر آنے لگا ہے جراثیموں
سے اتنے خوف زدہ ہو گے ہیں کہ جراثیم کش ادوایات کے ڈھکنے بھی یہ سوچ کر
بند کر دیتے ہیں کہ کہیں جراثیم نہ گھس جائیں ۔ لائف بوائے اور ڈیٹول کے
علاوہ تو ان پڑھ اماں بھی اب بات نہیں کرتی جب دیکھو گھروں میں بھی صفائی
پر بھاشن دیے جا رہے ہوتے ہیں ۔ بہن بھائی ایک دوسرے کا جھوٹا گلاس استعمال
نہیں کرتے کبھی مائیں اپنے منہ میں کوئی چیز رکھ کر نرم کرتی اور پھر بچے
کہ منہ میں ڈال دیتی اب تو جراثیم کے ڈر سے ماں پیار بھی نہیں دیتی ۔ کہیں
بار ایسا بھی ہوا کہ بچے نے تیز مرچ کی شکایت اپنے منہ کے مختلف پوزوں سے
کی تو ماں یا بڑی بہن نے فوراً دوسرا گوشت کا ٹکڑا اپنے منہ میں ڈال کے چوس
چاس کر بچے کے منہ میں ڈال دیا ۔ اللہ جانے بیماریوں میں کہیں سے زور آ گیا
یا پیار محبت کی طاقت کم ہو گئی ہے کہ ایک دوسرے کے برتن سے کھانا پینا تو
کجا ہاتھ لگانے سے بھی ڈرتے ہیں ۔
کب فلٹریشن کا نظام تھا بلکہ لوگ پہاڑوں اور جنگلات سے نکلتے پانی کو۔ آبِ
حیات سمجھ کر پی لیا کرتے تھے۔ چوے اور باولیاں ہوا کرتی تھیں کہیں کہیں
کنویں ہوا کرتے تھے چوے اور باولیایوں میں لوگ اپنا اپنا گھڑا گڑوا یا
کلمنڈر ڈبوتے اور بھر کر لے جاتے۔ کبھی ہوا ڈنڈول چلتا تو درختوں کے پتے یا
گھاس وغیرہ اڑ کے پانیوں میں پڑ جاتے تو عورتیں گھڑے کے مونہہ پر اپنے سر
کے دوپٹے کا ایک کونا رکھتیں اور ڈبو کر بھر لیتیں ۔ یہ بھی ایک وشواس کی
بات تھی حالانکہ سر کا دوپٹہ جو بچوں کے رومال کے طورپر بھی استعمال ہوتا
تھا کیا فلٹر کرتا ہو گا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایسا ویسا پانی پینے اور
خوراک کھانے والے ہی رستم زماں ہوئے ہیں جو آجکل ناپید ہو گئے ہیں ۔
ہمارے اسکول کے( جس کے کمرے آج گنے نہیں جاتے) دو تین کمرے ہوتے تھے ایک
کمرا صدر معلم کا دفتر تھا دوسرا بھی مکتب کے طور پر استعمال ہوتا تھا جس
میں اسکول کا کوئی سرکاری ریکارڈ رکھا ہوتا تھا بارشوں میں ہمارا اورل
امتحان بھی اسی دفتر میں ہوا کرتا تھا۔ ہمارے اسکول میں واٹر ڈلیوری کا
نظام بابا حسن محمد کے پاس تھا ۔ جنھوں نے ایک گدھا رکھا ہوتا تھا وہ گدھے
پر لکڑی کی ایک کڑمنجھی رکھتے جس میں چار ٹین اس سلیقے سے رکھتے کہ گدھا
چاہئے جس رفتار سے بھی چلے وہ گرنے نہ پائیں ۔ ٹینوں کا مونہہ وہ کھوبڑ یا
ایک چھوٹی سی لکڑی کے ساتھ بوسیدہ سی ٹاکیاں لپیٹ کر بند کرتے لیکن لالاں
کی باں سے اسکول آنے تک وہ ٹین آدھے ہو چکے ہوتے ۔ ادھر ہمارا یہ حال ہوتا
کہ دھوپ میں پڑے خالی ڈرم کو تین چار بار سلام کر چکے ہوتے ۔ بابا جی کے دو
بیٹے اکرم اور اقبال بھی اسی اسکول میں پڑھتے تھے اکرم ہمارے ساتھ اور
اقبال ہم سے ایک دو کلاس آگے ہوتا تھا ہم ان کو تنگ کرنے کے لیے کہتے یرا
پہاپے کی آلا مارو کے تاولیں ہشن۔
بابا آتے ہم دس پندرہ لڑکے پہلے سے ایک قطار بنائے کھڑے ہوتے ڈرم کے ساتھ
ایک ہی سلور کا مگا(مگ) ہوتا تھا جس کو ہم غصے سے کتنی بار دائیں بائیں
پھینک چکے ہوتے تھے جب بابا پانی ڈالتے تو جس لڑکے کے ہاتھ میں مگا ہوتا
اسے ہم کہتے اوے پہلے مگا صاف کری کنیاں تو وہ صاف کرنے کے لیے پہلے اندر
باہر ہاتھ مارتا پھر بھی مٹی نہ اترتی تو قمیض کے ساتھ رگڑتا یوں تسلی ہو
جاتی کہ مگا صاف ہو گیا ہے ۔ پھر وہی ڈبوتے اور اسی سے پانی پیتے بلکہ پینے
والے کو بھی اتنی آسانی سے کہاں پینے دیتے مگا کھینچ کھینچ کر اس کے کپڑے
بگھو دیتے اور وہ غصے میں یوں مگا اچھالتا کے آدھا پانی ڈرم میں اور آدھا
باقی لڑکوں پر گرتا ۔ اکرم اور راجہ اخلاق کو اکثر زکام کی شکایت رہتی تھی
اس لیے ہماری کوشش ہوتی کہ ان دونوں کو مگا آخر پر دیا جائے لیکن یہ بھی کب
کسی سے کم تھے چھین کر پہل کر ہی جاتے ۔ کہیں بار ایک ہی بار کا بھرا ہوا
مگا چار چار لڑکے پی جاتے کیا مجال تھی جو ایک کی بیماری دوسرے کو لگ جاتی۔
چار آدھے آدھے ٹین پندرہ بیس لڑکوں کے پینے سے ہی ختم ہو جاتے آخر پر میں
اور ملک نعیم(آجکل آرمی میں کرنل کے عہدے پر فائز ہیں )رہ ہی جاتے میں قد
اور عمر کے حساب سے رہ جاتا اور نعیم شرافت اور ماٹھا ہونے کی وجہ سے رہ
جاتا۔ کہیں بار ہم سب لڑکوں کے جانے کے بعد ڈرم کو لٹا کر تھوڑے سے پانی کو
ایک طرف لے آتے اور پھر مگا بھرنے کی کوشش کرتے اگر کچھ مگے میں آ جاتا تو
پھر جذبہ ایثار ہمارے اندر بیدار ہو جاتا اور آخر ایک ایک گھونٹ دونوں بھر
لیتے ۔
اکرم بڑا لمبا تڑنگا اور مضبوط اعصاب والا گجر تھا ہنسی مذاق بھی دل کھول
کر کرتا لیکن اقبال اتنا ہی منکسر المزاج اور کم گو تھا جتنا اپنی کلاس میں
میں اور نعیم تھے۔ کبھی کِھل کِھلا کر اقبال کو ہنستے نہیں دیکھا کبھی گپیں
مارتے نہیں دیکھا لیکن سامع کی خوبی اور تحمل مزاجی اس میں کوٹ کوٹ کر بھری
ہوئی تھی ۔ کبھی بھی باتیں سننے سے وہ اکتاتا نہیں تھا چاہیے وہ باتیں کسی
بھی موضوع کی ہوں بس اس کا کام گردن ہلا کر تائید کرنا یا پھر ہونٹوں کو
ایک کونے سے ہلا کر چی کی آواز نکال دینا ۔ اسمبلی میں تلاوت کرنا اس کے یا
میاں اظہر کے ذمے تھی دونوں کی اچھی آواز اور ادائیگی تلفظ بہت زبردست تھی
تاہم نعت ابرار عالم بٹ اور دعا(لب پہ آتی ہے ) راجہ محضود پڑھا کرتے تھے ۔
اقبال بس جس ڈھیلے سے انداز کے ساتھ تلاوت کے لیے قطار سے نکلتا اسی انداز
سے واپس آ کر مل جاتا ۔ اپنی قرآت پر اسے مکمل بھروسا تھا اس لیے وہ سکون
سے رہتا۔ کہیں بار کسی دوسرے کو تلاوت کے لیے جانا پڑھا تو ٹانگوں کی
کپکپاہٹ گلے کی تھرتھراہٹ سے بھی زیادہ ہوتی ۔ اوپر سے مولوی محمد حسین
آزاد صاحب کے مکے کا بھی ڈر ہوتا جو مکا مارتے ہوئے کہتے تھے اوں چوٹہیا۔
ہمیں نویں کلاس سے ہی اسکول کو خیر آباد کہنا پڑا ۔ ایک بار گھر سے کیا
نکلے کہ پھر ہوا کے دوش پر ہی رہے ۔بہت سارے ہم جماعت اور ہم مکتب یوں
بچھڑے کہ زندہ ہونے کے باوجود بھی نہ مل سکے۔ اقبال مدارس کے فرائض انجام
دے رہے تھے ان دنوں میں شاید جگالپال سکول میں تھے کسی رجسٹری کے چکر میں
سیری ڈاکخانے میں آئے تو ملاقات ہو گئی ان دنوں میں چٹھی رسانی کا کام راجہ
محضود کرتے تھے ۔ خیر عافیت پوچھی لیکن وہاں بھی ان کی کم گوئی آڑے رہی کچھ
زیادہ بات چیت نہ ہو سکی بس ہم ان کی سفید ریش کو دیکھتے رہے اور وہ بھی
کبھی کبھار آنکھوں کی بھنوویں اٹھا کر ہمیں دیکھ لیتے اور عادتاً ساتھ
ہونٹوں کو ہلا کر ایک بار چی کی آواز نکال دیتے ۔ رجسٹری کی کنفرمیشن کے
بعد وہ اٹھ کھڑے ہوئے تو احتراماً ہم بھی اٹھ گے ہلکے سے تبسم کے ساتھ
انہوں نے دیکھا پھر ٹھیک ہے جی کہا اور چلے گے۔ بس یہی ہماری آخری ملاقات
تھی جو لگ بھگ دو ہزار پانچ میں ہوئی ۔ پھر ہم گردشوں کے بھنور میں آ گئے
اور ان سمیت بہت سارے دوستوں سے جدا ہو گئے۔ ان جدا ہونے والوں میں راجہ
محضود بھی تھا۔ 24 جولائی 2017 کی شام کو فیس بک کی وساطت سے پتہ چلا کہ کم
گوئی کو پسند کرنے والا ماسٹر اقبال ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا ہے۔ اس
سندیس پر کوئی تعجب نہیں ہوا بس جدائی کا صدمہ ہوا اور یادوں کا تانتا 2005
سے جا ملا ۔
اقبال کے متعلق جس سے بھی بات ہوئی اسی نے بہت اچھا بہت نفیس بہت پرہیزگار
کہا اللہ سب کی گواہیاں قبول فرمائے اور اقبال جو پیشہ پیغمبری کو انجام
دیتے ہوئے جدا ہو گئے ان کو کروٹ کروٹ راحت عطا فرمائے ۔ بے شک ایسی
گواہیاں نیک لوگوں کا مقدر ہی بنتیں ہیں ۔ سب بھائی نہایت اچھے اور بھلے
مانس ہیں ۔ یہ بابا حسن محمد کی محنت اور تربیت کے علاوہ حلال کمائی کا اثر
بھی ہو سکتا ہے ۔ بے شک لقمہ حلال ہی نیک اور صالح اولاد کا موجب بنتا ہے۔
آج اسکول کے سینکڑوں کمرے ہیں بہت وسیع پلے گرونڈ ہے پانی کے لیے کولرز نصب
ہیں یہ کولرز حکومتی طور پر نہیں بلکہ سبیل فی سبیل اللہ کے طور پر سیری کے
ایک نیک دل انسان شیخ حاجی صدیق نے لگوائے ہیں لیکن اتفاق کی بات کہ جگہ
وہی ہے جہاں بابا حسن محمد ڈرم رکھا کرتے تھے شاید شیخ جی نے بھی سن رکھا
ہو کہ یہی پہ وہ ڈرم ہوتا تھا جس کے داورے بچے مائی حاجرہ کی طرح سعی کیا
کرتے تھے۔ |