میرے شہر جل رہے ہیں،میرے لوگ مر رہے ہیں

میرا شہر لاہور لہو لہو ہے ۔ کس قدر جانکاہ حادثہ ہے ۔ ایک بم پھٹا اور تیس سے زیادہ جانیں لے گیا۔ پچاس سے زیادہ لوگ معزور ہو گئے ۔ ان بچ جانے والوں میں سے زیادہ ترلوگ مردوں سے بد تر زندگی گزا ریں گے۔بہت سے مذمتی بیانات آئے۔ بیان دینے والوں نے فرض پورا کر دیا۔روز حادثے ہوتے ہیں ، روز یہ لوگ بیان دیتے ہیں ان کے نزدیک یہ ایک عام سی بات ہے مگر ان ماؤں کو کون حوصلہ دے گا کہ جن کے بیٹے اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ان بیویوں کی کون سنے گا کہ لمحوں میں جن کے سہاگ اجڑ گئے۔ ان بچوں کی کون دیکھے گا جنہیں ہمیشہ اپنے باپ کا انتظار رہیگا-

مجھے حالات سے بد دل عبید اﷲ علیم یاد آ رہا ہے کہ جس کا تعلق ایک اقلیتی فرقے سے تھا ۔وہ ایک خوبصورت شاعر تھا۔اردو غزل کا جدید شاعر۔ نوجوانوں کا شاعر، نوجوانی کا شاعر۔ شاعری میں اس کی دو کتابیں ـ ، چاند چہرہ ستارہ آنکھیں اور ویران سرائے کا دیا،شائع ہوئیں۔شاعری میں اسے اردو کا سب سے بڑا ایوارڈ، آدم جی ایوارڈ ملا۔وہ پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کا چیرمین تھا مگر 1978 میں اسے مجبوراًیہ عہدہ چھوڑنا پڑا۔ شدت پسندی کی لہریں جب چلتی ہیں تو اسلام کی سچی تعلیمات کو بھی نظر انداز کر جاتی ہیں۔ اسلام میں اقلیتوں کے بھی حقوق ہیں۔ انہیں بھی زندہ رہنے کا حق ہے۔مگر جب بادسموم چلتی ہے ، لوگ جذباتی ہو جاتے ہیں تو سب بھول جاتے ہیں ۔ایسے وقت میں کون شاعر اور کیسی شاعری ۔ لوگ سب بھول کر اس کی جان کے درپے تھے۔اس کی زندگی لینا چاہتے تھے۔اسے جان بچانے کے لئے بہت کچھ کرنا پڑا۔ان حالات سے بد دل عبید اﷲ علیم نے بقیہ زندگی کراچی میں گزاری اور گمنامی کی حالت میں چپ چاپ 1998 میں دل کے دورے کے باعث کراچی میں انتقال کر گیا۔

مگر شاعری تو شاعری ہے ۔ یہ ایک فن ہے اور فن کبھی نہیں مرتا۔اس کا تعلق کسی فرقے یاکسی گروپ سے نہیں ہوتا۔اچھا شعر ہر دل میں اپنی جگہ بناتا ہے۔شاعری توجذبات کا اظہار ہے۔روح کی غذ ا ہے ۔ محسوسات کا عکس ہے ۔اچھی ، خوبصورت اور سچی شاعری دل کو چھوتی ہے ، روح میں اتر جاتی ہے۔ انسان کا احساس جگا تی ہے۔ عبید اﷲ علیم نے بہت سی ایسی غزلیں لکھیں جو انسانی جذبوں کی صحیح عکاسی کرتی ہیں۔انسانی دکھ جن میں سمایا ہوا ہے ۔یوں لگتا ہے اس کے ان شعروں نے دکھ کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔چند دن پہلے بھی دہشت گردی کی لہر میں ایک ہی دن میں پارہ چنار، کوئٹہ اور کراچی میں بے پناہ ہلاکتیں ہو ئیں ۔ یہ ہلاکتیں پوری قوم کے دکھ کو اور بھی سوا کر جاتی ہیں۔ دہشت گردی کا یہ تسلسل کچھ کم تو ہوا ہے مگر ختم نہیں ہو رہا۔اب بھی ہر روز ہلاکتیں ہورہی ہیں۔ان ہلاکتوں کو روکنے کی کوشش میں ہمارے ہزاروں فوجی اپنی جانوں کا نذرانہ دے چکے اور دے رہے ہیں۔پچھلے چند سالوں میں قوم لاشے اٹھاتے اٹھاتے تھک چکی۔ آنسوں بہا بہا کر اس قوم کی آنکھیں خشک ہو چکیں۔اب تو آنکھوں سے آنسو نہیں بہتے ۔ اگر کچھ بہتا ہے تو خون۔ جانے دہشت گردوں کو کس نے یہ تعلیم دی ہے کہ اپنوں کو مارنا کار ثواب ہے ۔ لاشیں گراتے انہیں رحم بھی نہیں آتا۔شرم بھی محسوس نہیں ہوتی۔وہ اپنے لوگوں کو مار کر جنت کے متلاشی ہیں۔ان کے سہولت کار بھی گھر ہی کے لوگ ہیں۔پتہ نہیں الم کی یہ داستان کب تک چلے گی۔ مجھے ایسے حالات کے بارے عبید ا ﷲ علیم کی لکھی ایک مشہور غزل یاد آئی۔ اس غزل کے چند شعر آج کل کے حالات کے صحیح عکاس ہیں۔
میں کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں۔
میرے شہر جل رہے ہیں،میرے لوگ مر رہے ہیں۔
کوئی غنچہ ہو کہ گل ہوکوئی شاخ ہو شجر ہو
وہ ہوائے گلستان ہے کہ سب بکھر رہے ہیں
وہی طائروں کے جھرمٹ جو ہوا میں جھولتے تھے
وہ فضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں
بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں
کبھی رحمتیں تھی نازل اس خطہ زمیں پر
وہی خطہ زمیں ہے کہ عذاب اتر رہے ہیں۔
کوئی او ر تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہو رہے ہیں،ہمیں قتل کر رہے ہیں

افسوس صد افسوس! کہ میرے شہر جل رہے ہیں،میرے لوگ مر رہے ہیں اور یہ کس قدر سچی اور ہمارے ہی سوچنے کی بات ہے کہ کیوں ہم ہی قتل ہو رہے ہیں،ہم ہی قتل کر رہے ہیں۔جانے یہ سلسلہ کب رکے گا۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 443065 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More