مساوات

لینڈکروزر سے ایک سیٹھ صاحب اُترے۔ گیٹ پر موجود پولیس والے کو 'اوئے' کہہ کر بلایا،،،
ابھی کل ہی اُس پولیس والے کے پاس سے ایک غریب ریڑھی والا اپنی ریڑھی ہانکتا ہوا گزرا۔ پولیس والے نے اُسے 'اوئے' کہہ کر بلایا۔

یہ جو 'اوئے' ہوتا ہے، یہ ہمیشہ اپنے سے غریب اور بے بس کے لئے ہوتا ہے،،،،،

ہر تگڑا انسان اپنے سے تگڑے کو 'جی سرکار' 'جی جناب' کہتا ہے۔

غریبی اور بے بسی بذات خود 'اوئے' ہے،،،،،؟

بعض اوقات رشتے داروں کا خون بھی سفید ہو جاتا ہے،،،،

پولیس والوں کے جو ہاتھ تگڑے بندوں کو سیلیوٹ کے لئے اُٹھتے ہیں
انہی ہاتھوں سے وہ اپنے سے ماڑے بندے کو تھپڑ مارنے میں دیر نہیں لگاتے،،،،

سر قلم ہوتے ہیں تو غریبوں کے،،،،،،
ہر جگہ۔ ہر قدم پر!!!!!
غریب ' اوئے' ہے،،،

اور غریب جھونپڑیوں میں بھی اپنے سے ماڑے بندے کے لئے 'اوئے' ہی چلتا ہے،،،،

ہر جگہ ہر قدم پر جی جناب اور 'اوئے' کی تقسیم ہے!!!!

شادی بیاہ میں زیادہ پروٹوکول ان کو نہیں ملتا جنہیں شادی کی زیادہ خوشی ہوتی ہے،،،،،،

جہاں مرگ ہو، جہاں جنازہ اُٹھے وہاں بھی زیادہ پروٹوکول انہیں ہی ملتا ہے جنہیں مرنے والے کی موت کا غم ہی نہیں ہوتا،،،،،

یہ دنیاوی پروٹوکول خانقاہوں میں بھی چلتا ہے دبئی میں بھی عشاق کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا جاتا ہے جبکہ دنیاوی طور پر تگڑے انسانوں کے لئے خانقاہوں کے احاطے میں بھی پروٹوکول ہے
اور ،،،،

پیر صاحب کو جہاں سے نذرانہ زیادہ ملتا ہو ظاہر ہے وہی خاص الخاص ہو گا،،،،،،؟

ہر جگہ 'اوئے' اور 'جی جناب' کا نظام ہے!!!!!!

غریب آبادیوں کا مولوی، مولوی ہوتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات ملا بھی ہوتا ہے، شاہی محل کا مولوی مولانا صاحب ہوتے ہیں، علم نہ بھی ہو تو بھی بعض اوقات "عالم صاحب' کہلاتے ہیں،،،
بعض اوقات ترتیب ایسی ہوتی ہے کہ عقل دھوکہ کھا جائے، پرانے وقتوں میں پیر کی وجہ سے مرید پہچانے جاتے تھے، اب سیاسی مریدین کی وجہ سے اکثر پیر پہچانے جاتے ہیں، مثال کے طور پر فلاں سیاسی حکمران کے پیر صاحب،،،،،

خون کا عطیہ مانگنا ہو تو ریڑھی والے کا خون بھی قیمتی ہے، لیکن وہی ریڑھی والا اُس شاہی محل میں شاہی واش روم استعمال نہیں کر سکتا، ظاہر ہے شاہی محل کے واش روم کے بھی ادب آداب ہوتے ہیں،،،،،،

'اوئے' اور 'جی جناب' کا فلسفہ دردناک بھی ہے اور خوفناک بھی بس اتنا خیال رکھا کریں
وہ بلندی کس کام کی جس پر انسان چڑھے اور انسانیت سے گرے.
 

Samreen Nasarullah
About the Author: Samreen Nasarullah Read More Articles by Samreen Nasarullah: 18 Articles with 33570 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.