ہم کس ڈگر جارہے ہیں

ڈیڈ ممی ہیں نہیں گھر پے۔۔پپچھلے کمریں میں چھپ کے۔۔۔۔تحریر کی پہلی سطر پڑھ کر یقینی طور پر کچھ لوگوں نے میں سوچا ہوگا کے شاید قلم کار آج ہوش میں نہیں ہے۔۔کچھ نے اسے منٹو کا افسانہ سمجھ کر بند کرنے کا سوچہ ہوگا۔تمام پڑھنے والے احباب کے لئے عرض ہے کہ میں مکمل ہوش میں ہوں اور یہ تحریر منٹو کے افسانے الٹی شلوار سے ماخوذ بھی نہیں ہے ۔یہ میری تحریر کوہ گراں ہے ۔اور ابتدا میں درج احکامات ایک ہندوستانی گانے کی شاعری ہے جو میں نے گذشتہ جمعہ کو کراچی کی ایک منی بس میں اس وقت سنا جب بس میں قوم کی بیٹیاں بھی سوار تھیں اور محمد بن قاسم کی ملت کے فرزند بھی ۔اس گانے کو بند کرانے کے لئے میں شہر خاموشاں کی بس میں جتنی مضاہمت کر سکتا تھا اتنی کی اس کہ بعد منزل آجانے پر میں بس سے اتر گیا ۔

اگلے روز جب فارغ وقت میں تحقیق کرنے کو کچھ نہ ملا تو میں نے ہندستان کے ان گانوں پر تحقیق کرنا شروع کردی۔معلوم یہ ہوا کہ مودی کے ملک میں ہر تیسرے گانے میں سے ایک گانے کی شاعری اسی نوعیت کی ہوتی ہے ۔خیر مجھے اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔میں نے بلکل نہیں سوچا کہ اس ملک میں اس قسم کے گانے کیوں بنتے ہیں؟ان کا سنسر بورڈ کیا کرتا ہے؟ان کے ہاں لوگ اس پر رد عمل کا اظہار کیوں نہیں کرتے ؟کیوں کہ اس سب سولوں کہ جواب میں میرے پاس تحریک آزادی کی پوری داستان موجود تھی ۔ہمارے اور ان کہ کلچر میں بےحد فرق تھا جسکی بنا پر محمد علی جناح نے دیگر رہنماوں کے ساتھ مل کر پاکستان کی جدوجہد کی اور ایک ایسا زمین کا ٹکڑا حاصل کیا جہاں اسلام کے عین مطابق زندگی گزاری جائے۔

مجھے حیرت تو تب ہوئی جب میں نے وطن عزیز میں ان گانوں کی شہرت پر جانی ۔میں نے اپنے آپ میں ابن بطوطہ کی روجنیریٹ کی اور کراچی کی گلی گلی میں چلنے والی بسوں میں بیٹھ کر مختلف علاقوں کا سفر کیا ۔

مجھ پر حیرت کے آسمان ٹوٹ پڑے جب میں نے شہر میں چلنے والی 70فیصد گاڑیوں میں اس قسم کے گانے سنے۔میں محو حیرت تھا کہ جہاں کیا سے کیا ہوگیا ہے ۔شہر کی گلیوں میں گھومنے والے بچوں کی زبانوں پر بھی ملت کا پاسبان اور دل دل پاکستان کے بجائے اسی قسم کے گانے تھے گانے تھے۔شرم ناک بات یہ تھی کہ اس صورت حال پر ان بچوں کے والدین کو کسی قسم کی کوئی ندامت نہیں تھی ۔ میں نے سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز بھی دیکھیں جس میں ان گانوں پر کم عمر بچے ڈانس کر رہے تھے۔یہ ویڈیوز بھی ان کے کسی بڑے نے ہی بنا کر قابل فخر انداز میں اپلوڈ کی ہونگی۔اور ان ویڈیوز پر بے تہاشہ کمنٹس اور لائق آرہے تھے جن کے ذریعہ محمود غزنوی کی قوم سے تعلق رکھنے والے بچوں کی ناچنے اور انتہائی فحش گانوں پر ناچنے کی وجہ سے حوصلہ افزائی کی جارہی تھی۔

اکثر و بیشتر اسکولوں اور کالجوں کی تقسیم انعامات کی تقریب کی ویڈیوز بھی منظر عام پر آجاتی ہیں ۔ان میں طالب علم جن گانوں پر جس انداز میں رقص کر رہے ہوتے ہیں اس دیکھ کر یقینا جناح صاحب اور آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والے اور قربانیاں دینے والوں کے سر شرم سے جھک جاتے ہونگے۔۔اگر ایک لمحے تنہائی میں بیٹھ کر غور کیا جائے تو کیا یہی ہمارہ تہذیب ہے؟کیا یہی ہمارے دین کا حکم ہے؟کیا یہی ہمارے معاشرے اصل رہن سہن کا طریقہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا ہم نے پاکستان اسی لئے حاصل کیا تھا ؟
ہر گز نہیں ۔۔۔پاکستان کے حصول کا مقصد تھا ایسی درس گاہ کا قیام جہاں اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہو۔ جہاں دل میں ملک کے لئے مر مٹنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔جہاں مسلمان بچوں کے دلوں میں شوق شہادت کو پروان چڑھایا جائے۔جہاں شحاشی اور بدکاری کو حرام سمجھا جائے۔لیکن اگر آج ملک کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے تمام اقدام نظریہ پاکستان کی نفی کر رہے ہیں۔ہم اپنی تہذیب کو بھول کر اغیار کے طریقو ں پر چل رہے ہیں۔اگر یہی صورت حال رہی تو وہ دن دور نہیں جب ہم اپنی پہچان کھو دیں گے ۔اور اپنی پہچان ،نظریات اور تہذیب کو بھلا دینے والی اقوام کبھی بھی تاریخ میں زندہ نہیں رہتیں ۔ان کا وجود جلد یا بدیر ختم ہو ہی جاتا ہے۔
دو رنگی خوب نہیں یک رنگ ہوجا
سراپا موم یا سنگ ہوجا

ہمیں اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ کیا پاکستان کا مقصد کیا ہے اور ہمیں اب اپنی تہذیب کے مطابق ہی جینا ہوگا ورنہ ہمارا وجود بھی ختم ہوتے دیر نہیں لگے گی ۔اس ضمن میں سب سے اہم کردار تعلیمی اداروں کو ادا کرنا ہوگا ۔اسکول کالجوں میں ہونے والی تقریبات کو ایک بار پھر اسی انداز میں ترتیب دینا ہوگا جیسا کہ ماضی میں ہوا کرتا تھا ۔اساتذہ کا اپنا فرض سمجھ کر طالب علموں میں وطن اور اپنی تہذیب کی محبت اجاگر کرنا ہوگی۔

پیمرا کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ملک کے نشریاتی اداروں سے نشر ہونے والے ایسے تمام مواد پر پابندی عائد کرنا ہوگی جو ہماری تہذیب اور نظریات کے منافی ہیں۔اور یہ پابندی صرف کاغذی کاروائی کی حد تک نہ ہو بلکہ عملی طور پر ایسے اقدامات کرنا ہونگے جن سے ہماری نئی نسل تباہی سے بچ جائے۔اسکولوں میں دینی تعلیم تو لازم قرار دی ہی جاچکی ہے مگر اس پر اسکول انتظامیہ کوئی خاص توجہ نہیں دیتی ۔بلکہ افسوس کی بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں کچھ اسکول ایسے بھی موجود ہیں جن کے نصاب میں اسلامیات کا مضمون شامل ہی نہیں۔بورڈز آف ایجوکیشن کو بھی اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اسکولوں میں دینی تعلیم کو عام کرایا جائے اور طالب علموں کو بتایا جائے کہ پاکستان کے حصول کا مقصد کیا تھا ۔ہمیں ان ساری باتوں پر عمل کرتے ہوئے تاریخ میں زندہ رہنا ہوگا ۔اور دنیا کو باور کرانا ہوگا کہ پاکستان میں بسنے والے نہ اپنی تہذیب بھولیں ہیں نہ ہی اپنے بڑوں کی تعلیمات۔اسی میں ہماری کامیابی ہے ،۔

Sheheryar Shaukat
About the Author: Sheheryar Shaukat Read More Articles by Sheheryar Shaukat: 19 Articles with 18815 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.