جنگل کی عدالت

ملکی سیاسی حالا ت کے تناظر میں ایک تمثیل ہے جس میں ایک قریب المرگ شیرنی اپنے بیٹے کو گائے کے سپرد کر کے د نیا سے چلی جاتی ہے گا ئے پا ل پوس کر جوان کر د یتی ہے اور جوان ہونے پر شیر اپنی جبلت کے زیر اثر اپنے دودھ شریک بھی یعنی بیل کو کھا نے کی کوشش کرتا ہے. اسکی تاویل د لچسپ ہے اور قریب تھا کہ وہ بیل کو کھانے کے حقوق حاصل کر لیتا کہ بادشاہ کی عدالت میں ایک ایسی دلیل پیش ہوتی ہے کہ شیر کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو پاتا

تحریر: ابو سلمان
ملکی سیاسی حالا ت کے تناظر میں ایک تمثیل ہے جس میں ایک قریب المرگ شیرنی اپنے بیٹے کو گائے کے سپرد کر کے د نیا سے چلی جاتی ہے گا ئے پا ل پوس کر جوان کر د یتی ہے اور جوان ہونے پر شیر اپنی جبلت کے زیر اثر اپنے دودھ شریک بھی یعنی بیل کو کھا نے کی کوشش کرتا ہے. اسکی تاویل د لچسپ ہے اور قریب تھا کہ وہ بیل کو کھانے کے حقوق حاصل کر لیتا کہ بادشاہ کی عدالت میں ایک ایسی دلیل پیش ہوتی ہے کہ شیر کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو پاتا -

ایک روز کیا ہوا کہ گا ئے بیل کی جوڑی اپنے د و بچوں کو پانی پلانے کے لئے پا نی کے تالا ب کی طرف گئے . سوچا کہ ذرا واک بھی ہو جائے گی اور پانی وانی پی کرگھر لوٹ آئیں گے . جب تا لا ب پر پہنچے تو کیا د یکھتے ہیں کہ جنگل کی ملکہ، رانی شیرنی صا حبہ شد ید زخمی حا لت میں ایک طرف سسک رہی ہیں اور انکا بیٹا یعنی ننھا شیر ڈرا سہما سا انکے قریب کھڑا ہے . آپ کو تو معلوم ہی ہے گا ئے بیل د نیا کی سب سے پیا ری اور پیا ر کرنے وا لی مخلوق ہے . گا ئے بی بی تو یہ د یکھ کر تڑپ ہی آٹھیں بھاگی بھاگی ملکہ عا لیہ کے قریب گئیں بھائی بیل نے پا نی پلا یا لیکن شیرنی بہت زخمی تھی خون بہے جا رہا تھا آخری سا نسوں کے د رمیا ن ا نہوں نے نیک د ل بیل اور ہمد رد گا ئے سے کہا کہ د یکھو میں بچنے والی نہیں. وہی ہما را ازلی د شمن بندوق والا برسوں سے گھا ت میں تھا آج وار کاری کر گیا میں بچوں گی نہیں بس تم سے د رخوا ست ہے کہ میرے بعد میرے شیرو کو اپنی ہی اولاد سمجھ کر پا لنا . د یکھو بہن ا نکار نہ کرنا وعدہ کرو تو میں سکون سے مر سکوں گی. اب آپ تو جانتے ہی ہیں کہ گا ئے بیل کتنے معصوم اور رحم دل لوگ ہوتے ہیں اور سا د ہ تو اتنے کہ ہما رے ہا ں تو انھیں کہتے ہی "ڈھگے" ہیں یعنی معصوم بھولے بھا لے اور د ینا بھر کی چا لا کیوں سے با لکل بے خبر . ا نہو ں نے پل بھر کو بھی نہ سوچا کہ بھئی شیر کا اور ہمارا کیا جوڑ یہ شیر کا بچہ ہمارے بچوں میں کیسے پلے بڑھے گا. اور جھٹ وعدہ کر لیا اور بی شیرنی نے سکون کی سا نس اور آخری ہچکی تقریبا ایک ساتھ ہی لی اور رخصت ہوئیں . لیکن حق با ت تو یہ ہے کہ ا ن بھلے ما نسوں نے ا پنا وعدہ جی جا ن سے نبھا یا ا پنے بچووں کے حصے کا د ود ھ اس شیرنی کے بیٹے کو پلا کر جوان کیا اور پھر قضا ئے الہی اپنی اپنی موت مر گئے . د وسری طرف شیرنی کا وہ بچہ اب بچہ نہیں رہا وہ ایک خوب صورت طا قتور شیر بن چکا تھا. اب ا سکا د ل ان قد رتی خورا کوں کی طرف ما ئل ہو چکا تھا جو شیروں کی قد رتی غذا ہے یعنی تازہ تازہ گوشت. لیکن تھا شرم والا اپنے د ود ھ شریک بہن بھا ئیوں سے کبھی کوئی تقا ضہ نہیں کیا بس خود ہی ا د ھر ا د ھر گھوم پھر کر کبھی لومڑ کبھی ہرن اور کبھی کوئی اور جانور شکا ر کر کے اپنا کا م چلا لیتا. لیکن تا بکہ. بہت جلد جنگل میں سب جا نوروں کہ پتا چل گیا اس طرف خطرہ ہے چنا نچہ ا نہوں نے احتیاط شروع کر دی اور رفتہ رفتہ بھائی صاحب کو شکا ر کی صورت کئی کئی د ن نظر نہ آ تی . ایسا ہی ایک بے شکا ر موسم پچھلے کئی د نوں سے چل رہا تھا . حب بھوک سے پیٹ میں اینٹھن ہو نے لگی تب اس کی نظر ا پنے د ودھ شریک بھا ئی پر پڑی جو اب ایک گبھرو جوان بن چکا تھا آورسکے بد ن کا ایک ایک عضونوجوان شیر کی ا شتہا کو بھڑکا رہا تھا . جب بھوک با لکل ہی قا بو سے با ہر ہو گئی تو شیر سے رہا نہ گیا اور با لا خر اس نے اپنی بھو ک مٹانے کی ایک ترکیب سوچ لی. ویسے بھی آپ نے وہ انگریزی کا محاورہ تو سنا ہی ہو گا کہ بھوکے شیر کا پیٹ شیطان کا کا رخا نہ. مجھے معلوم ہے کہ آپ یہ ا عترا ض ضرور کریں گے کہ جی محا ورہ تو خا لی د ماغ کے با رے میں ہے لیکن آپ نہیں جانتے ہمارے شیر جب بھوکے پیٹ ہوتے ہیں انکی سوچنے سمجھنے صلاحیت میں اضافہ ہی ہوتا ہی کے عا د ی ہیں . چلیں چھو ڑیں. کیا کہ رہا تھا میں . ہاں بھوک مٹانے کی ترکیب سوجھ ہی لی ہمارے شیر نے . بڑا غمزدہ چہرہ بنا کر اپنے بیل بھائی کے پا س گیا اور بولا . بھائی آج رات میں نے خواب د یکھا ہے کہ میں تمہیں کھا رہا ہوں. اب کیا کروں خواب تو پورا کرنا ہی پڑ ے گا . بھا ئی تم تیا ر ہو جا ؤ میں تمہیں کھا نے والا ہوں. بیل بے چارے کی تو سٹی ہی گم ہو گئی برا سٹ پٹا یا اور بولا کہ بھائی یہ بھلا کیا با ت ہوئی کہ جو خواب د یکھو ویسا ہی کرو بھی. ضرور آپ سے کوئی غلطی ہو رہی ہے چلو کسی سیا نے سے پوچھ لیتا ے ہیں. جنگل بھر میں دو ہی سیا نے مشہور تھے ایک میا ں ال. ودوسری بی لومڑی . میا ں الو نے بیل کی طرف دیکھا پھر شیر کی طرف دیکھا اور غضب یہ ہوا کہ شیر نے بھی میا ں الو کی طرف د یکھاا اور خوب غور سے دیکھا اور دیکھتے ہی حضرت میا ں الو مقدمے کی سنگینی کو خوب اچھی طرح سمجھ گئے انہوں نے کہا د یکھوبھائی بیل میں نے آج تک جتنی بھی کتا بیں پڑھی ہیں چاہے زمین کی کتابیں تھیں یا آسمانی. بلا خوف ترد ید کہہ سکتا ہوں کہ جناب شیر صاحب کا کہنا با لکل درست ہے تمام زمینی اور آسمانی کتا بو ں کا نچوڑ یہی ہے کہ خواب د یکھا ہے تو جناب عمل بھی ویسا ہی کرنا ہوگا انہوں نے چند مفکروں اور شاعروں کے حوالے بھی د ئے کہ کیسے ان عظیم لوگوں نے خوابوں کو پو را کرنے پر زور د یا ہے اسی طرح بہت سی مثالیں انہوں نے آ سما نی کتا بوں میں بھی د کھا د یں جہا ں خوابوں کو حرف بہ حرف پورا کرنے کا سبق یا د د لا یا گیا ہے . پھر وہ دوسری را ئےکے لئے بی لومڑی کے پاس پہونچے انہھوں نے بھی یہی کہا کہ ہا ں یہ تو شیروں کا ا ستحقا ق ہے کہ جنگل کے جس جا نور پر ا ن کا د ل آ جا ئے ا سے وہ کھا سکتے ہیں ابھی د و ہفتے قبل ہی جہا ں پناہ نے میرے بڑے بھائی کو تنا ول فرما یا ہے . ا ب بیل کی ما یوسی بڑھتی چلی جا رہی تھ کہ اچا نک انکی نظر ہرن پرپڑی بیل نے امید بھری نظروں سے اسے د یکھتے ہوئے کھا کہ بھا ئی ہرن سے بھی پوچھ لیں . شیر بولا تم جس عدالت میں کہو گے میں بھا گوں گا نہیں انصاف کے لئے دنیا کی ہر عدالت تک جاؤں گا . بے فکر رہو تمہارے سا تھ ا نصا ف ہی ہو گا. چنا نچہ معا ملہ ہرن بہا د ر کو پیش ہوا ہرن نے خطرے کو بھا نپتے ہوئے کھا کہ بادی النظر میں تو شیر با د شا ہ کا مطا لبہ د رست ہی لگتا ہی. لیکن ہم تمام فیصلے بڑے بھا ئی سے پوچھ کر کرتے ہیں اگر آپ ا جا زت د یں تو میں ان سے بات کر لوں اور آپ بھی سے انکی بات کروا د وں شیر نے کھا کیوں نہیں. اس پر ہرن نے بھا ئی کو فون کیا ، مختصرا مسلہ بیا ن کیا بھائی بولے میری شیر سے بات کرواؤ. شیر نے فون کا ن سے لگا یا تو ایسا لگا کہ جیسے دوسری طرف سے بھی شیر ہی بات کر رہا ہو اس پر ہرن نے واضح کیا کہ نہیں سرکار وہ بھی ہماری طرح ہرن ہی ہیں ذ را سٹا ئل شیروں والا ہے یہ کہہ کر د وبا رہ شیر کو فون تھما د یا اب جو بھائی نے تقریر شروع کی تو آ دھے گھنٹے تک تو شیر کو سمجھ ہی نہ آئے کہ بھائی آخر کہ کیا رہے ہیں تنگ آ کر فون ہرن کی طرف بڑھا د یا. لیکن ہیں! یہ کیا! ہرن تو کب کا فو ن تھما کر پتلی گلی سے نکل بھی لیا اور کسی کو پتا بھی نہیں چلا. ا ب ہما رے شیر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا اس نے کھا کہ لو بھئی اب تو سب سے پوچھ لیا اب بس تم تیار ہو جا ؤ یہ کہ کر وہ جھپٹنے کو ہی تھا اہ اچنک د رخت کی شاخ پر جھو لتا چمگا د ڑ زمین پر ٹپک پڑا . وہ ا و پر بیٹھا سارا ما جرا سن بیٹھا تھا اور شیر کی نیت جا ن چکا تھا لہذا اس نے بیل کی د ا د رسی کا فیصلہ کیا اور عین وقت پر ا نٹری دے دی اور بولا . جہا ں پناہ ا گر ا جا زت ہو تو میں ا یک عرض کروں شیر بڑے بڑوں کو لاجواب کر چکا تھا اس نے حقارت بھری نظر چمگا د ڑ پر ڈالی او قدرے تمسخر سے بولا ہا ں ہا ں آ پ کیوں پیچھے رہیں آ پ بھی فرما ئیے کیا کہنا چا ہتے ہیں . چمگا د ڑ بولا حضور میں نے سا ری کتھا کہانی سن لی ہے معاملہ بہت گمبھیر ہے انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ قریب ہی با د شاہ سلامت کا محل ہے وہیں چلتے ہیں وہاں یہ بیل اپنا مقدمہ پیش کرے اور جو فیصلہ با د شا ہ سلامت کا ا سے سب قبول کریں. سب نے منظور کیا شیر کو بھلا کیا ا عترا ض ہوتا چل پڑے محل پہنچے اور مقدمہ پیش ہوا. اب سب موجود لیکن چمگا د ڑ کہیں د کھائی نہ د یا بہر حا ل شا ہی عد ا لت نے مقدمہ سنا اور اپنا فیصلہ د ینے ہی کو تھی کہ اچانک چھت پر لٹکتا ہوا چمگا د ڑ پٹ سے فرش پر آ گرا اور بولا حضور معا فی چا ہتا ہوں ذ را نیند آ گئی تھی. با د شا ہ سلامت بولے چلو کوئی بات نہیں جو کہنا چا ہتے ہو کہو. وہ بولا کہ حضور ابھی جب میں یہاں سویا ہوا تھا کہ میں نے خواب د یکھا کہ آپکی چھوٹی شہزادی صاحبہ سے میری شا د ی ہو رہی ہے لہذ ا میں شہنشاہ معظم سے د رخوا ست کرتا نوں کہ میری شا دی شہزا دی صا حبہ سے کروا دی جائے. با د شا ہ سلامت نے معا ملے کی سنگینی کو خوب اچھی طرح جا ن لیا اور بولے تو بھی یھاں سے د فع ہو جا اور سن بے ابے شیر کے بچے اگر تو نے بیل کو ہا تھ بھی لگا یا تو تیرے ٹکرے ٹکرے کروا د وں گا چلو بھا گو یہاں سے.

Ishrat Ali Khan
About the Author: Ishrat Ali Khan Read More Articles by Ishrat Ali Khan: 3 Articles with 1824 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.