رئیسہ کھڑکی سے باہر کافی دیر سے اپنے سامنے والے
گھر کو دکھی نظروں سے تک رہی تھی جہاں سے رونے کی آوازیں تواتر سے آرہی
تھیں ..
یہ آوازیں اسے بے چین کر گئیں تھی۔۔۔جب اس سے رہ نہ گیا تو وہ دل گرفتہ سی
پاس بیٹھی صنبل سے استفسار کرنے لگ گئ۔۔۔جو اپنے کسی کام میں محو تھی۔۔
"تم نے سامنے والے گھر سے زار وقطار رونے کی آوازیں سنیں۔۔۔؟؟؟
کتنا درد ہے ان آوازوں میں ۔۔۔کتنی بے بسی ہے۔۔ جو کسی کا بھی دل چیر کر
رکھ دیں۔۔۔۔""
اسنے ان آوازوں میں چھپے درد کی عکاسی کی۔۔۔
صنبل نے استہزائیہ انداز سے اسے دیکھا پھر بڑی لاپروائ سے بولی
"مجھے ایسی کوئ آواز سنائ نہیں دی۔۔ "
رئیسہ اسکی بات سن کے شاکڈ تھی وہ متعجب ہوئ ۔۔ بھلا ایسا کیسے ممکن تھا کہ
رونے کی آوازیں اس تک نہ پہنچ رہی ہوں؟؟؟؟
"صنبل میں ہر گز یہ مان ہی نہیں سکتی کہ تمھیں آوازیں نہ آرہی ہوں۔۔۔۔ تم
اتنی پتھردل کب سے ہوگئیں؟؟یہ ناممکن ہےمجھے تو اب تک سنائ دے رہی ہیں۔۔"
رئیسہ کے چہرے پہ گہری افسردگی چھا گئ
صنبل کو رئیسہ کی بات نے غصہ دلادیا وہ منہ بسورتی ۔۔سخت کوفت میں مبتلا
ہوچکی تھی
"ارے چھوڑو رئیسہ!! یہ تو اب ہر گھر کی روز کی کہانی ہے۔۔
روزانہ کوئ درجنوں لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔۔۔اب ہم کس کس کا ماتم کرتے
پھیریں گے؟؟؟
"تم بس سب کی فکر چھوڑو اور یہ لذیذ کھانا کھاؤ""
:۔۔جو وہ بڑے دل سے ٹرے میں سجاکے لائ تھی۔
اس کی ڈھٹائ پہ رئیسہ کے دل میں ٹیس سی اٹھی
رئیسہ بریانی اور کباب کی پلیٹس کو اپنے سامنے دیکھکر بس گھورتی رہ گئ۔۔
اسے کچھ یاد آنے لگا تھا
سامنے گھر میں رہنے والی بچی۔جسے اسنے خود بھوک سے نڈھال اکثر کچرے میں
سےکھانا چن چن کر کھاتے دیکھا تھا ۔۔۔وہ اسکے لئے زیادہ کچھ نہیں کرسکی تھی
بس کبھی کبھار کچھ مدد کردیا کرتی تھی۔۔ اور بے بسی سے اسے تکتی رہ جاتی۔۔
اسی گندے کھانے کی وجہ سے وہ پیٹ کے مرض میں مبتلا ہوچکی تھی۔۔۔اور آج درد
کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ وہ تاب نہ لاسکی اور اس فانی در سے رخصت ہوگئ۔۔۔
اسکے ماں کی مسلسل رونے اور بین کرنی کی آوازیں آرہی تھیں۔۔ایسی دل سوز
آوازیں تھیں جس نے اسکا دل ہلا کے رکھ دیا تھا۔۔۔
ایک دم کھانے سے اسکا دل اچاٹ ہوگیا۔۔۔
صنبل نے رئیسہ کو گہری سوچ میں ڈوبے دیکھا تو پوچھ بیٹھی
ارے کیا سوچنے لگیں تم؟؟کھانا کیوں نہیں کھارہیں؟؟؟دیکھو اب ٹھنڈا ہوگیا۔۔۔!!
"بھئی سب کو اک نہ دن جانا ہے۔۔۔اسکی موت آنی تھی سو آگئ۔۔اب اس پہ بھلا
اتنا غم کیوں منانا۔۔۔؟؟؟
رئیسہ نے یاسیت بھری نگاہوں سے صنبل کو دیکھا
"ٹھیک کہتی ہو تم۔۔۔،!!!
"ہم ویسے بھی بے حسی کا لباس پہنے بڑے آرام سے جی لیتے ہیں۔۔
یہ سوچے سمجھے بنا کل ہم بھی انکی جگہ ہوسکتے ہیں۔"!!
۔
صنبل کو رئیسہ کا کاٹ دار لہجہ بری طرح چبھا تھا وہ بات بدل گئ
"چلو رئیسہ اب بور نہ کرو۔۔ آؤ موڈ کو چینچ کریں،
کہیں باہر شاپنگ پہ چلتے ہیں۔۔"
رئیسہ بے بسی سے اسے تکتی رہ گئ۔۔
آہ!!
"اور کرنے کو ہمارے پاس رہ بھی کیا گیا ہے؟؟"
وہ نا چاہتے ہوئے بھی اسکے ساتھ چلنے کیلئے کھڑی ہوگئ۔۔۔اپنی بے بسی پہ اسے
سخت غصہ آرہا تھا
"چلو !!""
گھر سے باہر نکلتے ہی اس نے ایک اچٹتی نگاہ سامنے والے گھرپہ ڈالی۔۔وہ گھر
کے پاس سے گزرتی چپ چاپ لفافہ ڈال کر آگے بڑھ گئ۔۔۔۔
اسنے سر کو جھکائے صنبل کے پیچھے چلنا شروع کردیا تھا۔۔!!
#حیا_مسکان
|