وہ ظالم اور کرپٹ نظام جس نے آج ہمیں پھر سے غلامی
کی زنجیروں میں جکڑ دیا ہے۔ وہ نظام جس نے ہمیں ہمارے دین ،ہمارے اسلاف،
ہماری روایات، ہماری ثقافت اور ہمارے آباؤاجداد سے دور کر دیا۔ وہ نظام جس
کی وجہ سے آج ہمارے دِلوں سے خلوص، محبت اور رواداری ختم ہو گئی ہے۔ آج
اِسی نظام کی بدولت ملک پاکستان عالمی سطح پر دہشت گرد ملک تصّور کیا
جاتاہے۔ آج وطنِ عزیز کی اِس حالتِ زار پر میرا دِل خون کے آنسو رو رہا ہے
۔ اور یہ صدا دے رہا ہے۔
یوں تیری میری جان ہے یہ
پر کیسا پاکستان ہے یہ
ہے جذبوں کی توقیر یہاں
دُھندلی ہے ہر تصویر یہاں
ہر خواب ہے بے تعبیر یہاں
جمہور ہے بے توقیر یہاں
جو مٹھی بھر ہیں، ہیرے ہیں
ہم لوگ نظام کی نظروں میں
گلیوں میں رینگتے کیڑے ہیں
اِس نظام نے ہماری پوری قوم کو دو طبقوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک وہ طبقہ
جو امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور ایک وہ طبقہ جو غریب سے غریب تر
ہوتا جا رہا ہے۔آج ہمارے ملک میں بھوک، افلاس اورغربت اِس درجہ تک پہنچ چکی
ہے کہ کسی غریب کو دو وقت کی روٹی بھی آسانی سے میسر نہیں اور ایک وہ طبقہ
جو آج بھی عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے۔شاعرؔ نے اِس طبقاتی تقسیم کو
یوں بیان کیا۔
اِک طبقہ جس کے کتّے بھی
یہاں ناز سے پلتے رہتے ہیں
اِک طبقہ جس کے بچے بھی
یہاں بھوک میں جلتے رہتے ہیں
اِک طبقہ زہر اُگلتا ہے
اِک طبقہ زہر نِگلتا ہے
اِک طبقہ لال گلابی ہے
اِک زرد خزاں میں ڈھلتا ہے
اِک طبقہ محل میناروں میں
اِک طوفانوں کے دھاروں میں
اِک طبقہ ہے جاگیروں میں
اِک جگڑا ہے زنجیروں میں
اِک طبقہ چلے تو ساتھ اُسکے
لشکر بھی اُتارا جاتا ہے
اِک طبقہ روز دھماکوں میں
چوکوں میں مار ا جاتا ہے
کیایہ وہی پاکستان ہے؟ جس کی آزادی کے لئے 1947ء میں بہت سے بچوں نے اپنے
والدین، بیوئیوں نے اپنے شوہر، بہنوں نے اپنے بھائی اور ماؤں نے اپنے بیٹوں
کو وطن کی خاطرقربان ہوتے دیکھا، اِس و طن کو آزاد مملکت بنانے کے لئے خون
کے نظرانے پیش کیئے، اور آج ہم اِس آزاد مملکت میں رہتے ہوئے بھی غلامی کی
زندگی گزار رہے ہیں۔ بڑھتے ہوئے مسائل، جگہ جگہ دھماکے، ہر طرف خون ہی خون،
چاروں طرف لاشوں کے ڈھیر،کیا یہ آزاد مملکت ہے؟
یہ عوام دشمن نِظام آج کانِظام نہیں بلکہ یہ صدیوں سے چلتا آ رہا ہے۔ یہ
وہی نظام ہے جس کی بیعت سے حضرت امام حسین ؓنے اِنکار کر دیا تھا۔ اگر یہ
نظام مسلمانوں کا خیرخواہ ہوتا تو قائدِاعظم محمد علی جناحؒکانگریس چھوڑ کر
مسلم لیگ میں شمولیت اختیار نہ کرتے۔اگر یہ نظام ہمارے حق میں ہوتاتو آج
پورا ملک بد انتظامی اور لوٹ کھسوٹ کا شکار نہ ہوتا۔آج لوڈشیڈنگ عروج پر نہ
ہوتی، اور ملک تاریکیوں اور اندھیروں میں نہ ڈوبا رہتا۔لوگ مذہب کے نام پر
ایک دوسرے کا گلا نہ کاٹ رہے ہوتے، ہر شہری کی جان و مال کا تحفظ ہوتا،ہر
شہری کے بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی ہوتی۔مگر اِن تمام مسائل کے پیشِ نظر
ہم نے اُمید کا دامن نہیں چھوڑا۔ ہمیں اب بھی یقین ہے کہ وہ دِن دور نہیں
جب پاکستان تمام مسائل سے چھٹکارا پا لے گا، ہر طرف امن ہی امن ہوگا، چوروں
اور لُٹیروں کا احتساب ہوگا، شہریوں کی جان و مال کا تحفظ ہوگا اور ہر ایک
کو اُس کے بنیادی حقوق میسر ہونگے۔ہم سب آج پھر ایک ایسے رہنما کی تلاش میں
ہیں،جس کے پاس اِقبال جیسی فکر ، قائد جیسی ہمت اور اپنے ملک و قوم کی خدمت
کا جذبہ ہو اور جو ذاتی مُفاد پر ملکی مُفاد کوترجیح دے۔مگرکب؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کب
آئے گا وہ مردِ قلندر جو پوری قوم کو ایک صف میں کھڑا کر دے۔ |