آزاد کشمیر سروس ٹریبونل کی کار گزاری اورملازمین تنظیموں کی کچھڑی ؟

ریاست کے اندر اچھے نظم و نسق جو فلاح عوام کا آئینہ دار ہو کو یقینی بنانا حکومت ‘ اسمبلی کے ساتھ ساتھ اصل مشینری جسے سرکاری ملازمین کہتے ہیں ان کی اولین ذمہ داری و فریضہ ہے جس کا معاوضہ وہ عوام کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والے خزانہ سرکار سے لیتے ہیں ‘ یہاں آزادکشمیر میں اب تک روزگار اور محفوظ مستقبل کا ذریعہ صرف اور صرف سرکاری ملازمتیں ہی رہی ہیں ‘ اور یہ دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں گزشتہ مالی سال تک صرف دس ارب سالانہ ترقیاتی کاموں ‘ فلاحی سرگرمیوں کیلئے خرچ کرنے ‘ بروئے کار لانے پر سالانہ 62 ارب سے زائد تنخواہوں ‘ مراعات ‘ انتظامی اخراجات پر خرچ ہو جاتے ہیں ‘ جو اب بڑھ کر ترقیاتی 20 ارب ہوئے ہیں تو غیر ترقیاتی 70 ارب سے زائد ہو گئے ہیں اور ہماری مجموعی نفسیات اپنا فریضہ دیانت داری ‘ محنت سے سرانجام دینے کے بجائے بس کھاﺅ پیو عیش کرو کے طرز عمل اختیار کر چکی ہے ‘ اسلام آباد سے سوال اُٹھایا جاتا ہے صرف خرچ کرنے کیلئے 62 ارب بجٹ دیاجاتا ہے ‘ اس کا مصرف اور نتائج اپنی آمدن بتائیں تو بے وقعت قسم کے طعنے اور کہانیاں شروع کر دی جاتی ہیں ‘ یہاں بدقسمتی سے سیاستدانوں ‘ سیاسی کارکنوں ‘ سیاسی جماعتوں سے زیادہ سرکاری خزانے سے تنخواہ لینے والوں کی تنظیمیں اور پھر ضلع ضلع ‘ تحصیل تحصیل ‘ محکمہ محکمہ شاخیں بنتی رہیں اور سیاست ان کے گرد گھومنے لگی جس کا شکوہ آج بھی پارلیمانی پارٹی اورکابینہ کرتی ہے ‘ یہاں بیورو کریسی کی حکومت ہے ‘ دفاتر کی نالہ بندی روڈ پرآ کر جلسے جلوس ‘ مظاہرے ‘ ریلیوں اور دھینگا مشتی سمیت تقاریریں ‘ وزیراعظم سے لیکر وزیر تک سب کو غلیظ گالیوں تک سے نوازنا جیسے کوئی بات ہی نہیں ہے ۔ دنیا کے کسی کونے میں یہ مثال نہیں ملتی ‘ جو یہاں سکندر حیات حکومت میں قائم ہوئی ‘ امن عامہ کے ذمہ دار آفیسران ‘ ڈی ایم جی گروپ نے ہڑتال کر کے جلسے جلوس کیے اور جو جی میں آیا کیا ‘ چوہدری عبدالمجید حکومت میں پولیس کو ہڑتال پر لگا کر سڑکات پر ٹائر جلائے گئے ‘ رکاوٹیں کھڑی کی گئیں ‘ مظاہروں میں حکومت کو غلیظ گالیاں نکالیں گئیں ‘ جس میں سیاسی عناصر کی کمزوریاں اور دوغلا رویہ بھی شامل تھا مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے قانون ساز اسمبلی کی ملازمین تنظیموں کے قوانین میں اصلاحات کرتے ہوئے نیا قانون پاس کیا جسے دو تنظیموں نے عدالت میں چیلنج کیا ‘ اور عدالت العالیہ نے قانون برقرار رکھتے ہوئے نئے اُصول وضع کر دیئے جس کے خلاف ملازمین تنظیموں نے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا جسے یقینا ملازمین کو وضع کردہ اُصول ‘ طریقہ کار کے تحت عمل کرتے ہوئے جائز حق نہیں ملتا تو احتجاج کا حق ہونا چاہیے مگر یہ مہذب بھی ہونا چاہیے ‘ عدالت العالیہ کے فیصلے میں میڈیا میں آواز اُٹھانے سے لیکر میٹنگز وغیرہ پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے ‘ تاہم پھر بھی سپریم کورٹ یقینا جائز شکایت ‘ جواز پر مزید رہنمائی کریگی مگر سپریم کورٹ میں بھی یہ سوال اُٹھ گئے ‘ صرف 12ارب ترقیاتی اُمور پر خرچ کرنے کیلئے 62ارب انتظامی بجٹ کا کیا جواز ہے ‘ شاندار مراعات تنخواہیں لے کر عوام کیلئے بیورو کریٹ کی خدمات کارکردگی کیا ہے ‘ دس ہزار تنخواہ پر پڑھانے والے پرائیویٹ سکولز کے اساتذہ کے مقابلے میں حوصلہ افزاءتنخواہ مراعات لینے والے لیکچررز ‘ پروفیسرز کے سرکاری تعلیمی اداروں کا رزلٹ ‘ تعلیمی معیار کیا ہے ‘ پولیس ‘ محکمہ مال ‘ زراعت ‘ جنگلات سمیت سب ہی محکمے اپنی کارکردگی بتائیں تو پھر بڑی شرمندگی ہو گی اور سپریم کورٹ نے سینکڑوں تنظیموں کو ختم کرتے ہوئے صرف ایک جریدہ ایک غیر جریدہ تنظیم کی حد تک بذریعہ انتخاب بنیادی حق کا درست استعمال کرنے کا حکم دیدیا تو پھر شاید عوام جشن مناتے ہوئے سڑکات پر نکل آئیں ‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرکاری مشینری کا برہم دیانتداری محنت سے فرائض ادا کرنے والے آفیسران ملازمین کی وجہ سے قائم ہے ‘ مگر یہ انفرادی مثالیں ہیں کی اجتماعی شکل بگڑ چکی ہے ‘ جس کی ایک مثال چیئرمین سروسز ٹریبونل خواجہ نسیم کی اپنے تین ممبران سمیت 23 افراد کے عملے کے ساتھ صرف سو ایام میں چار ہزار مقدمات میں سے 1375 کے منصفانہ فیصلے کرنے کا ریکارڈ ہے جہاں گزشتہ سال سے ٹریبونل فعال نہ ہونے کے باعث مقدمات کا ڈھیر لگ گیا تھا مگر میرپور ‘مظفر آباد ‘ راولاکوٹ سرکٹ میں ایک چیئرمین نے تین ممبران کے ہمراہ شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر کے سب ہی اداروں کیلئے مشعل راہ مثال قائم کر دی ہے ‘ صرف پانچ کمروں کی دفتری مکانیت میں ایک رجسٹرار ‘ ایک سینئر ‘ چار جونیئر کلرک ‘ چار ڈرائیور ‘ چار نائب قاصد سمیت 19 رُکنی عملہ کے ساتھ مراعات تنخواہ کو صحیح معنوں میں حلال کر کے کمانے کا حق ادا کر دیا ہے ‘ اب ان کا حق ہے کہ وہ مکانیت عملہ کے حوالے سے مطالبہ کریں ‘ اور حکومت بھی مطالبے پورے کرے مگر اس کے بغیر مطالبات اور پھر احتجاج سے پہلے سروس ٹریبونل جیسی کارکردگی دکھانا اور پھر سر اُٹھا کر اپنے حق کی بات کرنا قابل فخر ہو گا ‘ یہاں اسمبلی سے لیکر کابینہ اور کابینہ سے لیکر سیکرٹریز ‘ سربراہان محکمہ جات کی تعیناتی بھی میرٹ ‘ کارکردگی کی بنیاد پر ہونی چاہیے نہ کہ تعصبات ‘ سفارش کے سانپ سپیرے رنگ دکھاتے رہےں اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا کلچر پھن پھناتا رہے ‘ فاروق حیدر حکومت کیلئے یقیناسروس ٹریبونل کی کارکردگی اعزاز ہے مگر ایک دم سے نہ سہی آہستہ آہستہ ایک جیسی ایک اُصول کے تحت ہی ہر محکمے ادارے میں پالیسی لوگو ہونی چاہیے جب سب کو یقین ہو گیا سب کیلئے ایک اُصول ہے تو یقینا بہت سے مسائل خود بخود ختم ہونگے اور ملازمین بھی اعتماد اطمینان کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیں گے ۔ سروس ٹریبونل کے بعد احتساب بیورو کی سربراہی بھی ایک انتہائی دیانتدار اور فرض شناس سابق جج راجہ اسلم خان کو سوپننے جانے کی باز گشت ہے مگر ہیروئن کے کیس میں ان کو بھی ایک کیس میں پولیس اصل متاثرہ لڑکیوں کے بجائے 2 دیگر لڑکیوں کو پردہ کروا کر چونا لگا گئی تھیں جیسا کہ آج کل باوجود حکومت کے سخت اقدامات اور پالیسیوں کے باوجود خوشامد کے مرہم سے پرانی سرگرمیاں جاری ہیں ۔لہٰذا پروفیشنل ازم ‘ صلاحیت کام کام اور کام کی بنیاد پر ہی میرٹ کی بالادستی قائم ہو سکتی ہے ۔ ورنہ ایوان صدر میں اوپر سے لیکر نیچے تک س سے سردار اور دوسری طرف ر ررہی کا شور ہونا ہے تو یہ بھی میرٹ پر آگے بڑھنی چاہیے ۔ اگر کابینہ میں اس کا خیال رکھا جاتا تو اپنے پاس سے وزراءاور ممبران اسمبلی کے بیانات بنا کر بھیجنے کی ضرورت پیش آتی نہ عوامی محاذوں پر مخالفین کا جواب دینے کی فکر لاحق رہتی ؟

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 149174 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.