مجھے معلوم ہے کہ ماں کے بعد اب میں نہ کسی کا لال ہوں نہ
چاند ہوں‘‘،،،کیونکہ پچھلے کسی برسوں سے میں‘‘،،
بہت سے وارث ہونے کے باوجود بھی لاوارث ہوں‘‘،،،اگر میں کسی کا چاند ہوتا
تو تنہا اک پل بھی نہ رہتا‘‘،،،کیونکہ‘‘
چاند کبھی بھی تنہا نہیں رہتا‘‘،،،ستاروں کے جھرمٹ میں جھلملاتا رہتا ہے‘‘،،،اپنی
روشنی نہ ہونے کے باوجود بھی‘‘
ستاروں اور بہت سے کہکشاؤں کی محفل نے اسے ناختم ہونے والی چاندنی دے رکھی
ہے‘‘،،،قدرت نے اسے تنہائی‘‘
سے بچارکھا ہے‘‘،،،اداسی سے کوسوں میل دور رکھا ہے‘‘،،،وہ آسمان کا چاند ہے
اکلوتا‘‘،،تنہا‘‘،،،نا ختم ہونے والی‘‘،،،
چاندنی نے اسے سب سے منفرد بنارکھا ہے‘‘،،،وہ محبت‘‘،،،عشق،،،خوبصورتی
کاایسا نشان ہے‘‘،،،جسے‘‘
صدیاں بھی نہ مٹاسکیں‘‘،،،آج بھی جب سمندر‘‘،،،صحرا‘‘،،،جنگل میں مسافربھٹک
جائیں‘‘،،تو وہ رہنما بھی بن جاتا‘‘
ہے‘‘،،،اور جب عشق،،پیار،،رہنمائی کرنے لگے‘‘،،تو اس سے بڑھ کے اورکیا خوش
بختی ہوگی‘‘،،،
روزی خاموشی سے سلمان کو دیکھتی رہی‘‘،،،وہ سن رہی تھی مگر حال سے بے تعلق
تھی‘‘،،،بس اک آواز اس کے ‘‘،،
کانوں سے مستقل ٹکرا رہی تھی‘‘،،،سلمان خاموش ہوگیا‘‘،،،
روزی کی نظریں اپنے چہرے پرجمی ہوئی دیکھ کے اس ٹھنڈ میں بھی اسے پسینے آنے
لگے‘‘،،،روزی اپنی نظریں‘‘
اس کے چہرے پرچھوڑ کر کہیں اور ہی گم ہو گئی تھی‘‘،،،
میری آنکھوں کو تیرے چہرے کی عادت نہ ہو جائے
کہیں یہ عادت دعاؤں میں نہ بدل جائے
کمرے میں صرف خاموشی کی حکمرانی تھی‘‘،،،روزی نے سلمان کو دیکھا‘‘،،،سلمان
‘‘کس نے کہا ہے کہ تم‘‘،،
تنہا رہو‘‘،،،روزی نے اپنی نظریں اس کے چہرے سے ہٹالی‘‘،،،مگراس کی آنکھیں
شاید ابھی تھکی نہ تھی‘‘،،،
سلمان اس کے سوال پرمسکرا دیا‘‘،،،اطمینان سے بولا‘‘،،،ہمیں کوئی بتاتا
یاکہتا نہیں‘‘،،،ہمیں خود سے پڑھنا پڑتا ہے
سلمان نے اپنے ہاتھوں کی ہتھیلی کو دیکھا‘‘،،،بولا سب لکیریں پڑھنا آنا
چاہیے‘‘،،،جو خود بے سہارا ہوتے ہیں‘‘،
وہ کسی کا سہارا یا طاقت نہیں بناکرتے‘‘،،،بس اس تماشائی کی طرح ہوتے
ہیں‘‘،،،جو سٹیڈیم میں صرف مقابلہ یا لڑائی کو دیکھ سکتا ہے‘‘،،،یا تو جیت
کی تالی‘‘،،یا ہار کاافسوس کرسکتا‘‘،،،مگرمجھ سے لوگ کھیل کا حصہ نہیں
بناکرتے‘‘،،،،(جاری)
|