انسانی معاشروں کا وجود میں آنا اور ارتقاء کے مراحل طے
کرنے کا عمل کیسے جاری رہتا ہے؟ انسانوں کے لئے پر امن اور پرسکون فضا کیسے
بنائی جا سکتی ہے؟ انسانی اور حیوانی معاشرے میں کیا فرق ہوتا ہے؟اگر ان
سوالات کے جوابات تلاش کئے جائیں تو ایک ہی جواب سامنے آتا ہے وہ ہے’’
قانون کی عملداری‘‘اگر کسی ریاست میں آئین اور قانون موجود نہیں یا اس کی
بالا دستی نہیں ،وہ ریاست اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی، آئین اور قانون ہی
ریاست کے تمام اجزاء کو باہم جوڑ کر رکھتے ہیں، آئین اور قانون ہی اس ریاست
میں بسنے والے باشندوں کے تمام تر حقوق کے ضامن ہو تھے ہیں۔آئین اور قانون
کی اس قدر اہمیت کے پیش نظر جدید و قدیم ریاستوں میں ان کو بنیادی اور
کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔دنیا کی ہر قوم کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی آئین
وجود میں آتا ہے اور ایسے قوانین وضع کئے جاتے ہیں جن کی بدولت انسانوں میں
ایسا نظم وضبط پیدا کیاجاتا ہے جس سے معاشرہ بحیثیت مجموعی بلا خوف و خطر
ترقی کی راہ پہ گامزن ہو سکے۔
قانون کی اہمیت اور عزت کئی سو سال قبل مسیح سے دنیا میں رائج ہے، قدیم
یونانی اور رومی ریاستوں میں جہاں سے جلیل القدر سیاسی و عمرانی علوم کے
ماہر حکماء اور فلسفی پیدا ہوئے،ان ریاستوں میں بھی قانون کی علمبرداری کو
نہایت اہمیت حاصل تھی، اس زمانے میں سقراط کا واقعہ بہت مشہور ہے کہ اس نے
وقت کی عدالت کے فیصلے کو (جو کہ اگرچہ کہ غیر منصفانہ فیصلہ تھا) لیکن اس
نے قانون کی عزت و احترام کے لئے اس فیصلے کو قبول کرتے ہوئے موت کو گلے
لگا لیا‘‘ اور رہتی دنیا کے لئے ایک مثال قائم کر دی کہ قانون کا احترام
کرنا ہر شہری کا فرض ہے کیونکہ یہ قوانین ہماری ہی حفاظت اور عزت کے لئے
وجود میں لائے جاتے ہیں۔آج کا مغرب ان یونانی روایتوں اور ریاستی و عمرانی
نظریات پہ نہ صرف فخر کرتا ہے بلکہ ان کو اپنی ریاستوں میں رائج کر کے آج
کی موجودہ جدید ریاستوں کے خدو خال بنانے میں کامیاب ہوا۔
صنعتی انقلابات کے بعد جمہوریت نے جنم لیا، جمہوریت در اصل ایک ایسی
سوسائٹی کو تشکیل دیتی ہے جہاں خیالات کا تبادلہ آزادانہ ہوتا ہے، جب
خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے، جہاں مثبت نظریاتی بحث و مباحثہ ہوتا ہے تو نئی
سوچ اور نئے خیالات و افکار جنم لیتے ہیں،افرادمعاشرہ ایک دوسرے کے قریب آ
تے ہیں،یکجہتی اور مل جل کر کام کرنے کی اجتماعی صورتیں پیدا ہوتی ہیں،لیکن
اس ساری کیفیت کو سب سے زیادہ نقصان اس وقت پہنچتا ہے جو اس معاشرے میں
قانون کی عملداری نہ ہو،قانون کا احترام ختم ہو جائے، جہاں پاور شئیرنگ کا
تصور دم توڑ دے، جہاں احتساب کا کوئی نظام موجود نہ ہو تو وہاں کرپشن اور
تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔دراصل آئین اور قانون کی عملداری سے
معاشرے کے اندر نظم و ضبط کا ایک ایسا ماحول ترتیب پاتا ہے جہاں حقیقی
جمہوری رویئے پرورش پاتے ہیں۔
لیکن اگر معاشرے کے اندر آئین اور قانون کی کوئی اہمیت نہ ہو، جب چاہے کوئی
فوجی طاقت سے آئین کو معطل کر دے، یا جب چاہے کوئی اپنی سیاسی اور سرمائے
کی طاقت سے آئین اور قانون کو ٹھوکر مار دے،تو اس ریاست کا انجام بہت برا
ہوتا ہے۔سقراط نے اپنی جان دے دی لیکن قانون کو عزت دی اور آج وہی اقوام
دنیا بھر پہ اپنی بالا دستی رکھتی ہیں جنہوں نے سقراط کی اس قربانی سے سبق
سیکھا اور اپنے معاشروں کو قانون کی عزت کا رکھوالا بنایا اور اس کسی فرد
واحد یا گرو یا خاندان یا حکمران کی وجہ سے کبھی بھی آئین اور قانون کو
جھکنے نہیں دیا۔آج یہی ترقی یافتہ معاشروں کی پہچان ہے کہ وہاں کوئی بھی
قانون سے بالا تر نہیں ہے۔اب اگر دنیا میں ان ریاستوں کا تجزیہ کریں جہاں
سیاسی عدم استحکام یا بد حالی، کرپشن، اور بے انصافی موجود ہے اس کی ایک ہی
وجہ نظر ٓتی ہے کہ وہاں قانون کی عملداری موجود نہیں ہے۔
ان بد قسمت ریاستوں میں ایک ہمارا وطن عزیز بھی ہے جہاں آئین اور قانون کی
اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک ٹریفک کی بتی کی خلاف ورزی سے لیکر آئین کو
معطل کرنے اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ پہ حملہ آور ہونے تک ریاست کے ہر شعبے
میں قانون کی بے قدری اور بے توقیری پھیلی ہوئی ہے۔
سماجی زندگی میں کسی قانون کی اہمیت اور عزت اس وقت ہوتی ہے جب اس معاشرے
یا سماج کے بالا دست طبقے اس کو عزت و احترام دیں، اگر حکمران طبقات قانون
کو گھر کی لونڈی سمجھیں، قانون کو صرف اپنے مفادات کی حفاظت اور تکمیل کے
لئے استعمال کریں، ججز کو اپنے ملازمین سمجھیں، عدلیہ کو صرف اپنے حق میں
فیصلہ دینے والی مشینیں سمجھیں، اور ان کے خلاف ایسے ہتھکنڈے استعمال کریں
کہ انہیں دباؤ میں لا کر اپنی حمایت میں فیصلے کروائیں تو اس معاشرے کا
مستقبل داؤ پہ لگ جاتا ہے، حکمرانوں کے ان اخلاقیات کا اثر پورا معاشرہ
لیتا ہے، قوانین کی اور عدلیہ کی اس طرح کی بے توقیری معاشرے کے اندر رفتہ
رفتہ لوگوں کا مزاج یہ بنا دیتی ہے کہ بلاخوف و خطر جس طرح چاہے قانون کو
اپنے ہاتھ میں لیں ،جب چاہیں جہاں چاہیں قانون کی دھجیاں اڑا دیں، جہاں
چاہیں جس طرح چاہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف ، عدالتوں کے خلاف
زہریلا پرو پیگنڈا کریں اور ان کی اہمیت کو معاشرے میں کم کرتے چلے جائیں
تو یہ سارا عمل اس معاشرے کو لا قانونیت اور سول جنگ کی طرف دھکیلتا ہے۔
بدقسمتی سے اس وقت قانون شکنی چاہے وہ چھوٹے پیمانے پہ ہو یا اعلیٰ سطح پہ
ہمارے معاشرے کا بحیثیت مجموعی مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔
حکمرانوں کا یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ معاشی و سیاسی اثر رسوخ اور طاقت حاصل
کرو اور ایک تھانے سے لے ، الیکشن کمیشن ہو یا نیب ہو یا یا کوئی بھی ایسا
ادارہ ہو جو کسی نہ کسی طرح آئین اور قانون کو معاشرے میں نفاذ کا ذمہ دار
ہو اس کے کردار کو اپنے مخصوص مفادات کے تحت استعمال میں لانا ہے۔اگر وہ
مخصوص گرو یا خاندان کے مفادات کا تحفظ کرے تو وہ بہترین اگر نہیں تو اس کے
خلاف سازشیں شروع ہو جاتی ہیں۔
حالیہ پانامہ کیس اس کی ایک مثال ہے، اس ملک کے ارباب اختیار کی طرف سے
ریاست کے قانون اور ریاست کی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کو جلسے جلوسوں اور
میڈیا میں انتہائی بھونڈے انداز سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اگر
بات صرف قانونی نکات یا کسی قسم کی قانونی سقم پہ بات چیت ، بحث و مباحثہ
تک رہتی تو چلو اسے آزادی اظہار رائے کہہ کر قبول کیا جا سکتا ہے، لیکن
باقاعدہ ایک مہم کے تحت محترم ججز کو اور عدالتی فیصلے کو غلط کہنا درا صل
پورے معاشرے کو یہ پیغام دینا ہے کہ اس ریاست کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے
کی بھی کوئی اہمیت نہیں،جب حکمران طبقات کے یہ اخلاقیات قوم کے سامنے آتے
ہیں تو افراد معاشرہ کیونکہ کر قانون کے احترام کا مزاج پیدا کر سکتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو چاہے سرمایہ کی طاقت پہ ریاستی اداروں کو اپنے تابع
رکھنے پہ مجبور کرے اور احتساب و انصاف کے نظام کو یر غمال بنانے کی کوشش
کرے۔ایک خاندان جس نے دوران حکمرانی اس غریب قوم کی دولت کو مختلف طریقوں
سے لوٹ کر اپنی جائدادیں بنائیں ،ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے ان کے خلاف فیصلہ
دیا۔اب وہ اس فیصلے کو تسلیم کرنے کی بجائے،الٹا ان عدالتوں ہی کو برا بھلا
کہہ رہے ہیں۔اگر یہی روش رہی تو اس ملک میں ایسی انارکی پھیلے گی کہ کچھ
نہیں بچے گا۔جب ایک غریب کو معمولی چوری پہ تھانے دار ذلیل کرتا ہو اور اسے
جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہو وہاں اس ملک کو اربوں ڈالر قرضوں میں ڈبونے والے
تمام کرپٹ حکمران خاندان تھانیداروں،تھانوں اور عدالتوں کو اپنی حرام خوری
کے تحفظ کرنے کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیں، تو اکثریتی غربت کے مارے
ہوئے اور اس بے انصافی کا شکار طبقات پھر بغاوت پہ اتر آتے ہیں، یہ بغاوت
قانون کو اہمیت نہ دینے سے شروع ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ پورا معاشرہ لا
قانونیت کی لپیٹ میں آجاتا ہے ۔بد قسمتی سے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہر سطح
پہ قانون کو جوتی کی نوک پہ رکھا ہوا ہے، بے شعور اور جاہل مجمعوں کے سامنے
اپنے آپ کو مظلوم بنا کر جو کھیل ریاستی قانون اور عدالتوں کو بے تو قیر کر
کے کھیلاجا رہا ہے،اس سے کیا ملک ترقی کی راہ پہ گامزن ہو سکتا ہے؟
دراصل بدقسمتی سے ملک کی اکثریت ان پڑھ اور جاہل ہونے کی وجہ سے یہ سمجھنے
سے قاصر نظر آتی ہے کہ قانون کی اہمیت کیا ہے؟اور ایک عوامی نمائندے کی ذمہ
داریاں کیا ہیں؟اور کیا یہ تمام منتخب شدہ نمائندے اپنا حقیقی کردار ادا کر
رہے ہیں یا نہیں؟کیا ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے والے،بددیانت اور کرپٹ
امیداواروں کو ووٹ دیا جائے یا نہیں؟ملکی معیشت اور صنعتی و تجارتی اداروں
کو کس قدر نقصان پہنچایا جا رہا ہے؟ کس طرح عوام کو بنیادی ضروریات سے
محروم معاشرے میں جینے پہ مجبور کیا جا رہا ہے؟ان سب باتوں کو شعور نہ ہونے
کی وجہ سے جاہلوں کے یہ مجمعے ناچ ناچ کر پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے ان
کرپٹ حکمرانوں کا استقبال کرتے ہیں،یہ کرپٹ حکمران اس جاہل عوام کی اس بے
شعوری کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں، ہر دفعہ پہلے سے بڑھ کے جھوٹ بولتے ہیں اور
پھر ان سے ووٹ لے کر انہیں اسی طرح ان پڑھ اور جاہل رکھنے کا پورا بندوبست
رکھتے ہیں۔
یہ تاریخ کا عبرتناک سبق ہے کہ نہ تو ایسے حکمران اپنی اجارہ داری کو زیادہ
تر قائم رکھ سکے ہیں جو قانون کا احترام نہیں کرتے اور نہ ہی ایسی جاہل
عوام جو ان جیسوں کو اپنے اوپر مسلط کئے رکھتی ہے اپنی حالت کو بہتر کر سکی
ہے۔خدارا سوچئے اپنے بچوں کو یہ سکھائیں کہ قانون اور آئین کی اہمیت ہے،
قومیں اس کے بغیر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتیں، حقوق انسانی، انصاف
اورخوشحالی کا خواب بغیر قانون کی عز ت و احترام اور اس پہ عمل پیرا ہونے
سے حاصل نہیں ہو سکتا۔اپنے بچوں کوکرپٹ مافیا کے اس پرو پیگنڈے سے بچائیں
ان مفاد پرست ٹولوں اور مافیا کی آئین شکنی اور قانون و عدالت دشمنی کو بے
نقاب کریں۔ ان کرپٹ اور بددیانت حکمران طبقات کو اپنی نئی نسلوں کے سامنے
بے نقاب کریں جو ملکی خزانے پہ بوجھ ہیں،جو اس دھرتی کے ایسے دشمن ہیں جو
اس کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں، یہ ایسے طفیلیے ہیں جو اس قوم کا خون
چوس رہے ہیں۔جب یہ شعور عام ہو جائے گا تو پھر یہ اپنے جلسے جلوسوں میں
جھوٹ بول کر اور غلط بیانی کر کے اپنے کرتوتوں کو نہیں چھپا سکیں گے۔خدارا
اپنے بچوں کو باشعور بنائیں، تاکہ ایک ایسے پاکستان کی داغ بیل ڈالی جائے
جہاں آئین اور قانون کی حکمرانی ہو۔ |