اسے یہاں آئے ایک ہفتہ ہو چکاتھا‘‘،،،اسے کافی تسلی ہو
گئی تھی‘‘،،،فری انٹی کی عادت بہت اچھی تھی‘‘،
وہ ہر ایک سے گھل مل جاتی‘‘،،،مایا کو بھی جانے کون کون سے قصے سناتی رہتی‘‘،،،خود
بھی ہنستی،،اسے‘‘،،
بھی ہنساتی رہتی‘‘،،،
آپ اکیلے اکتائی نہیں کبھی؟؟ اچانک سے اس نےکچھ سوچتے ہوئے پوچھ لیا‘‘،،،نہیں‘‘،،،اکتانا
کیسا‘‘،،،،
کبھی اتنا وقت ہی نہیں ملا کہ تنہائی کا احساس ہے‘‘،،،ضروری ہے کہ بہت سے
لوگوں کے ساتھ رہا جائے‘‘،،
دل ویران ہوں‘‘،،تو لوگوں کے جھرمٹ میں بھی تنہائی محسوس ہوتی ہے‘‘،،،ہاں
کبھی کبھی شدت سے اولاد‘‘
کی کمی محسوس ہوتا ہے‘‘،،،ادھوراپن پن اپنی ذات کا‘‘،،،مایا نے غور سے
انہیں دیکھا‘‘،،،
ان کے لہجے میں ٹھہراؤ تھا‘‘،،،ہونٹوں پر دھیمی سی مسکراہٹ کا ہمیشہ کی طرح
پیرا تھا‘‘،،،ٹن‘‘،،ٹن‘‘،،
فون کی بیل بجی فری ممانی ریسیور اٹھا کر بات کرنے لگیں‘‘،،، وہ اٹھ کر
بالکونی میں جا کھڑی ہوئی‘‘،،،
سامنے والے فلیٹ کے دروازے پر ایک لڑکا کھڑا موبائل پر بات کررہا تھا‘‘،،،ایک
ہاتھ پاکٹ میں تھا‘‘،،
شاید کچھ ڈھونڈ رہا تھا‘‘،،، اسے یادآیا فری کافی بار سامنے والے فلیٹ کے
دو لڑکوں کا ذکر کرچکی تھی‘‘،،،
شاید یہ ان میں سے ایک تھا‘‘،،،پرجو بھی تھا‘‘،،،بلاشبہ بہت پرکشش تھا‘‘،،،وہ
واپس مڑا‘‘،،،گاڑی کالاک کھول ‘‘،
کے کچھ نکالا‘‘،،،اور پھر واپس فلیٹ کی طرف چلا گیا‘‘،،،
اسکے ہاتھ میں چابی تھی‘‘،،،لاک کھول کے وہ اندر بڑھ گیا‘‘،،،
سامنے منظر خالی تھا‘‘،،،پر اس کی نظریں وہیں ٹھہر گئی تھی‘‘،،،اس کے دل نے
بے ساختہ خواہش کی‘‘،،،
کہ کچھ دیر پہلے کےلمہات واپس آئیں‘‘،،،وہ ویسے ہی کچھ دیر کھڑارہے‘‘،،،
خواہش شدت اختیار کرنے لگے‘‘،،
مایا‘‘،،،فری ممانی کی آواز پر اس کا ارتکاز ٹوٹ گیا‘‘،،،وہ بے دلی سے وہاں
سے ہٹ گئی‘‘،،،
|