قائدِاعظم محمد علی جناح !
ایک ایسا رہنما ایک ایسا عظیم آدمی
پختہ ارادے رکھنے والا ایسے ایمان کے ساتھ پیدا ہوا جسنے تاریخ ہی اپنی کر
ڈالی ۔
ایک ایسی عظیم ہستی جو اپنا سکون غارت کر کے میرے اور آپ کے لئے لڑتا رہا ۔
ایک ایسا انسان جس نے زندگی کے آخری لمحات میں بھی ہمت نہ چھوڑی جان پر
کھیل جانے والا آخر کار 14اگست 1947 کو میرے اور آپکے لئے رمضان کی
ستائسویں شب اللہ کے فضل سے ایک ایسی شناخت دے گیا جس کی وجہ سے آج ہم
”آذاد“ ہیں ۔
”جنون سے اور عشق سے ملتی ہے آذادی “
یہ وہ جنون تھا جو قائدِاعظم میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور آج اسی جنون
کا نتیجہ ”پاکستان“ ہے ۔یہ پاکستان میری اور آپکی پہچان ہے جس کی ”آذادی“
کی وجہ سے کڑوڑوں لوگ قربان ہوئے سینکڑوں گھر اجڑے اور لوگوں نے راتوں کی
نیند حرام کی ۔
بے تحاشہ جدوجہد اور قائدِاعظم کی سرتوڑ کوششوں کے بعد مجھے اور آپکو یہ
وطن ملا جس سے میری دنیا میں ایک پہچان بنی کہ ”میں پاکستانی ہوں “ (الحمداللہ)
14اگست جب بھی آتی ہے ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا گھروں میں
پاکستانی پرچم لہراتے ہیں جھنڈیوں سے پورے بازار سجے ہوتے ہیں کہیں تو سبز
اور سفید رنگ کے کیک بھی پاکستان کی محبت و آزادی کی خوشی میں کاٹے جاتے
ہیں گھروں میں پکوان تیار ہوتے ہیں اور آجکل کے ٹرینڈ کے مطابق مرد حضرات
گرین شرٹس اور خواتین خاص طور پر سفید شلوار قمیض اور سبز دوپٹہ زیب تن
کرتی ہیں لوگ تاریخی مقامات کی سیرو تفریح پر نکل جاتے ہیں ٹی وی چینلز پر
طرح طرح کے پرجوش پروگرام کیۓ جاتے ہیں لمبی لمبی ٹرانسمیشنز چلتیں ہیں کئی
کئی گھنٹوں پروگرامز میں ملی نغمے گائے جاتے ہیں یہاں تک کہ ہم اپنی آزادی
کی خوشی میں کچھ بھی ایسا نہیں چھوڑتے جسے ہم پاکستانی 14اگست پر نہ کریں
محبت کے اظہار کے لئے ہم ہر وہ طریقہ اپناتے ہیں جس سے واضح ہوجائے کہ یہ
ہماری ”آزادی“کا دن ہے خاندان کے خاندان ملتے ہیں ہلہ گلہ کرتے ہیں آتش
بازیاں ہوتیں ہیں شوروغل مچتا ہے دور دور سے لوگ تقاریب دیکھنے آتے ہیں
محفلیں سجتیں ہیں ہم میں کوئی بھی اپنوں کو نہیں بھولتا لیکن افسوس کہ ہر
14اگست کی اس خوشی میں ہم ہمیشہ سے ہی ایک ”خاندان“ بھول جاتے ہیں
پورے خاندان کو تو کیا اسکے ایک ”فرد“کو بھی یاد نہیں کرتے اور وہ خاندان
کوئی اور نہیں بلکہ میرے ”قائد“کا خاندان ہے۔
اس انسان کا خاندان جس کی لاکھ کوششوں کے بعد میں نے کھل کر آزاد ہوا میں
سانس لیا ۔
ہندو دھرم سے چھٹکارا پانے کے بعد ماتھے پر ”آزادی کا چاند“ سجائے میں
پاکستان میں پیدا ہوئی میں نے پاکستان گھوما اسکی گلیاں اسکا گوشہ گوشہ اس
بات کی ضمانت دیتا ہے کہ یہ وطن مجھے بھیگ میں نہیں ملا اس وطن کے پیچھے
بڑی درد بھری کہانیاں رقم ہیں جسے پڑھ کر میرا دل خون کے آنسو رویا ۔
اور جب میں نے ہر 14اگست پر بڑی بڑی محفلوں میں خوشیاں مناتے امیروں کو
دیکھا تو قائدِاعظم کے غریب خاندان کا خیال مجھے ستانے لگا جو کراچی میں ہم
سب سے برے حالات میں رہ رہا ہے ۔
کراچی میں مقیم ”قائدِاعظم کا خاندان“ 1998 پر اس وقت منظرِعام عام پر آیا
جب قائدِاعظم کی رشتے میں لگتی نواسی ”خرشید بیگم“ اپنے نوجوان بیٹے ”سکندر
علی جناح“ کے قتل کے سلسلے میں انصاف کی اپیل کرنے ایک ٹی وی چینل پر آئیں
اورجب میں نے انکا روتا چہرہ لڑکھڑاتی زبان اور کمزورحالت دیکھی تو یقین
مانیں دل کو گہرا صدمہ ہوا اوراتنا افسوس ہوا کہ میں یہ تحریر لکھنے پر
مجبور ہوگئی ۔
ہم پاکستان سے محبت کرتے ہیں
پاکستان پر جان نثار کرتے ہیں
پھرکیوں ہم نے اپنے راہنما کے خاندان کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا؟
میں نے ایک ویڈیو دیکھی جس میں قائدِاعظم کے ”تایا ذاد بھائی ” جنکا
نام”محمد اسلم جناح“ جن کے رشتے میں قائدِاعظم ”نانا“ لگتے ہیں انہیں ایسی
سفید پوشی کی حالت میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اس مکان میں رہتے دیکھا جسکی
چھت جواب دے گئی تھی اور مالک مکان نے نوٹس بجھوایا کہ مکان جلد خالی کیا
جائے اور بقول انکے اگر انہیں یہ مکان جلدی میں چھوڑنا پڑے تو وہ مزارِقائد
پر جا کر بیٹھ جائینگے اور اسکے علاوہ کہاں جائیں گے ۔
یہ کیسی عوام ہے جو لیڈر کے خاندان کو نوٹس بجھوا رہی کہ وہ اپنا ٹھکانہ
بدلیں بجائے اس کے کہ وہ کوئی اور گھر ڈھونڈ دیتا۔
ایک انسان جسکی وجہ سے ہمیں ”آزادی“ حاصل ہوئی اسکے دنیا سے جانے کے بعد اس
شخص کا خاندان جو در بدر اسی ملک میں ایک مکان کی خاطر دھکے کھا رہا ہے اور
التجاء کر رہا ہے ایک چھت کی کیا یہ ہمارا فرض نہیں کہ اسکی امداد میں کوئی
کثر نہ چھوڑیں؟
کیا اتنے بڑے وطن میں اسکے لئے کوئی گھر خالی نہیں ؟
کیا اتنی عوام میں انکی مدد کرنے والا کوئی نہیں ؟
کیا حکومتِ پاکستان بانیِ پاکستان کی مدد نہیں کر سکتی جو خود اپنے
پروٹوکول میں مری جا رہی ہے ۔؟
کیا یہ ہمیں شیوا دیتا ہے کہ ہم قائدِاعظم کے خاندان کے ساتھ انجانوں جیسا
سلوک کریں؟
میں حیران ہوں کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے کسی ایک ٹی وی چینل پر عام
دن تو کیا 14اگست والے خاص دن کو بھی بانیِ پاکستان کے خاندان کا ایک فرد
تک نہیں دیکھا ۔۔۔ افسوس بے حد افسوس!
کیا پاکستان کی خوشی منانے میں ہمارا یہ حق نہیں کہ ہم انہیں یاد رکھیں۔
سوئی ہوئی عوام کوئی انصاف کرے۔۔۔۔۔
کہ جس شخص نے اپنا تن من دھن سب ہماری آزادی کی وجہ سے قربان کر دیا ہم نے
اس کے لئے کیا کیا ؟
مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارا فرض بس پاکستانی پرچم کے ساتھ تصویریں بنوانا
ہی ہے
ہمارے ہاں امداد کا کوئی چکر نہیں اور وہ بھی اس خاندان کی جسکا بڑا میرا
”قائد“ ہے اس ملک کا ”رہنما“ ہے وہ اس خاندان کا نہیں اس ”ملک کا بڑا“ہے۔
14اگست کی خوشی منانا ہمارا حق ہے کیونکہ ہمیں انتھک کاوششوں کے بعد آزادی
جیسی نعمت نصیب ہوئی تھی لیکن اسی کے ساتھ ہمارا فرض یہ بھی تو ہے کہ
قائدِاعظم کے خاندان کا خیال رکھیں بھلے کوئی دور کا رشتے دار ہی کیوں نہ
ہو ہمارے لئے تو عزت کی جگہ ہونی چائیے ۔
ہمیں ہمیشہ وہ خاندان بھول جاتا ہے جو حقیقی معنوں میں آزادی کا حق رکھتا
ہے لیکن افسوس کہ غربت کے باعث وہ اسی ملک میں ایک چھت کی التجا کر رہیں
ہیں جو ان کے رشتے میں لگتے ”نانا“ نے حاصل کیا تھا ۔
آج اسی ملک میں انہیں انصاف نہیں مل رہا یہ کیسی خوشی ہے جس میں اپنے ہی
شامل نہ ہوں ؟
بحیثیت پاکستانی میں فخر محسوس کرتی ہوں کہ پاکستان میری پہچان اور شان ہے
میں 14اگست کو پرجوش طریقے سے مناتی ہوں لیکن ہر سال یہ بھول جاتی ہوں کہ
قائد کی نسل بھی اسی دنیا اسی ملک میں موجود ہے جسے میںٰ آپٰ تمام عوام اور
حکمران بھولے ہوئے ہیں ۔
میری اس تحریر کے ذریعے اس خودغرض عوام سے ایک گزارش ہے۔۔۔
کہ ہم اپنوں کا خیال رکھیں کیونکہ اپنوں کے بغیر خوشیاں ادھوری ہیں اور
ہمارے اپنے ”قائدِاعظم کی نسل“ ہے اس بڑی خوشی میں اسے تو نہ بھولیں ۔
ہر دم ہر پل ہر وقت ان کو یاد کھیں ۔
وہ ابھی بھی اس ملک میں ہیں انکو اپنی خوشیوں میں شریک کر کے کم از کم یہ
احساس تو دلا دیں کہ پاکستان کی عوام آپ کے ساتھ ہے آپ اکیلے نہیں ۔
اللہ سے دعا ہے میرےپاکستان کو کسی کی بری نظر نہ لگے اور میرے پاکستان کو
اپنی رحمت کے سائے میں رکھیں۔
میری عوام میرے اپنوں پر رحمت کی بارش ہوتی رہے ۔
اللہ میرے قائدِاعظم محمد علی جناح اور انکے ساتھ دیگر عظیم شخصیات کو جنت
الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائیں اور ہم سب سمیت فخرِپاکستان میرے قائد
کے خاندان کی ہر مصیب کو دور کر دے آمین یا رب العالمین ۔
پاکستان زندہ باد۔
|