احساس

آزادی ایک نعمت

چودہ اگست قریب تهی. ہر طرف جهنڈیوں اور سبز ہلالی پرچموں کا راج تها . جوش ، جذبہ،جنون ہر طرف نمایاں تها. اسی جوش و جنون کے تہت ہم نے بهی گهر کو سجایا. بابا جان یعنی میرے دادا جان بہت معمر شخص تهے. لیکن اگست کے ماہ میں ہم انہیں بهی بہت چاق و چوبند جوش و خروش سے لبریز دیکهتے تهے. شاید اس لئے کہ انهوں نے اس ملک کو اپنی آنکهوں سے بنتے دیکها ہے.

گهر ہی نہیں ہر گلی ، محلہ، کوچہ سب ہرے اور سفید تهے. ایسا نظر آتا تها کہ جیسے کسی بےرنگ سی دنیا میں ایک سنہری ہری پری نے اپنی چهری سے جادو کرکے سب سرسبزوسفید کر دیا ہو. . لیکن 14 اگست کی رات ابر رحمت نے اس جادو کی رنگینیوں پر پانی پهیر دیا. اگلے دن ہر جهنڈی اپنے مرکز سے اتر کر همارے صحن میں رل رہی تهیں. اسی طرح جب کوئی قوم اپنے اصل مقصد اور نظریے سے جدا ہو جاتی ہے تو یونہی دربدر ہوتی ہے. ہمارے لیے وہ جهنڈیاں تو صرف کاغذ کے ٹکڑے تهے لیکن بابا کی جان بستی تهی ان کے وطن کی مٹی میں اور اس سے وابسته چیزوں میں.

ان جهنڈیوں کو دیکه کربابا جان کی آنکهیں نم ہوگئیں اور وہ اپنے کمرے میں چلے گئے. ہم بہت شرمندہ تهے. کچه دیر بعد بابا نے ہمیں اپنے پاس بلایا اور اپنے پرانے صندوق سے کچه نکالنے لگے. پهر بابا نے ہمیں کوئی چار پانچ سال کے بچے کا کرتا دکهایا جو ان کے بهائی کا تها اور بولے " آزادی کے موقع پر جب تمام مسلمانوں کو ہجرت کا حکم ملا تو میں اور میری ماں اور میرا چهوٹا بهائی منہ اندھیرے دہلی سے نکل پڑے . میرے ابو کو تو پہلے ہی وہ ظالم قربان کر چکےتهے لیکن جب ہم آدها سفر طے کرچکے تهے تو ان ظالموں نے مجه سے میرا بهائی اور ماں بهی مجه سے چهین لیے . بیٹا تم کیا جانو کتنی قربانی کے بعد همیں یہ ملک ملا ہے. آزاد فضا میں سانس لینے کا مزہ کیا ہے یہ تم کیا جانو "

بابا کے ان الفاظ نے ہمارے ضمیر کو جهنجهوڑا اور ہم 1947 کے زمانے میں چلے گئے. 14 اگست اور جشن آزادی کو ہم محض ایک تہوار یا ایونٹ سمجه کر مناتےہیں . جس جذبے اور جنون سے ہم ملک کو سجاتے ہیں کاش اسی جذبہ و جنون سے ہم ملک کو سنواریں بهی. چند لوگ جمہوریت اور مزید میٹهی میٹهی باتیں کر کے عوام کو بانٹ لیتے ہیں اور مزے کی بات ہے عوام ان سیاسی مسائل کے لئے ایک دوسرے سے لڑنے بیٹه جاتی ہے. اگر ایک روڈ پر کوئی ٹرک یا رکشہ پهنس جائے اور گزرنے کا راستہ نہ مل رہا ہو تو اس کی مدد کرنے کی بجائے اسے ماں بہن کی گالیاں دینے لگ پڑتے ہیں تب ان کی غیرت کہاں غائب ہوتی ہے وه خود بهی نہیں جانتے. یہ جوش ملک سجانے میں تو نظر آتا ہے مگر تب یہ جنون کہاں ہوتا ہے جب ملک کی خدمت کا موقع آتا ہے ؟ تب یہ جذبہ کہاں ہوتا ہے جب لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ یہاں باقی کیا رہ گیا ہے ؟؟
اس ملک کو درحقیقت ہم نے خود گنده کیا ہے. تب وطن کی مٹی کا یاد نہیں آتا جب چند جاہل لوگ اس مٹی پر تهوکتے ہیں . یہ آزاد فضا ہمیں صرف اس جشن کے لیے نہیں دی گئی تهی . حکومت اور عوام دونوں فرض ہےکہ ملک کی خدمت کریں . آزادی کا مطلب آزاد خیال یا لبرل ہونا نہیں ہے . آزادی کا مطلب خوشی اور جشن منانے کے لیے فائرنگ اور گاڑیوں کے سائیلینسر نکال کر گشت کرنا نہیں ہے . حقیقی معنوں میں یہ آزادی نہیں بربادی ہے . یہ آزادی ہمیں ہمارے قاعدے اور اسلامی اصول رائج کرنے کے لئے دی گئی تهی . ہماری ماوں ، بہنوں ، بیٹیوں کی عزت کے تحفظ کے لیے دی گئی تهی .

متعدد بار یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کا خواب اقبال نے دیکها تها ؟ جواب بہت آسان اور تلخ ہے "نہیں" . اور کیوں ؟؟ وجہ ہے ہم ، ہم سب . تو آئیے اپنے وطن عزیز کی سترویں سالگرہ کے موقع پر اسے تحفہ دیں . تحفہ وفاداری کا ، تحفہ اچهے شہری بننے کا ، تحفہ امن کا ، تحفہ اس کی بقا کا . آئیے تعاون کیجئے. پاکستان زندہ باد

Tahreem farooq
About the Author: Tahreem farooq Read More Articles by Tahreem farooq: 2 Articles with 1896 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.