خودکشی آخرت کی رُسوائی: اسباب و محرکات کا تدارک بھی ضروری ہے

موت ایک زندہ حقیقت ہے۔ زند گی کا وجود ہے۔ موت کا بھی وجود ہے۔ جس طرح کسی شے کی ’’حیات‘‘ کا انکار نہیں کیا جاسکتا، اسی طریقے سے ’’موت‘‘ کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ دُنیا کے وجود کو تو تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن!منکرینِ آخرت دُنیا کے خاتمے کے منکر ہیں۔ قیامت آئے گی۔ دُنیا ختم کر دی جائے گی۔ انسان دُنیا کی تیاری کرتا ہے۔ مختصر زندگی کے لیے ساری تگ ودوہوتی ہے۔ آخرت جو موت کے بعد ہوگی جس کی وسعت کے آگے دُنیا کی قلیل ومعمولی زندگی کی کوئی حیثیت نہیں؛ کی تیاری کی کوئی فکر نہیں۔ آخرت کو بھوٗل بیٹھنا تنزل کی علامت ہے، غفلت کی علامت ہے۔پستی وذلت کی علامت ہے۔

موت کیا ہے؟ موت رب کی عطا ہے۔ ایمان والوں کے لیے انعام ہے۔ اجر و صلا ہے۔ معبودِ حقیقی کی بارگاہِ بے نیاز میں حضوری کا پروانہ ہے۔ موت! حیاتِ تابندہ کی مقبولیت کا انعام ہے۔ موت! محبوبِ حقیقی کے محبوبِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی دیدِ پاک کا ذریعہ ہے۔ موت! قبر کے تیسرے سوال میں مومنین کی تازگیِ روح کا اکرام ہے۔ اﷲ اکبر!انعام ایسا ہے بقول رضاؔ بریلوی ؂
جان دے دو وعدۂ دیدار پر
نقد اپنا دام ہو ہی جائے گا
’’موت‘‘ پروانۂ نجات ہے اور انعامات کا خزینہ بھی، کیسے؟
[۱]حدیث شریف میں ارشاد ہوا: تحفۃالمؤمن الموت(مشکوٰۃ المصابیح،۱؍۳۶۳، حدیث۱۶۰۹)یعنی ایک مردِ مومن کے لیے موت بہترین تحفہ ہے۔
[۲]ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ: الموت ریحانۃالمؤمن(کشف الخفاء،۱؍۲۹۷،حدیث ۹۴۸) یعنی موت، مومن کے لیے کسی پھول(یاگل دستہ) کی مانند ہے (جو تحفہ کے طور پر کسی کو پیش کیا جاتا ہے)
[۳]حضرت عبداﷲ بن عمرو ابن العاص سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دُنیا مومن کے لیے قحط خانہ اور قحط زدہ مقام کی مانند ہے، تو جب وہ دُنیا سے رخصت ہوتا ہے تو گویا اسے قید خانہ اور مقامِ خشک سالی سے رہائی مل جاتی ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح،۱؍۲۹۷،حدیث۹۴۸)(موت کیا ہے؟ افروز قادری،ص۹۔۱۰)

یہ اس موت کے لیے ہے ’’جو تری یاد میں دُنیا سے گیا ہے کوئی‘‘-وہ جو نفس کی شرارتوں کے شکار ہو کر رب کی عطا کردہ زندگی سے فرار اختیار کرتے ہیں اور اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں؛ موت ان کے لیے سوہانِ روح بن جاتی ہے، ایسی موت ’’خودکشی‘‘ کہلاتی ہے، جسے شریعت نے منع فرمایا ہے۔ مصائب و آلام اور تکالیف پر صبر کا حکم ہے۔ مصیبتوں کے بعد راحت ہوتی ہے۔ کلفتوں کی شب کے بعد صبحِ تازہ نمودار ہوتی ہے۔مصائب کے اندھیرے چھٹتے ہیں تو یقین کے اُجالے پھیلتے ہیں۔ جتنی بشارتیں مومنین کی موت سے متعلق ہیں وہ مومنین کے صبر و استقامت کاانعام واکرام ہیں ۔ اسی لیے مرتبۂ شہادت پر فائز ’’مجاہد‘‘ آرزو کرے گا کہ رب کی رضا میں شہادت کا لمحہ بار بار عطا ہو۔ شہادت کی تکلیف بھی مومن کے لیے لذت وسُرور کا درجہ رکھتی ہے۔ لیکن! خودکشی کی اجازت کسی طریقے سے نہیں دی جاسکتی۔ دُنیوی تکلیف کے بعد آخرت کی تکلیف کو گلے لگانا دانش مندی نہیں۔ دُنیا آخرت کی کھیتی قرار دی گئی ہے۔ یہاں جو درد و کرب کی راہوں سے کامیاب گزرے گا آخرت کی ہمیشگی کی راحت مقدر ہوگی۔ ایمان و عقائد کی سلامتی کے ساتھ آنے والی موت میں راحت ہی راحت ہے۔ نعمت ہی نعمت ہے۔

ایک شخص جو بڑی شدت سے دُشمنوں سے مقابلہ کیا اور زخموں سے چوٗر چوٗر ہو کر مرا۔ اس کے بارے میں آقا کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جہنم میں گیا۔ قریب تھا کہ بعض لوگ شک میں پڑ جاتے کہ دریں اثنا کسی نے کہا: وہ مرا نہیں تھا بلکہ اُسے شدید زخم لگا تھا اور جب رات ہوئی تو اُس نے اس زخم کی تکلیف پر صبر نہ کیا اور ’’خودکشی‘‘ کر لی۔(بحوالہ صحیح مسلم،ص۷۰،حدیث ۱۷۸،دار ابن حزم بیروت)

رسول گرامی وقار صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے علمِ وسیع کی بنیاد پر جو فرمایا تھا، تحقیق نے مہرِ تصدیق ثبت کردی۔ وجہ خودکشی تھی۔ اس نے پاکیزہ موت پر حرام موت کو ترجیح دی۔ آج کل ہمارے معاشرے میں خودکشی کی وبا بہت بڑھ گئی ہے۔ جس کے اسباب وعلل یہ ہوسکتے ہیں:
[۱]معاشی مشکلات [۲]رشتوں کی ناچاقی واختلافات [۳]بدسلوکی وظلم [۴]بے راہ روی [۵]حقوق کی پامالی- وغیرہ

ہم مانتے ہیں کہ حالات کے ستائے افراد ہی خودکشی کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں۔ لیکن! یہ زندہ حقیقت ہے کہ اس کا واحد حل ’’صبر‘‘ ہے۔ اور سب سے عظیم قوت ’’اﷲ‘‘ صبر والوں کے ساتھ ہے۔ ایسے انعام سے منھ موڑ کر جہنمی عمل کو گلے لگانا کتنی کم ظرفی اور کیسی محرومی ہے۔ اس رُخ سے بھی معاشرے کے مرد و خواتین کو غور کرنا چاہیے۔ ہم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ صبر وشکر والوں کے لیے انعاماتِ خسروانہ کی بشارتیں موجود ہیں۔ آخرت کی فلاح سے منھ موڑ لینا خلافِ عقل بات ہے۔ اس لیے خدارا! کسی بھی قدم کو اٹھانے سے پہلے یہ غور کر لیں کہ اس میں آخرت کا نفع ہے یا نقصان، اور اﷲ و رسول کی رضاہے یا ناراضی۔ ان شاء اﷲ! نقصان سے بچ کر اخروی اطمینان کو ہی ترجیح دو گے۔جان بڑی قیمتی ہے، یہ رضائے الٰہی کے مطابق جائے تو کامیابی ہی کامیابی ہے۔ نجات اسی میں ہے کہ جانوں کا احترام کریں اور اسے مولیٰ تعالیٰ کی خوش نودی میں دیں ؂
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

خاندان کے بڑوں سے بھی عرض ہے کہ ماحول کی ناہم واری کو کنٹرول کریں۔ غلطیوں پر بجائے ظلم و سختی کے نرمی سے اصلاح کریں۔ محض شک و شبہے کی بنیاد پر منفی رویہ کر لینا غیر مناسب ہے۔ مال کی محبت کی جگہ حسنِ سلوک کی دولت کو فوقیت دیں۔ مال تو آنی جانی شے ہے۔ مال کے لیے زندگیوں سے کھلواڑ اور خواتین کا استحصال کسی طرح مفید نہیں۔ اس لیے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ ’’خودکشی‘‘ کے محرکات واسباب کو ختم کرنے پر توجہ دے۔ ایسے معاملات واقع نہیں ہوں گے تو اس فعلِ قبیح کی یقینا حوصلہ شکنی ہو گی اور معاشرہ برائیوں کے دَل دَل سے نکل کر خوش حالیوں کی شاہ راہ پر گام زَن ہو سکے گا۔ اسی کی آج ضرورت بھی ہے۔
٭٭٭

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 251771 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.