مسائل کاحل اورشیخ چلی کاخواب

اگرہم اپنے کسی مرض کے علاج کے لیے کسی ایسے ڈاکٹرکے پاس چلے جائیں جس کی بڑی شہرت ہو،اس کابڑاسااسپتال ہومگروہ حقیقی طورپرمرض کاماہرنہ ہواوراللہ نے اسے دست شفاعطانہ کیاہوتوکیاہم صحت یاب ہوسکتے ہیں؟اسی طرح جوڈاکٹرصرف کھانسی بخارکاعلاج کرنا جانتاہواس کے پاس اگرہم آپریشن کے لیے چلے جائیں توکیاوہ ہماراعلاج کرسکتاہے ،ہماراآپریشن کرسکتاہے ؟کیوںکہ بڑے مرض کے سامنے چھوٹے ڈاکٹرکی کوئی حیثیت نہیں ہوتی لیکن اگرہم بضدہوں کہ ہم اسی چھوٹے ڈاکٹرسے علاج کرائیں گے کیوںکہ وہ مشہوربھی ہے اوراس کابڑاسااسپتال بھی ہے تویقیناہم اپنی موت کاسرٹی فیکیٹ لے کرآئیں گے ۔یہ مثال دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ ہم نے اپنی قومی وملی زندگی کے مسائل کے حل کے لیے ایسے ہی ’’چھوٹے ڈاکٹروں‘‘کو’’بڑاڈاکٹر‘‘سمجھ لیاہے اوراس کی ’’اونچی دوکان ‘ ‘ دیکھ کراس سے اپنا’’آپریشن ‘‘کرانے پربضدہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملی اورقومی مسائل جوںکے توں پڑے ہوئے ہیں ،رتی بھرمیں ان کوحل نہیں کیاجاسکاہےبلکہ ان ’’چھوٹے ڈاکٹروں‘‘کی وجہ سے مرض بڑھتاگیاجوں جوں دواکی ۔

مجھ جیساطفل مکتب کیسے بتائےکہ کسی بھی مسئلے کاحل اسی وقت نکلتاہے جب کوئی ماہراورحقیقی ذمے داراس کے متعلق اپنی قیمتی رائے دیتا اوراس کا’’علاج ‘‘کرتاہےکیوں کہ وہ بیمارمعاشرے کا’’ڈاکٹر‘‘ہوتاہے۔ اسے معلوم ہوتاہے کہ مرض کی جڑیں کتنی گہری ہیںاوراس کاعلاج کیاہے ۔ہم نے دراصل انہیں ذمے دارسمجھ لیاہے جوحقیقی ذمے دارنہیں ہیںکیوںکہ ہم توشہرت ،دولت اوراپنے تعلقات کے پیچھے سرپٹ بھاگنے والے لوگ ہیں ۔ ہم شہرت سے دھوکہ کھانے کے عادی ہیں۔ہم اپنے پیروں پرکلہاڑی نہیں مارتے بلکہ اپنے پیروںکوکلہاڑی پرمارتے ہیں۔ہم کسی نہ کسی طرح اپنے تعلقات وروابط بحال رکھناچاہتے ہیںاسی لیے ہم حقیقی لوگوں کودوسرے درجے پررکھتے ہیں اورغیرحقیقی ،سطحی اورپرلے درجے کے لوگوںکو پہلےدرجے پربٹھاکران کی ’’ذمے داری ‘‘پرایک اورمہرتصدیق ثبت کردیتے ہیں۔ان سطورکے راقم کا تعلق چوں کہ مسلمانوں سے ہے اسی لیے مسلمانوںکے پس منظرہی میں بات کی جارہی ہے ۔مسلمانوں میں یہ وبادوسری کمیونٹی کے لوگوں کی بنسبت بہت زیادہ ہے اوراس وبانے ہماری پوری کمیونٹی کونگل لیا ہے اوریہ وباہماری رگ وپے ایسی پیوست ہے کہ اس کاعلاج بھی ایک بہت بڑامسئلہ بن کرسامنے آیاہے ۔ہم ٹی وی چینلوں اوراخبارات میں اکثردیکھتے ہیں کہ ہماری کمیونٹی کی نمائندگی وہ لوگ کررہے ہیں جواس کے اہل نہیں ہیںیاانہیں جزوی طورپریاتیسرے چوتھے درجے کااہل قراردیاجاسکتاہے مگریہ دنیاچوں کہ دولت کی ہے ،شہرت کی ہے ،تعلقات کی ہے اورطاقت کی ہے اسی لیے یہ سب چل رہاہے اور ایسا لگتا ہے کہ اب یہ آسانی سے ختم ہونے والانہیں ہے۔

یادرکھناچاہیے کہ ہرسوسائٹی میں قوم کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے ہمیشہ سے دوطرح کے افرادرہے ہیں ۔ایک وہ جوواقعی ذمے دارہوتے ہیں اوردوسرے وہ جنہیں ذمے دارسمجھاجاتاہے ۔ کمیونٹی کے مسائل حقیقی ذمے داروں سے ہی حل ہوتے ہیں ،ذمے دارسمجھے جانے والوں سے نہیں ۔اس لیے جب تک اس بات کاتعین نہ کرلیاجائے کہ ذمے دارکون ہے اورذمے دارنماکون ہے ،مسائل حل کرنے کاخواب شیخ چلی کے خواب کی طرح ہے ۔اس لیے ہمیں تسلیم کرلیناچاہیے کہ ہم شیخ چلی کاخواب دیکھ رہے ہیںکیوںکہ ہم اکثروبیشترحقیقی ذمے داروں کواتنی اہمیت دینے کوتیارنہیں جتنی کہ نام نہادذمے داروںکودیتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ یوں کہہ لیجیے کہ تیسرے اورچوتھے درجے کے لوگوں کو ذمے داروںکی فہرست میں شمارکرتے ہیںیہی وجہ ہے کہ ہم مسائل حل کرنے کے بیٹھتے ہیں مگرمسائل میں اضافہ کرکے ہی اٹھتے ہیں۔ ’’دوا‘‘تلاش کرنے جاتےہیںمگر’’مرض ‘‘میں اضافہ کرکے واپس لوٹتے ہیں ۔آپ سروے کرکے دیکھ لیجیے، آپ کومیرے اس دعوی میں ۸۰فی صدصداقت نظرآئے گی ۔سچائی یہ ہے کہ ہم نے اب تک اپنے مسئلے کاحل شہرت ،دولت اور تعلقات میں تلاش میں کیاہے اورذمے داروں سے کنارہ کشی کرکے نچلے درجے کے لوگوں کوذمے داربنادیاہے ۔ہمیں اپنی کمیونٹی کے مسائل حل کرانے کے لیے ’’چھوٹے ڈاکٹر‘‘ نظر آتےہیں۔ہم ان کی ’’اونچی دوکان ‘‘کے گرویدہ ہیں اور’’پھیکےپکوان ‘‘سے آنکھیں پھیرلیتے ہیں۔اس حقیقت سے کسے مفرہے کہ ٹی وی اوراخبارات میں جواشتہارشائع ہوتے ہیں ان میں اکثروبیشتربلکہ اس سے بھی زیادہ ،یہ جھوٹ پرمشتمل ہوتےہیں۔سمجھ دارلوگ ان اشتہاری باتوں پرکبھی نہیں آتے مگرچوں کہ متواتراشاعتوں سے یہ ہماری نفسیات پرچھائے رہتے ہیں اسی لیے ہماری زبانوںپران کے نام چڑھ جاتے ہیں ۔ ٹھیک یہی مثال حقیقی ذمے داروں اورغیرحقیقی ذمے داروں پرصادق آتی ہے مگرہماری عقل اس وقت چرنے چلی جاتی ہے جب ہم ان غیرحقیقی ذمے داروںکے ’’اشتہارات ‘‘پر’’ایمان‘‘ لے آتے ہیں اوران کی سطحی ،غیرمعیاری اورسرسری ’’تشخیص ‘‘کواپنے مرض کا’’علاج‘‘ سمجھتے ہیں۔یادرکھیے ڈاکٹرہونااوربات ہے اورڈاکٹربن جانااوربات ہے۔ اسی طرح ذمے دارہونااورچیز ہے مگر ذمے دار بن جانایاکہلانابالکل دوسری چیز ہے ۔اکثرایساہوتاہے کہ ’’اونچی دوکانوں‘‘پر’’پھیکاپکوان‘‘فروخت ہوتاہے ۔کوئی بھی ہوشیارگراہک اس ’’اونچی دوکان‘‘کے ’’بورڈ‘‘یا’’بینر‘‘یا’’اشتہارات‘‘پریقین نہیں رکھتا بلکہ اسے دیکھ کرہی آگے بڑھ جاتاہے توپھرہم دینی زندگی ،ملی زندگی اورقومی زندگی میں ان ’’اشتہارات‘‘کواپنے ساتھ لے کرچلنے کے عادی کیوں ہوگئے ہیں؟یہ اتنابڑاسوال ہے جس کاجواب عوام کونہیں بلکہ خواص کوتلاش کرناچاہیے اوربالخصوص ان لوگوں کوجوکھوکھلی شہرت،تعلقات اور’’اونچی دوکان‘‘سے سامان خریدنے کے عادی ہیں۔اپنے دماغ کی ڈائری میں بات نوٹ کرلیجیے کہ ایساکرکے ہم مرض پر مرض بڑھاتے ہی جا رہے ہیں،اس کی سنگینی میں اضافہ کررہے ہیںاوراسے مزیدپیچیدہ تربنارہے ہیں۔اس لیے ہم ببانگ دہل یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے مسائل میں اضافہ زبردستی ذمے دار بن جانے والوں نے کیاہے،حقیقی ذمے داروںنے نہیں۔
 

sadique raza
About the Author: sadique raza Read More Articles by sadique raza : 135 Articles with 189315 views hounory editor sunni dawat e islami (monthly)mumbai india
managing editor payam e haram (monthly) basti u.p. india
.. View More