حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ نے
ارشاد فرمایا : رحم (رشتہ داری )عرش سے لٹکی ہوئی ہے اور کہتی ہے ، جو مجھے
ملائے ، اﷲ اسے ملائے اور جو مجھے کاٹے ، اسے اﷲ تعالی کاٹے ۔
اسلام رشتہ داروں کے ساتھ احسان اور اچھے برتاؤ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
چنانچہ سورۃ النحل میں اﷲ پاک نے فرمایا:بیشک اﷲ (ہر ایک کے ساتھ)عدل اور
احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور
برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا
ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو۔
رشتہ دار مفلس و محتاج ہوں اور کمانے کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو حسبِ استطاعت
ان کی مالی مدد کرتے رہنا اسی طرح ان کی خوشی و غمی میں ہمیشہ شریک رہنا،
صلہ رحمی کرنا اور کبھی بھی ان کے ساتھ قطع تعلق نہ کرنا اسلام کی بنیادی
تعلیمات میں سے ہے۔
حدیث مبارکہ میں حضرت جبیر بن مطعم رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے
حضور نبی اکرمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قطع رحمی کرنے والا کوئی شخص جنت
میں داخل نہیں ہوگا۔
اسی طرح قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ میں رشتہ داروں کے معاشی حقوق پر بھی
زور دیا گیا۔ ارشاد باری تعالی ہے۔
آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اﷲ کی راہ میں)کیا خرچ کریں، فرما دیں جس قدر بھی مال
خرچ کرو (درست ہے) مگر اس کے حقدار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار
ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو
بیشک اﷲ اسے خوب جاننے والا ہے(سورۃ البقرہ، 2 : 215)
علاوہ ازیں احادیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرمﷺنے غریب رشتہ داروں کی معاشی
بحالی پر زور دینے کے ساتھ ساتھ کمزور اقربا ء کے حقوق کی ادائیگی کی بھی
تلقین فرمائی۔
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ابوطلحہ رضی اﷲ عنہ سے
فرمایا یہ (باغ)اپنے غریب اقارب کو دے دو، پس انہوں نے وہ حضرت حسان اور
حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ عنہما کو دے دیا (جو ان کے چچا زاد بھائی تھے)
رشتہ دار پر صدقہ کا دگنا اجر
آپﷺ نے عام افراد پر صدقہ کرنے کے بجائے رشتہ داروں پر خرچ کو بھی ثواب کا
ذریعہ ووسیلہ قرار دیا، اس سے آگے بڑھ کر آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: کہ عام
مسکین پر صدقہ سے تو ایک گناہی ثواب پائے گا لیکن اگر کوئی شخص غریب رشتہ
دار کو صدقہ دیتا ہے تو اس کو دگنا ثواب واجر ملے گا، ایک اجر تو صدقے ہی
کا، دوسرا صلہ رحمی کا اجر۔ (مشکو ۃالمصابیح)
ایک اور موقع پر آپ ﷺنے مال دار عورتوں کو جو اپنے شوہروں پر اور ان کے
بچوں پر خرچ کرتی ہیں انہیں دگنے اجر کی بشارت سنائی، ایک رشتہ داری کا اجر،
دوسرے صدقہ کا اجر۔(بخاری شریف)
زیارت و خبر گیری
کوئی بھی شخص رشتہ داری کا حق ادا نہیں کرسکتا اور نہ ہی رشتے کو جوڑے رکھ
سکتا ہے ، یہاں تک کہ اپنے رشتہ داروں کی درجہ بدرجہ زیارت و خبر گیری کرتا
رہے ۔
ارشاد نبویﷺ ہے کہ : اپنے نسب اور خاندان کے بارے میں اتنی معلومات (تو
ضرور )رکھو جس سے اپنے رشتہ داریوں کو جوڑ سکو ، اسلئے کہ رشتہ جوڑنے سے
اپنے لوگوں سے محبت پیدا ہوتی ہے ، مال میں اضافہ ہوتا ہے اور عمر دراز
ہوتی ہے ۔ (سنن الترمذی )ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اپنی
رشتہ داریوں کو ملحوظ رکھو خواہ سلام ہی کرکے ، (شعب الایمان )
مجسم رشتہ ناتا
سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا: جب اﷲ تعالی
تمام مخلوق کو پیدا کرنے سے فارغ ہوا تو رحم (رشتہ ناتا مجسم ہو کر)کھڑا
ہوا اور اپنے پروردگار کا دامن تھام لیا۔ اﷲ نے فرمایا: رک جا۔ وہ عرض کرنے
لگا کہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں، ایسا نہ ہو کہ کوئی مجھ کو کاٹے (ناتا
توڑے)
اﷲ تعالی نے فرمایا: کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ جو تجھے جوڑے، میں اسے
جوڑوں اور تجھے توڑے، میں اس کو توڑوں؟ اس نے کہا جی ہاں (مجھ سے ایسا ہی
کیجئیے)
اﷲ نے فرمایا: (تجھ سے)ایسا ہی کیا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ
اگر تم چاہو تو اس کی تائید میں یہ آیت پڑھو: اور تم سے یہ بھی بعید نہیں
کر اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناتے
توڑ ڈالو۔
آج کے دور کے اندرآپ کوایسے بہت سے لوگ ملیں گے جو اس حق کو ضائع کر رہے
ہیں اور کچھ اس میں کمی کرتے ہیں۔آپ ایسے لوگ بھی دیکھین گے جو قرابتداری
کا مطلق خیال نہیں کرتے۔ان کی مالی یا اخلاقی لحاظ سے کسی طرح بھی مدد نہیں
کرتے۔کئی کئی مہینے گزر جاتے ہیں،وہ انہیں دیکھتے بھی نہیں۔(نہ)انہیں ملنے
جاتے ہیں نہ ان کو کوئی ہدایہ بھیجتے ہیں بلکہ انہیں ہر لحاظ سے دکھ
پہنچانے کی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں۔
صلہ رحمی کرنے والا؟
کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اگر قریبی رشتہ دار صلہ رحمی کریں تووہ بھی کرتے ہیں
اور اگر وہ تعلقات توڑدیں تو یہ بھی توڑ دیتے ہیں۔ایسا آدمی حقیقتا تعلق
جوڑنے والا نہیں بلکہ یہ تو ادلے کا بدلہ ہے۔دراصل تعلق جوڑنے والا وہ ہے
جو تعلق کو اﷲ تعالی کی خاطر جوڑے اور یہ پرواہ نہ کرے کہ دوسرا بھی اتنا
تعلق جوڑتا ہے یا نہیں جیسا کہ حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اﷲ عنہ سے
روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"ادلے کا بدلہ دینے والا واصل(تعلق جوڑنے والا)نہیں۔صلہ رحمی کرنے والا تو
وہ ہے کہ اگر اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ پھر بھی تعلق جوڑے رکھے۔"
کسی نے رسول اﷲ ﷺ سے پوچھا: اے ﷲ کے رسول! (ﷺ)میرے کچھ رشتہ دار ہیں۔میں ان
سے صلہ رحمی کرتا ہوں لیکن وہ قطع کرتے ہیں،میں ان سے بہتر سلوک کرتا ہوں
لیکن وہ مجھ سے برا سلوک کرتے ہیں،میں ان کی باتیں برداشت کرتا ہوں لیکن وہ
مجھ سے جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔نبی اکرم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا:اگر بات
ایسی ہے جیسی تو نے کہی ہے تو گویا تو نے ان کے چہروں کو خاک آلود کر دیا
اور جب تک تو اس حالت پر برقرار رہے گا،ان کے خلاف اﷲ تعالی کی طرف سے
ہمیشہ تیرا ایک مددگار رہے گا۔(صحیح مسلم)
رشتہ داروں کے ساتھ مالی و بدنی مدد
اہل قرابت اپنے رشتہ داروں کی مالی و بدنی مدد کے زیادہ حقدار ہیں ، اﷲ کے
رسول ﷺکا ارشاد ہے : " تیرے احسان ، صدقہ اور مال کے سب سے زیادہ حقدار
تیری ماں اور تیرے باپ ہیں (پھر )تیری بہن اور تیرا بھائی ہے پھر وہ شخص جو
تیرے قریب سے قریب تر ہو ۔ (مسند احمد ، الطبرانی الکبیر )
ام المومنین حضرت میمونہ ؓبیان کرتی ہیں کہ میں نے ایک لونڈی کو آزاد کردیا
لیکن اﷲ کے رسول ﷺ سے مشورہ نہیں لیا ، جب آپ میرے پاس تشریف لائے تو آپ سے
اسکا ذکر کیا ، آپ نے فرمایا : اگر تم اسے اپنے ماموں کو دے دیتی تو زیادہ
اجر کا باعث تھا (صحیح بخاری و مسلم )
رشتہ داروں کادفاع اور مدد
اگر کسی پر ظلم و زیادتی نہ ہو اور اپنا رشتہ دارکسی جرم کا ارتکاب نہ
کررہا ہو تو اسکی طرف سے دفاع کرنا اور اسکی مدد کرنا بھی اسکا حق ہے ،
ارشاد نبوی ہے : تم اپنے بھائی کی مدد کرو ، وہ ظالم ہو یا مظلوم (صحیح
بخاری )
ایک اور حدیث میں ہے : تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے خاندان و قبیلہ کی
طرف سے دفاع کرے ، بشرطیکہ اسمیں کسی گناہ پر مدد نہ ہو ۔ (شعب الایمان )
قرابت داروں کے انکے علاوہ بھی حقوق ہیں جیسے ان کے دکھ سکھ میں شرکت ،انکے
ساتھ محبت اور خیر خواہی کا جذبہ ، انکے ساتھ حسن سلوک ، وغیرہ ۔
اﷲ پاک ہمیں ان تمام فرامین پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور رشتوں کو
جوڑنے والا بنائے (آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)
|