پروفیسر صابر لودھی مرحوم اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ
15 اگست 1947ء کو ہم تک افواہ کی طرح یہ خبر پہنچی کہ گزری ہوئی رات کو
پاکستان وجود میں آگیاہے ۔ ہمیں کورالی کیمپ پہنچنے کا حکم ملا ۔ہمارا گاؤں
کورالی کیمپ سے بارہ کلومیٹر دور تھا۔ جب ہمارا قافلہ اپنے گاؤں روپڑ سے
روانہ ہوا تو کھیتوں میں پہلے سے چھپے ہوئے ہندووں اور سکھوں نے قافلے پر
گولیاں برسانے شروع کردیں کچھ تو یہاں ہی شہید ہوگئے ٗ جوزندہ بچے وہ مشکل
سے کیمپ پہنچے ۔ بارش تھمنے کانام نہیں لے رہی تھی۔ ندی کے ساتھ کچے راستے
دودو فٹ کیچڑ سے لدھ گئے ٗ قدم اٹھاکر چلنا محال تھا۔ جس کا پاؤں پھسل جاتا
وہ ندی کے گہر ے پانی میں جاگرتا ۔ ہر کوئی اپنی اپنی جان بچانے کی فکر میں
تھا ۔ یہ بارہ کلومیٹر کا فیصلہ آٹھ گھنٹے میں طے ہوا ۔جونہی کیمپ میں
پہنچے تو نوکیلا بانس میری ناف کے نیچے پیٹ میں دور تک گھس گیا ۔درد کی وجہ
سے ایک چیخ نکلی اور خون پانی کی مانند بہنے لگا۔اس لمحے پیاس نے شدت
اختیار کرلی ۔ ایک نشیبی جگہ پر بارش کا پانی جمع تھا۔ مجبوری کے عالم میں
بدبودار اور بدذائقہ گندلے پانی کے ابھی دو گھونٹ ہی پیئے تھے کہ ایک کٹا
ہواانسانی ہاتھ سامنے ابھر آیا ۔میں خوف کے مارے وہاں سے بھاگا۔ کتنے ہی
مسلمان جوہڑ میں کاٹ کر پھینک دیئے گئے ۔پیٹ پر کپڑا باندھ کر بہتے ہوئے
خون کو بند کرنے کی ناکام کوشش کی ۔ متلی اور ابکائیوں نے بے چینی میں مزید
اضافہ کردیا۔ کچھ فاصلے پر ہی میٹھے پانی کا کنواں تھا۔ سوچا یہاں سے ہی دو
گھونٹ صاف پانی مل جائے تو پی لوں۔ جب کنویں کا پانی پیا توکسی بدبخت نے
کنویں کے پانی میں بھی زہر ملا دیا تھا۔ جس سے نہ رکنے والے خونی پیچش شروع
ہوگئے۔ پھر مجھے کچھ یادنہیں کہ میں کس طرح کورالی کیمپ پہنچا اور کس طرح
گاڑی پر سوار ہوکر ایک آزاد وطن پاکستان کے شہر لاہور پہنچا ۔اردو ڈائجسٹ
کے چیف ایڈیٹر اور ممتاز ادیب و صحافی الطاف حسین اپنے انٹرویو میں کہتے
ہیں کہ جب یقین ہوگیا کہ پاکستان بن کے رہے گاتو ہندووں اور سکھوں کا ہمارے
ساتھ رویہ یکسر توہین آمیز ہوگیا ۔وہ ہمیں ناپاک سمجھتے تھے اگر انہیں ہمیں
پانی پلانا پڑتا تو اوک میں پانی انڈیل دیتے اور کھانا پیپل کے پتوں پر رکھ
دیاجاتا۔یہ المناک داستانیں حقائق پر مبنی ہیں ۔ اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ
ہمیں آزادی نصیب ہوئی ۔لیکن قائداعظم محمد علی جناح اور نوابزادہ لیاقت علی
خان کو چھوڑ کر جتنے بھی سیاسی قائدین اور فوجی آمر برسراقتدار آئے تمام کے
تمام نے ہمیں ایک مضبوط اور توانا قوم بنانے کی بجائے مختلف گروہوں میں
تقسیم کردیا ۔ آج پاکستان میں رہنے والوں کی تعداد تو 20 کروڑ سے تجاوز
کرچکی ہے لیکن کوئی پنجابی ٗہے تو کوئی پٹھان ہے ٗ کوئی بلوچی ہے تو کوئی
سندھی ۔کوئی سنی ہے تو کوئی شیعہ ٗ کوئی دیو بندی ہے تو کوئی اہل حدیث ۔کوئی
پیپلز پارٹی کا جیالا ہے تو کوئی مسلم لیگ کا متوالاہے ۔ کوئی پی ٹی آئی کا
جنون ہے تو عوامی نیشنل پارٹی کا سرخپوش ہے ۔ اس طرح پوری قوم کو ٹکڑوں ٗ
گروہوں اور فرقوں میں بانٹ دیاگیا ہے ۔ دفاع وطن کے حوالے سے اوردہشت گردی
کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے افسروں اور جوان جانیں نچھاور کرکے اس ملک کی
آزادی و خود مختاری کو اب تک قائم رکھا ہے لیکن آستین میں چھپے ہوئے دشمنوں
کا سہارا لے کر بھارت امریکہ اور اسرائیل پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی
جستجو کررہے ہیں ۔فرقوں میں بٹی ہوئی قوم میں سے ہی دشمن کو بآسانی ایجنٹ
میسر آجاتے ہیں ۔کیونکہ یہاں ہر شخص نے خود ساختہ پہچان کالباس پہن رکھا ہے
۔ ہم اپنے ہیروز کو بھی فراموش کرچکے ہیں ہم ان مفاد پرست سیاست دانوں کے
بہکاوے میں آکر خو د کو فرقوں میں تقسیم کرتے جارہے ہیں ۔قیام پاکستان کے
وقت ہندو اور سکھوں نے قتل کرنے سے پہلے یہ نہیں دیکھا کہ مرنے والا پنجابی
ہے یا پٹھان ٗ سنی ہے یا شیعہ ۔ ان کا کام تو صرف اورصرف مسلمانوں کو اپنے
آزاد اور خود مختار وطن میں زندہ جانے سے ہر صورت روکنا تھا اور اس وقت
ہجرت کرکے آنیوالے بھی صرف مسلمان اور پاکستانی تھے ۔ایک تجزیئے کے مطابق 9
لاکھ مسلمان عورتوں بچوں اور مردوں کو بے رحمی سے شہید کردیاگیا ۔ بے شمار
ٹرینیں کٹے پھٹے انسانی اعضا سے بھری ہوئی لاہور پہنچیں۔ وہ لوگ خوش قسمت
ہیں جنہیں پاک سرزمین پر قدم رکھنے کی توفیق ہوئی ۔بھارت چھوڑ کر آنے والوں
کو جس طرح مقامی لوگوں نے گلے لگایا اور انہیں اپنا گھر بار ٗ کپڑے روزگار
فراہم کیے اسے ایثار مدینہ کی نئی کہانی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ افسوس کا
مقام تو یہ ہے ہم میں سے ہر شخص اس قدر خود غرض ٗ مفاد پرست ٗ لالچی اور
ضمیر فروش ہوچکا ہے کہ ہمیں آزادی کی کوئی قدر نہیں رہی ۔ ہم اپنے ہی
ہاتھوں سے اپنی قبر کھود رہے ہیں ۔آزاد کی قدر پوچھنی ہے تو وادی کشمیر کے
کشمیریوں سے پوچھیں جو ہر روز اپنے لہو سے نئی داستان حریت رقم کرتے ہیں ۔آزادی
کی قیمت نویدپٹھان جیسے بھارتی مسلمانوں سے پوچھیں جن کو سرے عام انتہاء
پسند ہندووں نے پتھروں سے سنگسار کردیا اور ڈیڑھ ارب مسلمان حکومتوں میں سے
کسی ایک حکمران نے بھارتی حکمرانوں سے احتجاج نہیں کیا۔گائے کا گوشت کھانے
ٗ رکھنے کے الزام پر ہی سینکڑوں مسلمانوں کی شہادتوں کے ساتھ ساتھ ان کے
گھر بار جلائے جاچکے ہیں۔ہم بحیثیت آزادی شہر ی اپنے کشمیر ی اور بھارتی
مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر آواز اٹھانے کی بجائے چھوٹے چھوٹے فرقوں
اورگروہوں میں تقسیم ہوکر اپنی قوت کھوتے جارہے ہیں۔رہی سہی کسر عمران خان
ٗ شیخ رشید ٗ چوہدری پرویز الہی ٗڈاکٹر طاہر القادری اپنی متصبانہ سیاست کو
تسکین دے کر پوری کررہے ۔نواز شریف جوپاکستان کوترقی دے کر عالمی سطح پر
ایک باوقار مقام دلانے کی کوشش کررہا تھا اسے نہ صرف احتجاجی جلسوں اور پے
درپے دھرنے دے کر نااہل کروادیا بلکہ نیب میں بھی اس کے خلاف شکنجہ کسا
جارہا ہے ۔ یہ اس لیے کیا جارہا ہے تاکہ آئندہ کوئی پاکستانی قوم کو مسائل
کی دلدل سے نکالنے کی کوشش نہ کرے۔فوج سیاست دانوں سے شاکی ہے ٗ سیاست دان
فوج کو غاصب سمجھتے ہیں ٗ عدلیہ عوامی مسائل کو چھوڑ کر چند مفاد پرست اور
گھٹیا سوچ کے مالک فسادی اور غیر سنجیدہ سیاست دانوں کی معمولی درخواستوں
کو بھی قابل سماعت قرار دے کر قومی یکجہتی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی
ہے ۔کچھ دیہاڑی داررلوگ سستی شہرت کے لیے کوئی نہ کوئی درخواست لیکر روزانہ
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ پہنچے ہوتے ہیں ۔آئین توڑنے والوں کو تو کوئی
پوچھتا بھی نہیں لیکن عوام کے ڈیڑھ کروڑ ووٹ لے کر حکومت بنانے والوں کو
نااہل قراردے کر گھر بھیجنے میں کوتاہی نہیں کی جاتی بلکہ اسے رونے بھی
نہیں دیا جاتا۔ اگر خدانخواستہ اسی طرح چند مفاد پرست اور فسادی سیاست
دانوں کو کھلا چھوڑ دیاگیا تو مجھے ڈر ہے کہ ہم کہیں یہ آزادی کی نعمت بھی
کھو نہ بیٹھیں ۔جسے حاصل کرنے کے لیے قائداعظم محمد علی جناح نے طویل
جدوجہد کی تھی ۔ |