غلام قوم کا یوم آزادی

ستر سال پہلے کی ایک ایسی دلدوز کہانی جب انگریزوں نے ہندوستان کو خیر باد کہا اور ہندوستان دو ٹکڑو ں میں بانٹا ایک کا نا م پاکستان اور دوسرے کا نام انڈیا رکھا گیا ۔ ان د و آزاد مملکتوں کے لوگوں نے انگریز سے آزادی حاصل کرنے کاجشن 14-15اگست 1947کو دس لاکھ انسانوں کی لاشوں، سوا کروڑ بے گھر ہونے والے لٹے پُھٹے لوگوں کے ارمانوں اور ایک لاکھ مسلمان عورتوں کی لٹ جانے والی عزتوں کی مرقد پر منایا مگر ہمارے اجداد کو یہ معلو نہ تھا کہ جن حالات سے سیر ہوکر وہ ایک نئی دنیا بسانا چاہتے تھے انکی اس دنیا اجاڑنے والے بھی اسی ملک کے چند وہ لٹیرے ہونگے جو آزادی کا صحیح لطف اٹھا رہے ہونگے اور بٹوارے کے اس زخم سے یہ لہو یونہی بہتا رہیگا۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ تو منوں مٹی تلے دفنا دئیے جائینگے مگر انکی حاصل کردہ اس مملکت کا ایک حصہ ان سے ہمیشہ کیلئے کاٹ کر پھینک دیا جائیگا اور یہ جسم کا وہ حصہ تھا جس نے اس جسم کو حاصل کرنے کیلئے ہم سے زیادہ قربانیاں دی تھیں اور اس بٹوارے کی تحاریک یہیں سے اٹھی تھیں جسے ہم نے عضو معطل سمجھ کر کاٹ کرعلیحدہ کر دیا۔اور اس ارض وطن کا دوسرا حصہ بھی آج چیخ چیخ کر اس پر بسنے والوں سے امان مانگ رہا ہے کہ اسے دھرتی ماں کہنے والے بے غیرتوں اور بے ضمیروں نے اسے لوٹ کر کھانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور آج ہماری دھرتی ماں انہی لٹیروں کے رحم و کرم پر خوف زدہ ہوکر اپنے بدن کو ان لٹیروں سے چھپاتی پھر رہی ہے۔ دھرتی کے جسم کو تار تار کرنے میں ہمارے نام نہاد رہنماؤں نے کوئی کسر نہ چھوڑی اور آج جس مقصد کیلئے ہم نے اسے جان کے بازی لگا کر حاصل کیا تھا ہماری دھرتی کے 80فیصد غریب، درمیانے طبقے کے لوگ اور محنت کش در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں مگر انہیں حکمرانوں سے کوئی توقع نہیں رہی اور وہ بے یقینی کی کیفیت میں اپنے ارمانوں کا خون اپنے چہرے پر مل کر اس پر حکمرانی کرنے والوں کی چیرہ دستیوں کی داستان سناتے پھر رہے ہیں۔

جب سے یہ مادر وطن معرض وجود میں آیا ہے ان 70سالوں کی پوری تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں شرمندگی کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ہم نے کیا کھویا کیا پایا اگر ہم اپنے خدا کو حاضر ناظر جانکر ایمانداری سے سوچیں تو اس آزادی میں ہمیں آپس کی نفرتیں،علاقائی تعصب، مذہبی منافرت، برادری ازم،آپس کی ضد اور ہٹ دھرمی، بلا شرکت غیرے ملک پر حکمرانی کرنے کا لالچ، سرمایہ دار اور جاگیر دار کا محنت کش اور غریب کو اپنے رحم و کرم پر رکھنااور اسے اپنے زیر نگیں رکھنے کا منصوبہ، پاکستان کا ایک بازو اپنی آپس کی لڑائیوں اور اپنے اقتدار ہوس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے علیحدہ کر دینا یہ ان سرمایہ داروں اور جاگیردار سیاستدانوں کی ایک گھناؤنی سازش تھی اور انکی اس نا عاقبت اندیشی نے ملک کو دو لخت کر دیا اور اس پر آجتک وہ شرمندہ ہونے کی بجائے خوش ہیں کہ چلو مادر وطن کے ایک بازو سے چھٹکارہ حاصل ہوگیا ۔ کیا ہمارے ضمیر مر چکے ہیں کہ ہم نے آجتک یہ سوچنے کی کوشش ہی نہ کی کہ جس خطے کیلئے ہم نے اپنے بیٹوں کے خون کا صدقہ دیا، جسکے لئے ہماری مائیں اپنے بیٹوں کے غم میں نڈھال ہو کر جا ں بحق ہوگئیں، جسکے لئے ہماری بیٹیوں اور بہنوں کی عزتیں پائمال کی گئیں اور انہوں نے ان تمام چیزوں کو آزادی پر قربان کر دیا کیا وہ سب کچھ اسلئے کیا گیا تھا کہ وہ خطہ جسے ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا اسی میں رہنے وا لے اپنے مسلمان بھائیوں کے حقوق سلب کرکے انہیں اتنا مجبور کر دیا جائے کہ وہ اسلام کے نام پر حاصل کئے جانے والے اس خطے سے علیحدگی پر مجبور ہو جائیں۔ کیا وہ مسلمان نہیں تھے ؟ وہ محب وطن بھی تھے وہ مسلمان بھی تھے انہوں نے بھی مادر وطن کیلئے قربانیاں دی تھیں مگر تاریخ کے اوراق پکار پکار کہہ رہے ہیں کہ جب کسی کے حقوق سلب کئے جائیں ، جب تعصب عروج پر ہو ، جب منافقت کے پردے میں گٹھ جوڑ ہو رہے ہوں، جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کیخلاف جارحیت میں مصروف ہوں ، جب حکومت کرنے کا بھوت سر پر سوار ہو تو پھر ماڈل ٹاؤں ٹاؤں جیسا دلدوز اور دلخراش واقعہ جنم لیتا ہے، بھائیوں کے کانوں میں سیسہ پگھلا کرڈال دیا جاتا ہے، پھر باپ کو انان حکومت کے لالچ میں زندان میں مقید کر دیا جاتا ہے، پھر اس لالچ میں اندھا ہو کر انسان جانور کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور پھر لاالہ الاﷲ کہنے والے ہونٹ سل جاتے ہیں یہاں پر سیالکوٹ کے اصغر سودائی کا یہ لافانی مصرع ایک ضرب المثل کی صورت اختیار کر چکا ہے کہ’’ میں بڑی دیر تک سرور کے عالم میں پاکستان کا مطلب کیا ’’ لاالہ الاﷲ‘‘ گنگناتا رہا اس رات مجھے بڑی میٹھی اور پر سکون نیند آئی خواب بھی بڑے دلفریب دیکھے سب کے پو بارہ نظر آئے سب کے وارے نیارے دیکھے اپنی ترقی کی راہیں بھی بڑی کشادہ محسوس ہونے لگیں۔ دل و دماغ میں خوش امیدیوں کا جشن چراغاں ہونے لگا ۔ ساری رات خوب عیش و نشاط میں گزری۔ نیند میں بھی پاکستان کا مطلب کیا ؟ لاالہ الاﷲ‘‘ کی طربناک گونج میرے کانوں میں رس گھولتی رہی اور میرے پردۂ خیال کو ایک لمحے کیلئے بھی اس فکر نے آلودہ نہ کیا کہ
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل؟
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں‘‘

پاکستان جسکے لئے انہوں نے ہمارے شانہ بشانہ اس قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا آج وہ بازو ہم سے علیحدہ ہو چکا ہے۔ وہ کیا حالات تھے جنہوں نے انکے دلوں میں نفرتوں کی دیوار کھڑی کر دی تھی؟ وہ کونسے اسباب تھے جنہوں نے ہمارے ہی مسلمان بھائیوں کو اس پاک دھرتی پر جسکے لئے انہوں نے تن من دھن کی بازی لگا کر اسے حاصل کیا اور آج وہ ہم سے علیحدہ ہوگئے؟ یہ وہ حالات ہیں جنکے بارے میں 46 سال گزرجانے کے باوجود کسی بھی سیاستدان نے آجتک نہ بتایا اور نہ ہی سوچا۔کیونکہ حکومت کرنے کے اندھے لالچ نے انکی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفقود کر دی ہیں۔ ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا جسمیں تمام مسلما ن بھائی اکٹھے ہو کر دینی ، سماجی، ثقافتی، تمدنی اور سیاسی بنیادوں پر ایک الگ قوم کی صورت میں اپنا تشخص قائم کرینگے۔ اصل میں ہندو کے تسلط سے آزادی کا نام پاکستان رکھا گیا تھایعنی پاک لوگوں کی نگری مگر جب ہم اس سر زمین پر رہنے والے سرمایہ دار اور جاگیر دار سیاستدانوں کے بھیانک کردار دیکھتے ہیں تو وہ ہر طرف مادر وطن کو مختلف طریقوں سے لوٹتے ہوئے نظر آتے ہیں کہیں وہ محنت کش اور غریب کا استحصال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہیں اس ملک کے خزانے کو لوٹتے ہوئے نظر آتے ہیں کہیں وہ بجلی چوری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہیں وہ ترقیاتی کاموں میں کمیشن مافیا کیساتھ ملکر اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کرکے اپنا بینک بیلنس بڑھانے کے چکروں میں ہیں، کہیں غریبوں اور مسکینوں کے نام پر زکواۃ ہڑپ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور اسطرح جب ہم وہ پاک نظریہ جس کی بنیاد پر یہ دھرتی حاصل کی گئی تھی اس نظرئے کی اساس کو دیکھتے ہیں تو ہمارے سر شرم کے مارے جھک جاتے ہیں۔ اگر تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو وہ بڑے بڑے خاندا ن جو انگریز کی غلامی میں ہمارے ملک کی عزت ، آبرو اور غیرت کو چند سکوں اور زمین کے معمولی ٹکڑوں کی خاطر انکے ہاتھوں فروخت کرکے اپنے مذہب ،ملک اور قوم سے غداری کرتے رہے وہی خاندا ن اب بھی جاگیروں کے مالک ہیں اور آج بھی وہ ملک جسے اسلام کے نام پر غریب اور محنت کشوں نے اپنی قربانیوں سے حاصل کیا تھا اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر اسے برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں (انکا نام یہاں لکھنا ضروری نہیں ہے) پہلے بھی یہی غریب اور محنت کش تقسیم ہند سے پہلے مسلمان اور ہندو جاگیردار اور سرمایہ دار کے زیر عتاب اپنی زندگی گزاررہے تھے اب بھی یہی غریب اور محنت کش اپنے پاکستان میں جسکے لئے انہوں نے لاکھوں جانوں کا نظرانہ پیش کرکے اس ملک کو اسلام کے نام پر حاصل کیاآج بھی وہ اسی جاگیردار او ر سرمایہ دار کے زیر عتاب دگرگوں زندگی گزار رہے ہیں اور وہ آج بھی غلام ہی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے وہ ہندو کے غلام تھے اور آج وہ اپنے ہی وطن میں رہتے ہوئے مسلمان وڈیروں ،جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے غلام ہیں انکے لئے آزادی کا تصور آج بھی ایک خواب ہے۔ سرمایہ دار اور جاگیر دار تقسیم ہند سے پہلے بھی شاہانہ زندگی گزاررہا تھا اور آج تو اسکے پاؤں سے لیکر سر تک کڑاھی میں ہیں اور اپنی مرضی سے اسلام کے نام پر حاصل کردہ پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر کھا رہا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ 95 فیصد محنت کش اور غریب جو آ ج بھی اپنے ہی ملک میں ر ہنے والے 5 فیصد معزز لٹیروں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں اور جبر و استبداد کی چکی میں پس رہے ہیں اپنے مادر وطن جسکو انہوں نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیکر حاصل کیا تھا ان پر لازم ہے کہ وہ یوم آزادی کے اس موقع پر عہد کریں کہ وہ اپنے وطن عزیز کو ہر قیمت پر اپنی جان کی بازی لگاتے ہوئے استبدادی اور استعماری قوتوں کے چنگل سے آزاد کروا کر اسلام کے نام پر حاصل کیئے جانے والے اس ملک میں دیانت،امانت، صداقت اور شرافت کا بول بالا کریں گے کہ یہی ہماری پہچان ہے اور یہی ہمارے قائد محمد علی جناح کا فرمان تھا۔تو آئیے 14 ۔اگست کے روز ایکبار پھر ہم عہد کریں کہ ہم آزادی کی خوشی اور اپنے جوش و خروش کا اظہار کھوکھلے نعروں سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے اور وہ مقاصد جنکے کیلئے ہم نے یہ وطن حاصل کیا تھا انہیں عملی جامہ پہنا کر کریں کیونکہ آزادی کے شہیدوں کا لہو پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ اے دھرتی کے رکھوالو ! اٹھو اور اس دھرتی کی عزت کو لوٹنے والے سیاستدان جنہوں نے سرمایہ داری اور جاگیرداری کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور ہمارے مادر وطن کو یرغمال بنا کر تباہی اور بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے انکے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاؤ اور اپنے وطن کی ناموس کو بچا کر آزادی کے شہیدوں کے لہو کو رائیگاں ہونے سے بچا لو ۔

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 140249 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.