وہ کون تھی جو اتنی خوبصورت تھی اور بیمار انسانوں کیلئے
فکر مند رہا کرتی تھی اور چاہتی تھی کہ وہ اپنی زندگی کے حسین اور خوبصورت
لمحات ان بیمار لوگوں کیلئے وقف کردے جو ایسے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں کہ
لوگ ان سے دور بھاگتے ہیں۔ یہ نہ بھولنے والی سحر انگیز شخصیت 9ستمبر
1929کو جرمنی میں لپزنگ میں پیدا ہوئی۔ یہ برلن سے جنو ب میں 50 1کلو میٹر
کے فاصلے پر ایک انتہائی پر رونق شہر ہے جہاں دنیا کی تمام رنگیناں اپنی
پوری آب وتاب سے جلوہ افروز ہوتی ہیں را ت ہوتے ہی ہوٹلوں کی روشنیاں جگمگا
اٹھتی ہیں خوبصورت جوڑے اپنے بچوں کیساتھ ان ہوٹلوں میں انواع و اقسام کے
کھانوں سے لطف اندوز ہونے کیلئے انکا رخ کرتے ہیں اور را ت گئے تک ان
ہوٹلوں میں جرمن اور انگلش ڈانس اور موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ غیر
شادی شدہ لڑکیاں اور لڑکے بھی شام ہوتے ہی ہے گھروں سے باہر موسیقی اور
اپنے ثقافتی رنگوں میں کھو کر خوب خوش طبعی سے محظوظ ہو تے ہیں۔ یہ شہر
رنگا رنگ روشنیوں کا جگمگاتا ہو ا وہ شہر ہے جہاں پر تجارت اپنے پورے زوروں
پر ہوتی ہے اور مختلف انواع و اقسام کی ہمہ طلب چیزیں فروخت ہوتی ہیں جہاں
پر دوسرے شہروں سے بھی لوگ آتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس شہر کے بارے
میں کہا جاتا ہے کہ یہ شہر رومن ایمپائر کے دور سے ہی رئیسانہ اہمیت کا
حامل ہے جہاں پر اشاعت و طباعت اپنے پورے عروج پر تھی۔ اسکا باپ جسکا نام
والٹر فاؤ تھا انتہائی نرم مزاج اور شگفتہ رو انسان تھا اور لکھائی پڑھائی
سے بھی کافی شغف رکھتا تھا اور وہ اشاعت و طباعت کے شعبے سے وابسطہ تھا اور
اسکا یہ کام اپنے عروج پر تھا اور وہ کافی سہل زندگی بسرکررہا تھا ۔ انکا
گھر پیار و محبت کا گہوارہ تھا اور یہ مڈل کلاس فیملی کا وہ گھر تھا جہاں
یہ اپنی ماں باپ اور پانچ بہنوں اور ایک بھائی کیساتھ انتہائی خوش وخرم
رہتی تھی ۔ اسکے ماں اور باپ جہاں پڑھے لکھے تھے وہیں انکا لگاؤ مذہب سے
بھی تھا اور وہ یہاں کے گرجا گھر میں اپنے ماں باپ اور بہنوں کیساتھ ہر
اتوار کو مذہبی رسومات جن میں خاص طور پر دعائیں مانگی جاتی تھیں با قاعدگی
سے شرکت کیا کرتی تھی۔ ابھی یہ چھوٹی بچی ہی تھی کہ جنگ عظیم دوئم نے پوری
دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ شہر کیونکہ ثقافت اور تجارت کا گہوارہ
تھا لٰہذا امریکہ کے اولین نشانے پر تھا جہاں اسکے جہاز روزانہ بمباری کرتے
تھے ۔ اس کی نشو نما اور بچپنا جنگ دوئم کی خوفناک اور ہولناک تباہ کاریاں
دیکھتے ہوئے گزرا۔ والٹر جو کہ ہوائی حملوں اور انکی تباہ کاریوں سے خوفزدہ
تھا اسنے اپنی پانچوں بچیوں کو انکی نانی کے گھر محفوظ پناہ گاہ سمجھتے
ہوئے قریبی دیہات میں بھیج دیا تاکہ اسکے بچے وہاں ا من و سکون سے رہ سکیں
کیونکہ امریکی بمبار طیارے وہاں پر بم نہیں برساتے تھے ۔ اسی دوران امریکہ
نے شدید بمباری کرکے اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا کر لیزپنگ میں تباہی مچا
دی اور اس شہر کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا اور اپنی فوجیں اتار دیں اس شہر
میں دو بدو لڑائی میں بہت سے جرمن شہریوں اور فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئیں اور
اسکے بعد اس شہر پر قبضہ کر لیا گیا۔خوش قسمتی سے والٹر فاؤ محفوظ رہا ۔ اب
انکا یہ پیارا شہر جس میں رنگینیوں اور روشنیوں کی چکا چوند رہا کرتی تھی
دیکھتے ہی دیکھتے امریکی افواج کے قبضے میں چلا گیا اور ایک کھنڈر کا نقشہ
پیش کر رہا تھا۔ جہاں زندگی کی رونقیں نہ صرف ماند پڑ چکی تھیں بلکہ یہ شہر
خوف اور ہولناکی کی ایک ایسی تصویر بنا ہوا تھا جہاں دہشت کے سوا اور کچھ
نہ تھا۔ ایسے میں لیپزنگ کو روس کے حوالے کر دیا گیا اور اسے مشرقی جرمنی
میں شامل کر لیا گیا جو کمیونسٹوں کے کنٹرول میں تھا اور یہاں کی معیشت کی
حالت زار انتہائی کمزور تھی اور لوگ کسمپرسی کی حالت میں رہ رہے تھے۔اسکا
ایک چھوٹا بھائی جو بیمار تھا ہر وقت اسے گود میں لئے ہوئے اپنا ذیادہ تر
وقت اسکے ساتھ ہی گزارا کرتی تھی آخر کار جنگ کی تباہ کاریوں نے اور خوف و
ہراس نے اسکے اس چھوٹے بیمار بھائی کو موت کی وادی میں دھکیل دیا جسکا اسے
از حد افسوس ہوا ۔ یہ لڑکی جنگ کی تباہ کاریوں میں زخمی ہونیوالوں کی خدمت
اور انکی تیمار داری میں گزاراتی تھی اور اسنے عہد کر لیا کہ وہ ڈاکٹر بن
کر ملک اور قوم کی خدمت کریگی۔ وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی مگر شومئی
قسمت کہ اسکا ایڈمشن فارم مسترد کر دیا گیا جسکا اسے کافی افسوس رہا مگر
اسنے ہمت نہ ہاری ۔ والٹر اسی تگ و دو میں تھا کہ کسی طرح وہ مغربی جرمنی
چلا جائے کیونکہ مشرقی جرمنی میں اسکے لئے اتنے مواقع نہیں تھے اور وہ دن
رات کوشش میں رہتا تھا کہ وہ مشرقی جرمنی کو چھوڑ جائے ۔آخر کار اسنے ہمت
کرکے ایک روز سرحد پار کر لی اور وہ مغربی جرمنی میں داخل ہو گیا اور اسنے
جرمنی کے شہر وزباڈن کو اپنا مسکن بنا لیا جہاں پر اسنے کافی محنت کی اور
ایک مرتبہ وہ پھر اپنے اسی پیشے سے منسلک ہو گیا اور اسنے یہاں بھی اشاعت و
طباعت کا کام شروع کر دیا۔ جب اسنے اپنے اشاعت و طباعت کے اس پیشے میں قدم
جما لئے اور کافی پیسے جمع کر لیے تو اسنے اپنی بیٹی کو مغربی جرمنی کے شہر
وزباڈن میں آنے کی دعوت دی دے۔ ایک روز پروگرام بنا کر اور اپنی ماں سے
مغربی جرمنی جانے کی اجازت لی آخر ایک روز اسنے بارڈر کا رخ کیا اور بارڈر
کو عبور کرنے کیلئے چھپتے چھپاتے خار دار تاروں کو پھلانگنے کی کوشش میں
وہاں ڈیوٹی پر موجود بارڈر پولیس نے پکڑ لیا مگر منت سماجت کے بعد اسے چھوڑ
دیا اور وہ بارڈر عبور کرکے مغربی جرمنی اپنے باپ کے پاس پہنچ گئی۔ وہ وہاں
اپنے باپ کیساتھ رہتی اور ہسپتال میں جا کر زخمیوں اور بیمار لوگوں کی خدمت
کرتی اور انکی تیمار داری اور مرہم پٹی بھی کرتی تھی وہ بچپن سے ہی انتہائی
حساس واقع ہوئی تھی اور اسکی خواہش رہا کرتی تھی کہ وہ ڈاکٹری کا پیشہ
اختیار کرکے اپنی خدمات سے بیماروں کی مدد کرے۔ کچھ عرصے کے بعد اسکی ماں
اور بہنیں بھی مغربی جرمنی میں ہی منتقل ہو گئیں اور وہ سب ایک بار پھر
اکٹھے ہو گئے اور ہنسی خوشی اپنی زندگی گزارنے لگے۔ وہ صبح سویرے اپنے مشن
پر نکل جاتی اور ہسپستال جا کر زخمی فوجیوں اور پناہ گزینوں کو ادویات دیتی
اور انکی مرہم پٹی کرتی۔ وہ کہتی تھی کہ اسے بیماروں کی خدمت کرنے میں سکون
اور روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ وہ انتہائی مذہبی اور انسانیت کا درد رکھے
والی انتہائی حلیم طبع لڑکی تھی جو آخر کار اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی
اور اسے مینزیونیورسٹی میں داخلہ مل ہی گیا جہاں اسنے میڈیسن کی تعلیم حاصل
کی اسکے بعد وہ ماربرگ کی یونیورسٹی میں چلی گئی اور بعد میں اسنے بون
یونیورسٹی سے گائنا کالوجی میں انفرادی اور خصوصی ڈگری لی اور تربیت حاصل
کی اسطرح اس لڑکی نے اپنا کام شروع کر دیا۔ اسی دوران وہ بہت سے مذہبی
سکالرز اور پادریوں سے ملی جہاں اسنے اپنے آپکو انسانیت کی خدمت کیلئے
ہمیشہ کیلئے وقف کرنے کا عہد کیا اور وہ اس کار خیر میں شامل ہو گئیں۔ وہ
1956ء میں پیرس گئیں جہاں انہوں نے اپنے والد کی مخالفت کے باوجود خود کو
انسانیت کی خدمت کیلئے ــ’’ــحضرت مریم کی قلبی بیٹیوں ‘‘ نامی ایک تنظیم
کو نن کے طور پر پیش کرکے جذبہ انسانیت سے سر شار اور بھرپور اس لڑکی نے
انسانیت کی خدمت شروع کر دی۔
جب پاکستان آزاد ہوا تو گوناں گوں مسائل کا شکار تھا ۔ بیماریاں ، تعلیم،
روزگار اور نہ جانے کون کون سے عفریتیں اپنا منہ پھاڑے تکلیفوں اور مصیبتون
میں گھری ہوئی قوم کے چاروں طرف منڈلا رہی تھیں جن میں سے ایک خوفناک
بیماری جذام اور کوڑ ھ تھا۔ یہ اتنا خوفناک مرض تھا کہ اس مرض میں مبتلا
شخص موت اور زیست کی کشمش میں اپنے جسم کو سڑتا اور گلتا ہوا دیکھتا تھا
مگر وہ انتا بے بس ہوتا تھا کہ اپنے سڑتے اور گلتے ہوئے جسم سے علیحدہ ہونے
والے گوشت کے ٹکڑوں اور ان میں چلتے پھرتے کیڑوں کیلئے کچھ نہ کر سکتا تھا۔
اسکا تعفن ذدہ جسم دوسروں کیلئے انتہائی نفرت آمیز ہوا کرتا تھا۔ کراچی
جیسے گنجان آباد شہر میں کوڑھیوں کیلئے ایک علیحدہ احاطہ بنایا ہوا تھا
جہاں ان کوڑھیوں کر رکھا جاتا تھا اور کوئی شخص انکے قریب جانے کو تیار نہ
ہوتا تھا۔ لوگ اپنے پیاروں کو ان احاطوں میں چھوڑ جایا کرتے تھے انکے برتن
اور کھانے پینے کی اشیاء بھی علیحدہ کر دی جاتی تھیں اور کوڑھ اور جذام میں
مبتلا یہ لوگ اپنی موت تک یہیں اپنی زندگی کے دن گن گن کر پورا کیا کرتے
تھے۔ انکے علاج کیلئے نہ تو کوئی دوائی تھی اور نہ ہی کوئی مسیحا جو انکی
اس بیماری میں انہیں امید کی کرن دکھاتا۔ گویا اس احاطے میں یہ کوڑھی جنکے
سامنے انکے اپنے ہی پیارے پانی اور روٹی ایسے ڈال جایا کرتے تھے جیسے کسی
کتے کو بھی نہیں ڈالی جاتی مگر یہ انکی مجبوری تھی۔ انکے جسم سے اٹھنے والا
جذام اور کوڑھ کا رستا ہوا بدبو دار پانی اور انکے جسم سے علیحدہ ہونے والے
گوشت کے ٹکڑے اور اذیت سے تڑپتے ہوئے یہ لوگ نا قابل دید تھے۔ کہتے ہیں کہ
قدرت جب مہربان ہو جائے تو بڑی بڑی بلائیں ٹالنے کیلئے انسانوں میں ہی سے
ایسے فرشتے پیدا کر دئے جاتے ہیں جو اپنے عزم، ریاضت اور ثابت قدمی سے
تقدیر کو بھی شکست دے دیتے ہیں۔ایسے میں ان بے سہارا ، نا امید اور اپنی
بیماری کی خلاف جنگ لڑتے ہوئے ان مریضوں کیلئے ایک ایسی لڑکی جسے میں’’ مرد
قلندر‘‘ کا نام دونگا اسنے اپنے ملک میں پاکستان کے جذام اور کوڑھ میں
مبتلا لوگوں کی درد بھری فلم دیکھی جس نے اس لڑکی کے دل میں وہ گہرے اثرات
چھوڑے کہ اسنے تہیہ کر لیا کہ وہ اپنی خدمات پاکستان کے ان بے بس اور بے
سہارا جذام اور کوڑ ھ کے مریضوں کی خدمت اور علاج کیلئے پیش کرکے انہیں اس
مرض سے نجات دلائے گی۔ وہ 1960ء میں جرمنی سے پاکستان تشریف لائیں اسوقت وہ
اپنے عنفوان شباب پر تھیں اورانہوں نے ابھی اپنی زندگی کی اکتیسویں بہار
میں قدم رکھا ہی تھا کہ انسانی جذبے سے سرشار اور بھرپور انتہائی خوبصورتی
کے عالم میں اپنی خدمات پاکستان کے ان کوڑھیوں اور جذامیوں کیلئے وقف کردیں
جو بے یا رو مدد گارایک مسیحا کے انتظار میں ایڑیاں رگڑ رہے تھے ۔ جوانی کی
یہ عمر اپنی چاہتیں اور خواہشیں پوری کرنے اور اسمیں رنگ بھرنے کی ہوتی ہے
مگر اس انتہائی خوبصورت اور شباب کی رعنائیوں سے بھرپور اکتیس سال کی لڑکی
نے جو جرمنی کے انتہائی پر رونق اور خوبصورت شہر ویز باڈن میں اپنے پانچ
بہنوں اور ماں باپ کیساتھ رہتی تھی اور اپنے باپ کیساتھ انتہائی پیار کرتی
تھی اور اسکی دوست تھی نے آخر کار یہ فیصلہ کیا کہ انسان سے بڑھ کر کوئی
چیز نہیں ہے اور اسنے رخت سفر باندھ لیا اور اپنے پیارے اور خوبصورت
رنگنیوں اور روشنیوں سے چکا چوند شہر ویز باڈن ، اپنی سہیلیوں ، ماں باپ،
بہن بھائیوں، عزیز و اقاار ب اور گھر بار پر آخری نگاہ ڈال کر پاکستان کے
سفر پر روانہ ہو گئی۔ اس 31سالہ لڑکی نے انسانیت کے جذبے سے سرشار ہو کر
کراچی جیسے شہر کے میکلوڈ روڈ کے پچھواڑ ے میں جہاں آجکل ’’روزنامہ جنگ ‘‘
اخبار کا دفتر واقع ہے ایک انتہائی فرسودہ ماحول کے گندے سے محلے میں ایک
چھوٹے سے مکان میں قائم بدبودار کلینک جو کہ 1956 ء میں قائم ہوا اور اسے
ایک عام سے لوگوں پر مشتمل گروپ جس میں ایک بیٹریکس نامی خاتون، سر برنک
ورکاس، سر میری ڈویا لے اور ڈاکٹر این روشز شامل تھے اپنی مدد آپ کے تحت یا
پھر تھوڑی بہت خیرات یا معمولی سے فنڈات پر چلا رہے تھے۔ یہا ں پر نہ تو
ادویات تھیں، نہ ہی اس مکان نما کلینک میں کوئی صفائی کے انتظامات تھے، جگہ
جگہ سے دیواروں کا پلستر اکھڑا ہوا تھا، پانی انتہائی گندہ تھا جو پینے کے
قابل نہ تھا، مچھروں ، مکھیوں اور کھٹملوں کی بہتات ، جذام اور کوڑھ میں
مبتلا مریضوں کی پاؤوں کی انگلیاں چوہوں کی آماجگاہ ہونے کیوجہ سے جگہ جگہ
سے کتری ہوئی، کھلی ہوئی گند سے بھری نالیاں ، تعفن ذدہ ماحول اور سب سے
بڑی بات کہ یہ گھر نما کلینک بجلی سے محروم تھا، شدید گرمی میں جینا محال
مگر اسکے باوجود اس لڑکی نے اپنی تمام تر خواہشات کو بالائے طاق رکھ کے اس
بحر مردار میں قدم رکھ کر اسے زندگی کے ایک بحر بیکراں میں تبدیل کر
ادیااسنے لوگوں سے روابط بڑھائے جگہ جگہ مخیر حضرات سے چندے کی اپیل کی
مریضوں کیلئے ایک ایک پائی مانگی انکے کیلئے زخموں پر باندھنے کیلئے ادویات
اور پٹیاں اکٹھی کی جاتیں ، مریضوں کیلئے کھانے کا بندو بست کیا جاتا اور
یہ نوجوان لڑکی کوڑھ اور جذام میں مبتلا ان لوگوں کو جنکے گھر والے انہیں
یہاں بے یا رو مدد گار چھوڑ جاتے تھے اپنے ہاتھوں سے انکی مرہم پٹی کر تی ۔
ان سے باتیں کرتی انکا دل بہلاتی، انہیں گلے لگا کر تسلی دیتی اور ان میں
جینے کی رمق پیدا کرتی ۔ اس کوڑھ اور جذام کے اس کلینک کا نام میری ایڈلیڈ
لیپراسی سینٹر رکھا گیا ۔ اگر ہم خوبرو اور خوبصورت 31سالہ رُتھ کیتھرینا
مارتھا فاؤ کے ساتھ کام کرنے والے ان رضا کاروں کا نام نہ لیں جنہوں نے اس
کام کو آگے بڑھانے میں اپنا کلیدی کردا ر ادا کیا تو یہ انکے ساتھ نا
انصافی ہوگی آئیں دیکھیں کہ یہ کون لوگ تھے انمیں ڈاکٹرآئی کے گل کی خدمات
کو سراہتے ہوئے ہم انہیں بھی خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے پیش پیش اس
بیماری سے جنگ کرکے اسے ختم کرنے میں اپنا حقیقی کردار ادا کیا۔ ان لوگوں
میں ایک پاکستانی خاتون ڈاکٹر زرینہ فاضل بھائی نے پیرا میڈیکل سٹاف،
ڈاکٹروں اور نرسوں کیلئے تربیتی پروگرام بھی شروع کئے اور جذام اور کوڑھ کے
امراض کے بارے میں خصوصی تربیت بھی دی ۔ڈاکٹررتھ فاؤ نے اس مرض کو جسے خدا
کی مرضی اور عذاب کا نام دیا جاتا تھا اپنی بھرپور صلاحیتوں، کوششوں اور
حقیقی جذبہ انسانی سے سرشارہوکر قدرت کو اس جنگ میں مات دی اور ساٹھ ہزار
مریضو ں کو اس موزی مرض سے نجات دلائی جو ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ ڈاکٹررتھ
فاؤ جو کہ انسانی جذبے سے سرشار تھیں انہوں نے پاکستان کے دوسرے شہروں میں
بھی اپنی خدمات انجام دیں اور راولپنڈی، بلوچستان، سندھ، این ڈبلیو ایف پی
، شمالی علاقہ جات اور آزاد جموں کشمیر میں بھی اپنی خدمات سر نجام دیں اور
جذام اور کوڑھ کے مریضوں کیلئے ہسپتال قائم کیئے یہاں تک کہ افغانستان میں
بھی اپنی خدمات پیش کیں اور وہاں پر مریضوں کا علاج کر کے انہیں رو بصحت
کرنے میں اپنا حقیقی کردار ادا کیا۔ انہوں نے اس دائرہ کار کو بڑھا کر ٹی
بی کے امراض اور امراض چشم کے مریضوں کی بھی خدمت کیلئے ہسپتال میں ایک
وارڈ ٹی بی اورآنکھوں کا بھی قائم کیا گیا جہاں ا نہیں مفت ادویات فراہم کی
جاتی ہیں۔ انہوں نے جذام اور کوڑھ سے روبصحت ہونے والے مریضوں کو اس ہسپتال
میں ملازمتیں بھی فراہم کیں تاکہ انمیں مریضوں کی خدمت کا جذبہ پیدا ہو
سکے۔اس خاتون نے اپنے آبائی ملک جسکا فاصلہ پاکستان سے پانچ ہزار تین سو
کلومیٹر ہے جذبہ انسانی سے سر شار ہوکر اپنی تمام زندگی کو انسانیت کی فلاح
کیلئے وقف کردیا اور ساری عمر شادی نہیں کی ۔ اس خاتون نے جرمن زبان میں
پاکستا ن میں رہتے ہوئے اپنے کام کے بارے میں چار کتابیں بھی لکھیں جو
لائبریری میں موجود ہیں اور انہیں بڑ ے شو ق سے پڑھا جاتا ہے ۔ جب وہ جرمنی
میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں تو وہاں انکا ایک دوست تھا جس سے وہ شادی کرنا
چاہتی تھیں وہ کہتی ہیں کہ وہ مجھے آج بھی یاد آتا ہے مگر میں نے اپنے پیشے
اور انسانی خدمت سے شادی کر لی ہے اور اب میرے بہن بھائی، ماں باپ، عزیز و
اقارب، دوست، میرا ملک ، میری زندگی کے ساتھی صرف اور صرف میری یہی خدمت ہے
جس سے مجھے دلی تشفی اور اطمینان حاصل ہو تا ہے۔ جب میں کسی مریض کو اپنے
ہاتھوں سے روبصحت ہوتے دیکھتی ہوں تو میرے لئے اس سے بڑا خدائی تحفہ کوئی
اور نہیں ہوتا۔ڈاکٹر رتھ فاؤ نے جہاں بڑے بڑے ہسپتال قائم کئے وہیں ان
ہسپتالوں کی بنیادوں میں نہ صرف لوگوں کی مالی امداد شامل ہے بلکہ ان
عمارات کی بنیادوں میں ہمدردی، شفقت، رحم دلی، پیار ، محبت اور وہ انسانی
جذبات بھی شامل ہیں جنہوں نے ان ہسپتالوں کی عمارات کو خوبصورتی بخشی ہوئی
ہے کوئی عمارت ، کوئی ہسپتال، کوئی اسکول، کوئی خدمت کا ادارہ انکے بغیر
ناکارہ ہے ۔ ہمارے یہاں ایسے بدبخت لوگ بھی تھے جو انکے اس جذبے سے حاسد
تھے اور وہ انکی شہرت کی بلندیوں سے خوفزدہ تھے اور بعض اوقات تو ایسے
مواقع بھی دیکھنے میں آئے کہ توہم پرستوں نے ان پر لاٹھیوں سے حملے بھی کئے
مگر اس خاتون نے ہمت نہ ہاری اور اپنے مشن پر قائم رہی۔ انہیں پاکستان اور
اسکے لوگوں سے بہت پیار تھا وہ اس ملک کو پھلتا پھولتا اور تبدیل ہوتا ہوا
دیکھنا چاہتی تھیں وہ کہا کرتی تھیں کہ میرا کام لوگوں کی خدمت کرنا ہے اور
میں ان تمام نا مساعد حالات سے جنگ کرکے اپنے وجود کو قائم رکھنا چاہتی ہوں
تاکہ میں کسی کے کام آ سکوں۔ وہ کافی عرصے سے بیمار تھیں مگر اپنے آبائی
وطن جرمن نہ گئیں جبکہ ہمارے امراء اور حکمران اپنے وطن کو چھوڑ کر بیرونی
ممالک میں علاج کیلئے جاتے ہیں اور ڈاکٹر رتھ فاؤ جیسی با ہمت خاتوں جس نے
اپنے پیارے وطن جرمینی کو خیر باد کہہ کر انسانی جذبے سے سرشار پاکستا ن کو
اپنا مسکن بنایا وہ ان سیاستدانوں کے منہ پر طمانچہ ہے اور ہمارے حکمرانوں
اور امراء کو شرم سے ڈوب مرنا چاہئے کہ ایک غیر ملک سے آئی ہوئی خاتون نے
پاکستان کواپنا اوڑھنا بچھونابنا لیا اور وہ مرتے دم تک یہیں رہیں۔انہوں نے
ان گنت میڈل اور سرٹیفیکیٹ حا صل کیے جن میں ہلال امتیاز، تمغہ ہلال
پاکستان، نشان قائد اعظم اور ان گنت میڈل ہیں جسن سے انہیں نوازا گیا جو
انکی خدمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کوئی سیاسی حکومت ہو یا پھر ڈکٹیڑ شپ سب
نے انکی خدمت کو سراہا اور سب ہی اسکی اس خدمت کے گرویدہ تھے۔ انکی ان
کوششوں سے عالمی ادارہ صحت نے 1996ء میں پاکستان کو جذام اور کوڑھ سے پاک
ملک قرار دی دیا جو ایشیا کے چند اولین ممالک میں سے ایک تھا۔ اور یہ سب
ڈاکٹر رتھ فاؤ کی بدولت ہوا اس خاتون نے آرام کی پرواہ کیے بغیر دن رات
محنت اور لگن سے مریضوں کیلئے اپنی خدمات کو وقف کیا اور31سال کی پر شباب
عمر سے لیکر 88سال کی عمر تک 55سال کا ایک طویل عرصہ اپنے وطن جرمنی سے
5300کلو میٹر دور رہ کر بغیر کسی سہارے کے ایک ایسے ملک میں گزارہ جہاں کے
امراء، حکمران اور نوکر شاہی اپنا علاج کروانا پسند نہیں کرتے اور وہ یورپ
اور امریکہ کا رخ کرتے ہیں ہم اس خاتوں کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں جسے
بڑھاپے میں بغیر کسی سہارے کے 88سال کی عمر میں طبیعت ذیادہ خراب ہونے
کیوجہ سے کراچی کے آغا خان ہسپتال میں 4۔اگست 2017 ء کو داخل کروایا گیا
جہاں 6 اگست کو انکی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی اور انہیں وینٹیلیٹر پر رکھا
گیا مگر وہ خاتون جو دوسروں کی زندگی کیلئے جنگ کرتی رہی آج اپنی زندگی کی
جنگ ہار گئی اور 10اگست2017ء بروز جمعرات کو اسکی روح قفس عنصری سے پرواز
کر گئی اور ہمارے لئے ان گنت ایسے سوالات چھوڑ گئی جن کے جوابات ڈھونڈھنا
نہ صرف مشکل بلکہ انتہائی حیران کن بھی ہیں۔ |