’’میں آج قیامت لگ رہی ہوں نا۔‘‘
عاصمہ نے ایک ادا سے جسم کو لہرایا اور کسی ماڈل کے انداز میں دو قدم چل کر
لیلیٰ کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ لیلیٰ اپنی درسگاہ کے احاطے میں درختوں کے سائے
تلے بچھائی گئی ایک بینچ پر بیٹھی ہوئی جوس پی رہی تھی اور اس کے سامنے اس
کی عزیز سہیلی عاصمہ لہراتی بل کھاتی اپنے نئے کپڑوں کی نمائش کر رہی تھی۔
لیلیٰ خاموش رہی تو عاصمہ نے دوبارہ کہا:
’’میں کیسی لگ رہی ہوں ؟‘‘
’’تم کپڑ ے پہن کر بھی برہنہ لگ رہی ہو۔‘‘
لیلیٰ نے بے نیازی سے جوس کا ایک سپ لیتے ہوئے اس کے لباس پر تبصرہ کیا۔
’’وہاٹ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’سچ کہہ رہی ہوں ۔ یہ لان کا پرنٹ ہے تو بہت شاندار، مگر اس سے تمھارا
پورا جسم جھلک رہا ہے ۔ آستینیں تو تم پہننے کی عادی ویسے ہی نہیں ہو۔ مگر
اس لباس میں تو بازوؤں کے ساتھ تمھارے کندھے بھی برہنہ نظر آ رہے ہیں ۔‘‘
’’ویل ویل میڈم! ڈونٹ کنڈم می۔ میں نے آپ کے کہنے سے یہ ایسٹرن ڈریس پہنا
ہے ۔ ورنہ مجھے صرف جینز اور ٹی شرٹ پسند ہے ۔‘‘
’’یہ آدھی بات ہے ۔ پوری بات یہ ہے کہ ٹائٹ جینز اور چست سلیو لیس ٹی شرٹ۔‘‘
’’اور کیا یہاں برقعہ پہن کر آؤں ؟‘‘، عاصمہ نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔
’’عاصمہ یہاں لڑکے بھی پڑھتے ہیں ۔ ہمیں محتاط رہنا چاہیے ۔ یہ ہماری ذمہ
داری ہے ۔‘‘، لیلیٰ نے اسے ناصحانہ انداز میں سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’سوری یہ تمھاری رائے ہے ، ورنہ ذمہ داری تو ان لڑکوں کی ہے کہ اپنی نظریں
جھکا کر رکھیں ۔ کوئی مولوی انھیں یہ کیوں نہیں بتاتا۔‘‘
’’یقیناً یہ ان کی ذمہ داری ہے ، مگر کیا ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے ؟‘‘
لیلیٰ کے اس جواب پر عاصمہ تنک کربولی :
’’کیا ہم اپنی پسند کے کپڑ ے بھی نہ پہنیں ؟ خوبصورت بھی نظر نہ آئیں ؟‘‘
’’ضرور پہنو اور ضرور خوبصورت لگو، مگر حیا کے دائرے میں رہتے ہوئے ۔‘‘
’’بس کرو یار۔ یہاں ایک میڈم شائستہ ہیں جو ہر وقت ایسے ہی موڈسٹی پر لیکچر
دیتی رہتی ہیں اور دوسری تم ہو۔ سنو! ان کے نقش قدم پر مت چلو ورنہ ان کے
جیسا ہی انجام ہو گا۔ ساری زندگی گھر بیٹھی رہ جاؤ گی موڈسٹ بن کر۔ تمھاری
بھی کہیں شادی نہیں ہو گی۔‘‘
’’عاصمہ بری بات ہے ۔ اتنی اچھی اور نیک ٹیچر ہیں اور تم ہو کہ ان کا مذاق
اڑ ا رہی ہو۔ ان کی شادی نہیں ہوئی تو اس میں ان کی موڈسٹی کا نہیں ہمارے
معاشرے کا قصور ہے ۔‘‘
’’ارے چھوڑ و یار یہ فضول بحث۔ یہ دیکھو یہ جو لان کا پرنٹ میں نے پہنا ہے
وہ سپر ماڈل ایکٹریس چمپا نے لانچ کیا ہے اور اس کا ڈیزائنز بھی انٹرنیشنل
شہرت کا مالک ہے ۔ پتہ ہے ایک سوٹ بیس ہزار کا ہے ۔ تم نے تو ایگزیبیشن میں
جانے سے انکار کر دیا تھا، مگر وہاں بڑ ا مزہ آیا۔ آخر میں فیشن شو بھی
تھا۔ اسی میں چمپا نے یہ اسٹائل پہنا تھا جسے میں نے کاپی کیا ہے ۔ تم بھی
بنوالو۔‘‘
’’اور اس کے بعد میرے گھر والے مجھے گھر سے نکال دیں گے ۔‘‘
’’ڈونٹ و وری۔ میں تمھیں اپنے ہاں رکھ لوں گی۔ ویسے بھی تمھارے گھر والے
بڑے آرتھوڈوکس ہیں ۔ تمھاری امی۔ ۔ ۔ ناعمہ آنٹی ہیں تو اچھی خاتون، بس
ہروقت مذہب کی باتیں کرتی رہتی ہیں اور تمھارے ابا۔ ۔ ۔ عبداللہ انکل۔ ۔ ۔
وہ تو لگتا ہے کہ ساری دنیا میں اسلام پھیلا کر ہی دم لیں گے ۔ ایسے ہی
تمھارے باقی بہن بھائی ہیں ، بس ایک تمھارے بڑ ے بھائی جمشید ہی ڈھنگ کے
ہیں ۔ اسی لیے شاید تم لوگوں کے ساتھ نہیں رہتے ۔‘‘
’’ابا تو سمجھتے ہیں کہ وہی سب سے زیادہ ان سے دور ہو چکے ہیں ۔ اور بقول
امی کے انھوں نے مجھے بھی خراب کر دیا ہے۔‘‘
’’کیا خرابی ہے تم میں ۔ تم تو مجھے ویسے ہی بڑ ی نیک لگتی ہو۔‘‘
’’میں اور نیک؟ بس مارے باندھے بچپن کی عادت کی بنا پر نماز پڑ ھ لیتی ہوں
۔ باقی میں تمھارے ساتھ رہ کر تمھارے جیسے ہی کام کرتی ہوں ۔‘‘
’’مگر یہ تو دیکھو کہ میرے ساتھ مزہ کتنا آتا ہے ۔ پچاس برس کی زندگی ہے ۔
خوب کھاؤ پیو اور انجوائے کرو۔‘‘
’’ہاں تمھارے ساتھ مزہ تو آتا ہے ، مگر ابو کہتے ہیں کہ آخرت میں اگر ایک
دن کے لیے بھی پکڑ ہوگئی تو وہاں کا ایک دن ہزاروں برس کا ہوتا ہے ۔ اس میں
پچاس سالہ زندگی کا سارا نشہ ہرن ہوجائے گا۔ ان کی تربیت سے میری امی،
بہنیں اور بھائی انور سب ہی نیکی کی زندگی گزارتے ہیں ۔‘‘
’’ڈونٹ ٹالک اباؤٹ دیم۔ وہ نیکی کی نہیں بوریت کی زندگی گزارتے ہیں ۔ اس
بور زندگی کے تصور سے مجھے وحشت ہوتی ہے ۔ میں نے اسی لیے تمھارے گھر جانا
اب کم کر دیا ہے ۔ ہر وقت جنت کی باتیں ۔ ہر وقت آخرت اور نیکی کی باتیں ۔
عبادت کرو، نماز پڑ ھو، روزہ رکھو، دوپٹہ سینے پر رکھو، سر ڈھانکو۔ آئی
ڈونٹ لائک دز ربش۔‘‘
عاصمہ کی اس بات سے لیلیٰ کے چہرے پر کچھ ناگواری کے آثار ظاہر ہوئے ۔ وہ
بولی:
’’ایسا مت کہو عاصمہ۔ میرے گھر والوں نے تم سے کبھی کچھ نہیں کہا۔ وہ
بیچارے جو کرتے ہیں خود کرتے ہیں یا مجھے تلقین کرتے ہیں ۔ تم سے تو کچھ
نہیں کہتے ۔ صرف ایک دفعہ میرے ابا نے تم سے یہ کہا تھا کہ بیٹا تم میری
بیٹی کی سہیلی ہو۔ دیکھو ایسی سہیلی بننا جو جنت میں بھی اس کے ساتھ رہے ۔
ایسا نہ ہو کہ تم دونوں خدا کو ناراض کر دو اور کسی بری جگہ تم دونوں کو
ساتھ رہنا پڑ ے ۔ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن تم دونوں ایک دوسرے کو الزام
دو کہ تمھاری دوستی نے مجھے برباد کر دیا۔‘‘
’’سوری بھئی تم تو برا مان گئیں ۔ لیکن دیکھو تم نے اپنے ابا کی تقریر مجھے
پھر سنادی۔ ان بے چاروں کے سر پر ہر وقت قیامت سوار رہتی ہے ۔‘‘
عاصمہ کے اس جملے سے لیلیٰ کے چہرے کا رنگ بدلا۔ اس کے تیور دیکھ کر وہ
فوراً بولی:
’’سوری سوری ناراض نہ ہونا۔ اب تمھارے ابا کو کچھ نہیں کہوں گی۔ چلو کینٹین
چل کر کچھ کھاتے ہیں ۔ مجھے بڑ ی بھوک لگ رہی ہے ۔‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میدان حشر میں غضب کی گرمی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ نجانے لوگ پیاس سے
زیادہ پریشان ہوں گے یا پھر اس اندیشے سے کہ کہیں انھیں جہنم کی بھڑ کتی
ہوئی آگ میں نہ پھینک دیا جائے ۔ میں اسی خیال میں تھا کہ صالح کی آواز
کانوں سے ٹکرائی:
’’عبداللہ! تیار ہوجاؤ۔ میں تمھیں تمھاری بیٹی سے ملوانے لے جا رہا ہوں ۔‘‘
بے اختیار میں نے اپنا نچلا ہونٹ اپنے دانتوں میں دبالیا۔ ہم کچھ قدم آگے
چلے تو کھردری پتھریلی سطح پر دو لڑ کیاں بیٹھی نظر آئیں ۔ میں دور ہی سے
ان دونوں کو پہچان گیا۔ ان میں سے ایک لیلیٰ تھی۔ میری سب سے چھوٹی اور
چہیتی بیٹی۔ دوسری عاصمہ تھی۔ میری بیٹی کی عزیز ترین سہیلی۔
اس وقت ماحول میں سخت ترین گرمی تھی۔ لوگوں کے بدن سے پسینہ پانی کی طرح
بہہ رہا تھا۔ بھوک تو پریشانی کے عالم میں اڑ چکی تھی، مگر پیاس کے عذاب نے
ہر شخص کو پریشان کر رکھا تھا۔ یہ دونوں بھی پیاس سے نڈھال بیٹھی تھیں ۔
عاصمہ کی حالت بہت خراب تھی اور پیاس کی شدت کے مارے وہ اپنے بازو سے بہتا
ہوا اپنا پسینہ چاٹ رہی تھی۔ ظاہر ہے اس سے پیاس کیا بجھتی۔ اس نے مزید بھڑ
کنا تھا۔ جبکہ لیلیٰ اپنا سر گھٹنوں میں دیے بیٹھی تھی۔
عاصمہ ایک بڑ ے دولتمند خاندان کی اکلوتی چشم و چراغ تھی۔ خدا نے حسن،
دولت، اسٹیٹس ہر چیز سے نوازا تھا۔ ماں باپ نے اپنی چہیتی بیٹی کو اعلیٰ
ترین اداروں میں تعلیم دلوائی۔ بچپن سے اردو کی ہوا تک نہیں لگنے دی گئی۔
عربی اور قرآن کریم کو سمجھ کر پڑ ھنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ انگلش
میڈیم ا سکولوں کا اتنا اثر تھا کہ بچی انگریزی انگریزوں سے زیادہ اچھی
بولتی تھی۔ مگر ایسے ا سکولوں میں زبان زبان دانی کے طور پر نہیں بلکہ ایک
برتر تہذیب کی غلامی کے احساس میں سیکھی جاتی ہے ۔ چنانچہ زبان کے ساتھ
مغربی تہذیب اپنے بیشتر لوازمات سمیت در آئی تھی۔ سلام کی جگہ ہیلو ہائے،
لباس میں جینز شرٹ، انگزیزی میوزک اور فلمیں وغیرہ زندگی کا لازمہ تھے ۔
تاہم عاصمہ خاندانی طور پر نودولتیے پس منظر کی نہیں بلکہ خاندانی رئیس
تھی، اس لیے کم از کم ظاہر کی حد تک ایک درجہ کی تہذیب و شرافت، بڑ وں کا
ادب لحاظ اور رکھ رکھاؤ پایا جاتا تھا۔ اسی لیے میں نے اس دوستی کو گوارا
کر لیا تھا کہ شاید لیلیٰ کی صحبت سے عاصمہ بہتر ہوجائے ۔
لیلیٰ سے اس کی دوستی کالج کے زمانے میں ہوئی۔ معلوم نہیں کہ دونوں کے مزاج
اور کیمسٹری میں کیا چیز مشترک تھی کہ پس منظر کے اعتبار سے کافی مختلف
ہونے کے باوجود کالج کی رفاقت عمر بھر کی دوستی میں بدل گئی۔ مگر بدقسمتی
سے اس دوستی میں عاصمہ نے لیلیٰ کا اثر کم قبول کیا اور لیلیٰ نے اس کا اثر
زیادہ قبول کر لیا۔
لیلیٰ میری بیٹی ضرور تھی، مگر بدقسمتی سے وہ میرے جیسی نہ بن سکی۔ مجھ سے
زیادہ وہ اپنے سب سے بڑ ے بھائی، جمشید کی لاڈلی تھی۔ وہی بھائی جو میرا
پہلونٹی کا بیٹا تھا اور اسی کی طرح میدان حشر میں کہیں بھٹک رہا تھا۔ ایک
طرف بڑ ے بھائی کا لاڈ پیار اور دوسری طرف عاصمہ کی دوستی۔ یہ عاصمہ اکلوتی
ہونے کے ناطے خود والدین کی لاڈلی اور ناز و نعم میں پلی بڑ ھی تھی۔ نتیجہ
یہ نکلا کہ آج حشر کی اس خواری میں سے اسے اپنا حصہ وصول کرنا پڑ رہا تھا۔
میرے زمانے کی بیشتر اولادوں کو ان کے والدین کے لاڈ پیارنے برباد کر کے
رکھ دیا تھا۔
اولاد ہر دور میں والدین کو محبوب رہی ہے ۔ میرے زمانے میں یہ عجیب سانحہ
رونما ہوا تھا کہ ماں باپ اپنے بچوں کے عشق میں اس طرح گرفتار ہوئے کہ خود
ان کے کھلونے بن گئے ۔ شاید یہ کم بچوں کا اثر تھا۔ پہلے ہر گھر میں آٹھ دس
بچے ہوتے تھے ۔ اس لیے والدین ایک حد سے زیادہ بچوں پر توجہ نہیں دیتے تھے
۔ مگر میرے زمانے میں والدین کے دو تین ہی بچے ہوتے اور ان کی زندگی کا
واحد مقصد یہی تھا کہ اولاد کے لیے سارے جہاں کی خوشیاں سمیٹ کر لادیں ۔ وہ
ان کے ناز نخرے اٹھاتے ۔ ان کی تربیت کے لیے ان پر سختی کرنے کو برا سمجھتے
۔ ان کی ہر خواہش پوری کرنے کو اپنا مقصد بنالیتے ۔ ان کو بہترین تعلیم
دلوانے کے لیے اپنا سب کچھ لٹادیتے ۔ یہاں تک کہ ان کے بہتر مستقبل کی خاطر
ان کو دوسرے ملکوں میں تعلیم کے لیے بھیج دیتے اور آخر کار یہ بچے بوڑ ھے
والدین کو چھوڑ کر ترقی یافتہ ممالک میں سیٹ ہوجاتے ۔ یہ نہ بھی ہو تب بھی
نئی زندگی میں ماں باپ کا کردار بہت محدود تھا۔ لیکن ماں باپ اس سب کے
باوجود بہت خوش تھے ۔
والدین کے نزدیک دین کی بنیادوں سے بچوں کو واقف کرانے سے زیادہ اہم یہ تھا
کہ بچوں کو منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی بولنا سکھادیں ۔ ایمان و اخلاق کی
تعلیم دینے سے زیادہ ضروری یہ تھا کہ انتہائی مہنگے تعلیمی اداروں میں
اعلیٰ تعلیم دلوادیں۔ خدا کی سچی محبت، اس کے بندوں سے محبت، انسانوں کی
خدمت اور خلق خدا کی خیرخواہی کے بجائے بچے اپنے والدین سے مفاد پرستی کی
تعلیم حاصل کرتے ۔ بچوں کو خاندان کے بزرگوں کے بجائے ٹی وی کی تربیت گاہ
کے حوالے کیا جاتا جہاں تہذیب و شرافت اور اخلاق و شائستگی کے بجائے خواہش
پرستی اور مادیت پسندی کا ایک نیا سبق ہر روز پڑ ھایا جاتا۔ آخرت کی
کامیابی کے بجائے دنیا اور اس کی کامیابی کو اہم ترین مقصد بنا کر پیش کیا
جاتا تھا۔ خدا، دین اور آخرت بس رسمی سی باتیں تھیں ۔ دینداری کی آخری حد
یہ تھی کہ کسی مولوی صاحب کے ذریعے سے بچے کو قرآن مجید ناظرہ پڑ ھوا دیا
جاتا۔ رہا اس کا مفہوم تو نہ وہ مولوی صاحب کو معلوم تھا نہ والدین کو۔ اور
نہ کبھی بچوں ہی کو معلوم ہوپاتا۔ یہ لوگ کبھی سمجھ کر پڑ ھ لیتے تو انہیں
معلوم ہوجاتا کہ قرآن دنیا کے تذکرے سے اتنا ہی خالی ہے جتنا ان کی زندگیاں
آخرت کے تذکرے سے ۔ اس کا سبب پچھلی دنیا میں کسی کی سمجھ میں آیا ہو یا
نہیں ، آج بالکل واضح تھا۔ جو دنیا میں گزاری وہ تو زندگی تھی ہی نہیں ۔ وہ
تو محض امتحان کا پرچہ تھا یا راہ چلتے مسافر کا کسی سرائے میں گزارا ہوا
ایک پہر۔ زندگی تو یہ تھی جو ختم نہ ہونے والی ایک انتہائی تلخ حقیقت بن کر
آج سامنے آکھڑ ی ہوئی تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ سے التجا ہے کہ اس مضمون کو زیا سہ سے زیادہ
لوگوں تک پہنچائیں۔۔۔۔ یہ صدقہ جاریہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |