شہیدوں کی یادگار شہداے آزادی کے نام اور ٹیپوسلطان ٹاور تازئین کاری سے محروم

پونہ قبرستان میں دفن شہیدوں کے جسم الیکشن میں کیے گئے وعدوں کی تکمیل کا بے صبری سے انتظار کررہے ہیں

 کیا ہم نے کبھی یہ سوچنے کی کوشش کی کہ یوم آزادی کی کیا اہمیت ہے ؟ تاریخ میں اس دن کا کیا مقام ہے ؟ اس دن کے لیے کتنے لوگوں کو سولیوں پر چڑھایاگیا؟کتنے مجاہدین کو انڈمان کی قید ِ تنہائی دی گئی؟کتنے لوگوں کی جائیداد ضبط اورنیلام کی گئی؟کتنے بچوں کو یتیم اورکتنی سہاگنوں کو بیوہ بنایاگیا؟افسوس تو اس بات پر ہے کہ یوم آزادی آکر گذر بھی جاتا ہے اور ہمیں آزادی کی حساسیت کا احساس تک نہیں ہوتا۔اسکولوں اور کالجوں میں روایتی طور پر پرچم لہرایاجاتا ہے،راشٹر گیت پڑھا جاتا ہے،کہیں کہیں شیرینی تقسیم ہوتی ہے اور بس ختم۔کیا یوم آزادی کاسورج بس اسی آدھے گھنٹے کے لیے طلوع ہوتا ہے ؟وطن کی آزادی کی خاطر جن بائیس ہزار علما اور پانچ لاکھ مسلمانوں کو پھانسی پر لٹکایا گیا تھا ان کی یاد بس دس منٹ کے لیے منانی چاہیے؟ کیا ہماری قوم اب اتنی بے حس ہوگئی کہ بے لوث مجاہدین کی قربانیوں کو یونہی دبا دیا جائے؟ممکن ہے کوئی کہے کہ ہمارے یہاں پروگراموں کاا نعقاد ہوتاہے،تقریریں ہوتی ہیں اور مجاہدین کو خراج عقیدت بھی پیش کیا جاتا ہے۔ہاں!یہی تو ہماری کج روی اور کج فہمی ہے کہ بس چند جوشیلی تقریروں اور چھوٹے موٹے پروگراموں کو ہی ہم نے سب کچھ سمجھ لیا ہے ۔کیا شہداے آزادی کے خون کی قیمت صرف اتنی ہے کہ ان کے نام سے دو چار رَٹی رَٹائی تقریریں کرلی جائیں؟بلکہ طرفہ کی بات تو یہ ہے کہ یہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ذاتی تعصب کی بنیاد پر ان ہزاروں شہیدوں کے خون کو پلید کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں جنہوں نے وطن کی آزادی کی آبیاری کے لیے اپنا خونِ جگر پیش کیا تھا۔اپنی تقریروں میں وہ اگر کسی مجاہد ِآزادی کا نام بھی لینے کی زحمت کرتے ہیں توان کی سوئی مولاناابوالکلام آزاد،مولانا محمد علی جوہر ،مولانا شوکت علی جوہر اور اشفاق اﷲ خاں کے اردگرد ہی تھم جاتی ہے۔حالانکہ ان کے علاوہ سیکڑوں مسلمانوں نے وطن عزیز کے گیسوئے برہم کواپنے لہوسے سنوارا ہے ؟مگر افسوس کہ آج ہماری اکثریت ان کے نام سے بھی ناواقف ہے۔بائیس ہزار علمائے کرام کے خون سے یہ سرزمین لالہ زار بنی تب کہی جاکریہ ملک آزاد ہوا۔ہمارے بچوں کے سامنے فریڈم فائٹرس کے طور پر حیدرعلی،ٹیپوسلطان،علامہ فضل حق خیرآبادی، مفتی صدرالدین آزردہ،مولانافیض احمد بدایونی،احمد اﷲ شاہ مدراسی،مفتی عنایت احمد کاکوروی،مولانا کفایت علی کافی ،مولانا رحمت اﷲ کیرانوی ،ڈاکٹر وزیر خاں اکبرآبادی،مولانا امام بخش صہبائیؔ دہلوی ،مولانا وہاج الدین مرادآبادی ، منشی رسول بخش کاکوروی،غلام امام شہید، امیر مینائی،مفتی مظہر کریم دریابادی،منیر شکوہ آبادی، شہزادہ فیروز شاہ ،نواب مجو خان ،نواب شائستہ خاں،نواب سراج الدولہ اور جنرل بخت خاں وغیرہ اور بالخصوص مالیگاؤں کے شہداء عبداﷲ خلیفہ خدابخش اور محمدحسین ولد مدوسیٹھ(مدوسیٹھ کی مسجد والے)، منشی محمد شعبان،سلیمان شاہ،بدھوفریدن،محمد اسرائیل اﷲ رکھااور عبدالغفور پہلوان وغیرہ کا نام لیاجاتا ہے تو وہ حیرت سے ایسا منہ تکتے ہیں جیسے کسی محیرالعقول شئے کا نام لے لیا ہو،اس لیے کہ انہوں نے نصابی کتابوں،تعلیمی اداروں یا فلموں میں تو صرف جھانسی کی رانی،تاتیاٹوپے،منگل پانڈے ،بھگت سنگھ ،جواہر لال نہرو اور گاندھی جی کا نام ہی سنا،پڑھا اور دیکھا ہیں۔

یہ لکھتے ہوئے راقم کو ذرہ برابربھی خوف نہیں کہ علمائے اسلام اور مجاہدین آزادی کے ساتھ تاریخ نویسوں نے جتنا ظلم کیاہے اتنا ہی ہم نے بھی کیا ہے ۔باطل تو کسی طرح ہمارے نام ونشان کو مٹانے کے درپے ہے ہی، اس پر ہمارے بے حسی سونے پر سہاگہ۔ہماری تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے،نصابی کتابوں سے مسلم شخصیات اور مجاہدین کے باب کو خارج کیا جارہا ہے اس پر افتاد یہ کہ ہمیں اپنے ہی سرفروشوں کی قربانیوں کی یاد تازہ کرنے کی فرصت نہیں۔ہمارا شہر میناروں اور مدرسوں کا شہر کہلاتا ہے،مگر چنندہ مدارس ہی میں یوم آزادی کا نظم ہوتا ہے،سوال قائم ہوتا ہے کہ کتنے مدرسوں میں مدرسین اور اہل علم نے مسجدومحراب سے اسلاف کی درد بھری قربانیوں کوبیان کیا؟ہمارا حال تو یہ ہے کہ مسجد کے امام صاحب اور مدرسے کے مدرس صاحب سے اگر کوئی پوچھ لے کہ پچاس مسلم مجاہدینِ آزادی کے نام بتاؤ تو شاید ہی کوئی بتا پائے۔(الا ماشاء اﷲ)جن مقامات سے آزادی کی لہر نے جنم لیا تھا،مساجد کے ائمہ اور مدارس کے فارغین نے اپنی ہتھیلیوں پر اپنے سروں کا نذرانہ لے کرجس انقلاب ۱۸۵۷ء کی چنگاری جلائی تھی ،آج ان ہی مقدس مقامات کے علمبردار اپنی تاریخ سے ناآشنااور نابلد ہیں۔جب اہل علم طبقہ ہی اپنی تاریخ سے ناآشنائی کا شکار ہے تو پوری اُمت کا خدا خیر کرے۔جب کہ یہ ایک مسلم الثبوت اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہندوستان کی آزادی علماے کرام ہی کے دم قدم سے متصور ہے۔آج ہم آزادی کی جس خوشگوار فضا میں زندگی کے لمحات بسر کررہے ہیں،یہ علمائے حق ہی کے سرفروشانہ جذبات اور مجاہدانہ کردار کا ثمرہ ہے۔انھیں کے مقدس لہو سے شجر آزادی کی آبیاری وآبپاشی ہوئی ہے۔ آزادی کی اساس اوربنیاد ہی ہم ہے ۔اس ملک کی آزادی کے لیے غیروں نے جتنا پسینہ نہیں بہایا اس سے زیادہ ہمارے پُرکھوں نے اپناخون بہایا ہے۔ہمارا کیا کہناہم تو ابھی تک اسی میں اُلجھے ہے کہ راشٹر گیت پڑھنا چاہیے یا نہیں؟آج بھی مالیگاؤں میں تعمیر’’ شہیدوں کی یادگار‘‘ اہل سیاست کو پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ مجھ پر ان سرفروشوں کے نام کب کندہ کروائے جائیں گے جو آزادی کے لیے پونہ کی یروڈہ جیل میں تختۂ دار پر چڑھ گئے؟اگر یہ جان دینے والے کوئی اور ہوتے تو کیا اب بھی ان کی سمادھی بغیر نام کے کھڑی رہتی؟پونہ قبرستان میں دفن شہیدوں کے جسم الیکشن میں کیے گئے وعدوں کی تکمیل کا اب بھی بے صبری سے انتظار کررہے ہیں۔ٹیپوسلطان ٹاور اپنی تزئین کاری کی صدا ہر روز لگاتا ہے مگر گونگے بہرے منصب داروں کو اس کی صدا صرف صدا بہ صحرامحسوس ہوتی ہے۔ خداراخدارا!اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اپنی تاریخ کو نسلوں تک پہنچانے کی کوشش کرو،ورنہ جو قوم اپنی تاریخ کو بھلا دیتی ہے ،وہ قوم صفحۂ دہر سے مٹادی جاتی ہے ؂
کیا اسی لیے تقدیر نے چُنوائے تھے تنکے
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگادے

Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 672927 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More