یوں تو دْنیا میں ہر مذہب اور ہر فرقہ سے تعلق رکھنے والی
قومیں آباد ہیں ۔بلا امتیاز رنگ و نسل ہر قوم اپنے ملک و پرچم کی سلامتی
کیلئے دن رات کوشا ں ہے۔پرچم خواہ کسی بھی ملک کاہو اس کا تقدس و احترام
ملحوظ خاطر رکھنا عوام کی اولین ذمہ داری ہے ۔ہم اﷲ رب کریم کے ازحد شکر
گذار ہیں کہ اْس نے اپنی عنایت خاص کی بدولت ہمیں مملکت خداداد پاکستان کا
ستر سالہ یوم آزادی نصیب فرمایا۔سبز و سفید رنگ پر محیط یہ پیارا پرچم
دراصل ہماری آزادی کی نوید ہے اور یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم ایک باوقار
قوم ہیں اور اپنے ملک میں آزادی کے ساتھ حیات ایام بسر کر رہے ہیں ۔سبز
دراصل مسلمانوں کا نشان ہے اور سفید مملکت میں بسنے والی اقلیتوں کی
نشاندہی کرتا ہے ۔پاکستانی پرچم کی تخلیق کا سہرا جناب سید امیر الدین کے
سر ہے جواپنی شبانہ روز محنت سے یہ سعادت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ماضی
میں برصغیر پاک وہند میں ہندو اور مسلمان آباد تھے ۔ اگرچہ یہ دونوں مذہب و
عقیدے کے لحاظ سے مختلف ہیں لیکن ان کی سوچ میں دن رات کا فرق ہے۔ہندو بتوں
کی پوجا کرتے اور مسلمان صرف اور صرف ایک اﷲ ایک رسول اور ایک قرآن پر یقین
رکھتے ۔چنانچہ یہ ایک فرق تھا جو ازل سے لیکر ابد تک جاری رہے گا۔مسلمانان
ہند نے آزادی پانے کی خاطر اپنا تن من دھن سب قربان کر دیا ۔معصوم بچے
بچیاں ، خواتین ، نوجوان آزادی کی اس جدوجہد میں ہر لمحہ اپنی ولولہ انگیز
قربانیاں دیتے رہے ۔خواتین نے اپنی عزتوں کی پروا نہ کرتے ہوئے آزاد وطن کے
قیام کے مقصد کو جاری وساری رکھا ۔مسلم نوجوانان نے وہ ظلم و ستم برداشت
کئے جن کی نوید ملنا مشکل ہے ۔بابائے قوم محمد علی جناح ؒ نے مسلمانان ہند
کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے علیٰحدہ وطن کا مطالبہ کیا ۔یوں انتھک
قربانیوں کے بعد پاکستان 14اگست 1947ء بمطابق 27رمضان المبارک معرض وجود
میں آیا۔پاکستان کا خواب شاعر مشرق حکیم الامت ڈاکٹر محمد اقبال نے شرمندہ
تعبیر کیا ۔پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ دراصل اْن کروڑوں مسلمانان
ہند کی صدا تھی جن کے دلوں کی دھڑکن آزادی کا نعرہ بلند کر رہی تھی ۔راقم
اس تحریر کو رقم کرنا ازحد ضروری گردانتا ہے کہ یہ آزادی ہمیں پلیٹ میں رکھ
کر نہیں دی گئی اور نہ ہی یہ ہمیں صدقہ یا خیرات کے طور پر مل گئی ہے بلکہ
یہ وہ انعام ہے جس کیلئے ہمارے بزرگان ، خواتین، بچے ، بچیوں نے ہر طرح کے
مصائب جھیل کر دْکھ تکالیف کے زخم اپنے سینوں پر کھا کر ہمیں یہ آزادی تحفے
میں دی ۔ کہتے ہیں کہ جب مسلسل محنت انتہا کو پہنچ جائے اور ہاتھ پیر مشقت
سے چْکنا چور ہو جائیں تو ایسے میں حاصل ہونے والا انعام جنت نوید ثابت
ہوتا ہے اس کی اہمیت وہی جان سکتا ہے جو انتھک مسائل کی دلدل میں پستہ رہا
ہو۔یکم اگست سے ہی سکولوں، کالجز، یونیورسٹیز ، تاجر و سرکاری عملہ یوم
آزادی کو فخر سے منانے اور پرچم کو سر بلند کرنے کیلئے اپنے تئیں ہر ممکن
کوشش کرتے ہیں تاکہ ہم دْنیا کو یہ پیغام دے سکیں کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں
اور اپنے ملک و قوم کا دفاع و تحفظ ہمیں خوب اچھی طرح سے آتا ہے ۔ مارکیٹس،
گلیاں، بازار و سرکاری عمارات کو خوب اچھی سجایا جاتا ہے رات کو چراغ کیا
جاتا ہے ۔ملک و قوم کی ترقی و سلامتی کیلئے رب کریم کی بارگاہ ایزدی میں سر
بسجود ہو کر خصوصی دْعائیں کیجاتی ہیں ۔ایسے میں ہم سب پر لازم ہے کہ ہم
اپنے سبز ہلالی پرچم ، جھنڈیوں کا احترام کریں ۔یوم آزادی کے بعد یہ
جھنڈیاں کوڑا کرکٹ میں پڑی نظر آتی ہیں جو ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ کے سوا
کچھ نہیں ہے ۔اکثر نوجوان اس آزادی کی خوشی میں چہروں کو سبز و سفید رنگ سے
رنگین کر لیتے ہیں جو ان ہی کیلئے بعد میں طرح طرح کی بیماریوں کا سبب ثابت
ہوتا ہے ۔ ٹی شرٹس و جینز کی پتلون پر مختلف رنگوں کی قوس قزح بکھیر کر خود
کو جوکر بنا کر موٹر سائیکلوں کے سلنسر نکال کر شاہراؤں کو بلاک کر کے
آزادی کا جشن پیش کرتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے کیونکہ ایسے میں ہم اپنے
ساتھ بسنے والے دوسرے افراد جن میں مریض شامل ہیں اْنہیں نظر انداز کر کے
وہ ماحول پیش کر رہے ہوتے ہیں جس کے پیچھے ان لوگوں کے بہت زیادہ مسائل
ہوتے ہیں یا اچانک کسی کی قیمتی جان بھی لقمہ اجل بن جاتی ہے ۔ریڈیو، ٹی وی
، الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا آزادی کے دلچسپ پروگرامز کا انعقاد کر تا ہے ۔جس
میں دلوں کو سرور پہنچانے والے ملی نغمے خاص طور پر اہمیت کے حامل ہے ۔ہمارا
پرچم یہ پیار ا پرچم ، یہ پرچموں میں عظیم پرچم ،عطائے رب کریم پرچم۔وطن کی
مٹی گواہ رہنا۔اے وطن پیارے وطن پاک وطن، یوں دی ہمیں آزادی کہ دْنیا ہوئی
حیران، یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسبان اس کے،یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نغمہ
خاں اس کے،ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کہ، اس ملک کو رکھنا میرے بچوں
سنبھال کہ،یہ تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان اس پہ دل قربان اس پہ جان
بھی قربان،اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں،سوہنی دھرتی اﷲ رکھے
قدم قدم آباد تجھے، اور خاص طور پر پرچم کشائی کی پْروقار تقریب اور
باآوازبلند قومی ترانہ نہ صرف ہماری ثقافت کا امین ہے بلکہ یہ ہمارے دلوں
میں بسنے والے اْس سچے پیار کی ترجمانی کرتا ہے جو ملک وملت سے وفا کا منہ
بولتا ثبوت ہے ۔یہ دْعا ہے میری یارب ہمارے اس قومی پرچم کو صدا بلند رکھنا
اور اس ارض پاک کو دشمن کی ملی نگاہ سے محفوظ رکھنا اور ہمیشہ ترقی و
کامرانی کی اعلیٰ منزلیں عطا فرمانا۔(آمین)
والسلام
آپکا مشکور و دُعاگو
چوہدری دلاور حسین |