بحیثیت اشرف المخلوقات ہونے کے ہمیں غور کرنا چاہئے
کہ ہمارے معاشرے کے بیگاڑ کی ، شدید اخلاقی انحطاط کی و جوہات کیا ہیں ۔
ہمارے معاشرے میں کیوں لوگوں نے نیکی اور بدی ، حلال اور حرام کی سمجھ بوجھ
کو ر کھنا چھوڑ دیا، اور کیوں لوگ جوک در جوک بے راہ روی کا شکار ہورہے
ہیں۔ہمارے گھر کا ماحول غیر اسلامی کیوں ہے،ہمارے خاندان کا شیرازہ کیوں
بکھر رہا ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہئے کہ کیا ہم بحیثیت مسلمان اپنے حقوق اور
فرائض اچھے طریقے سے ادا کررہے ہیں ؟ کیا ہم سیدھے راستے پر ہیں ؟ کیا ہم
اپنے نفس کا محاسبہ کررہے ہیں ؟، کیا ہم اپنے ماتحت اور اہل و اعیال کی
اصلاح کا ذریعہ بن رہے ہیں؟۔ دین فطرت اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ،اس
میں ہر طبقے کے متعلق ہدایات موجود ہیں کوئی طبقہ ایسا نہیں کہ جس کے بارے
میں اسلام نے کو ئی رہنمائی نہ کی ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان اسلام
سے رہنمائی حا صل کرنے کے لئے آمادہ ہو اور اپنا تعلق اپنے حقیقی خالق و
مالک سے استوار کرے اور اپنی ہر خواہش کو ربّ تعالیٰ کے حکم کے سامنے قربان
کردے تو یہ واضع ہوجائے کہ آج تمام تر معاشرتی بیگاڑ کی وجہ صرف اور صرف
دین اسلام سے دوری اور اصلاح معاشرہ کے پیغمبرانہ اصولوں سے انحراف ہے۔
جبکہ ہمارے معاشرے میں جو لوگ دیندار سمجھے جاتے ہیں وہ بھی صرف اپنی ذات
کی حد تک محدود ہیں ،خود صوم وصلوٰۃکے پابند ہیں، دین میں سمجھ بوجھ رکھنے
کی کوشش کرتے ہیں اور گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرتے ہیں ،لیکن گھر کے
ماحول کو بدلنے کی کوئی فکر نہیں اور اپنے اہل خانہ کو دین کی طرف لگانے کا
کوئی خاطر خواہ اہتمام نہیں۔
اسلام نے انسان پر نہ صرف اپنی اصلاح کی ذمہ داری عائد کی ہے، بلکہ اپنے
اہل و عیال کی اصلاح کی ذمہ داری بھی اس پر ڈالی ہے،اپنی اولاد ،عزیز
واقارب اور اپنے خاندان کو راہ راست پرلانے کا فریضہ بھی گھر کے سربراہ پر
عائد کیا ہے۔خود حضرات انبیائء علیہ السلام بھی اس فریضے سے مستثنیٰ قرار
نہیں دیے گئے ،حتی کہ امام الانبیاء حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو نبوت سے
سرفراز کرنے کے بعد اﷲ تعالی کی طرف سے جو پہلا تبلیغی حکم دیا گیا وہ یہ
تھا ’’وانذر عشیرتک الاقربین ‘‘(کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو اﷲ کے عذاب سے
ڈرائیے ) عشیرہ کے معنی کنبہ اور خاندان کے ہیں یعنی تزکیر و ترہیب اپنے
گھر سے شروع کریں،چنانچہ اسی حکم کی تعمیل میں جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے اپنے عزیز و اقارب اور اپنے خاندان کو کھانے پر جمع کیا اور خطبہ
ارشاد فرمایا’’اے بنی عبد المطلب ، مجھے اﷲ کی طرف سے تمہارے حق میں کوئی
اختیار نہیں ، تم میرے مال میں سے جتنا چاہو مجھ سے لے لو، خدا کی قسم جو
چیز میں تمہارے پاس لے کر آیا ہوں، مجھے عرب میں کوئی ایسا جوان معلوم نہیں
جو اپنی قوم کے پاس اس سے بہتر کوئی چیز لایا ہو ، میں تمہارے پاس دنیا اور
آخرت کی بھلائی لایا ہوں اور مجھے اﷲ نے حکم دیا ہے کہ تم کو اس کی طرف
دعوت دوں،تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میرے ہاتھ مضبوط کرے اور اس کے
نتیجے میں میرا بھائی بن جائے ‘‘( تفسیر ابن کثیر 3/351)۔ اسی طرح ایک
دوسری آیت میں اﷲ تعالی نے مومنین سے خطاب کے ذریعے اسی بات کی تنبیہ
فرمائی ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ اے ایمان والو ! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے
اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے‘‘۔ اس آیت میں گھر کے سربراہ کو حکم دیا جا رہا
ہے کہ خود بھی دوزخ کے عذاب سے بچے اور جو لوگ اس کی تربیت و کفالت اور
ماتحتی میں رہتے ہیں ان کو بھی عذاب سے بچائے۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے مفتی
اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمتہ اﷲ رقمطراز ہیں ’’ اہل و عیال میں بیوی
،اولاد ،باندیاں اور غلام سب داخل ہیں اور بعید نہیں کہ ہمہ وقتی نوکر ،
چاکر ، خادم بھی غلام باندیوں کے حکم میں ہوں۔‘‘ (معارف القرآن) چنانچہ جب
یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر بن خطا ب رضی اﷲ عنہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ
وسلم کی خدمت میں حاضر ہوے اور عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! اپنے
آپ کو دوزخ سے بچانے کی فکر کی جائے یہ بات تو سمجھ میں آ گئی، لیکن اہل و
عیال کو کس طرح دوزخ سے بچائیں ؟ ،آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’ اپنے
اہل و عیال کو دو زخ سے بچانے کا طریقہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو جن
کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے تم بھی ان کاموں کے کرنے کا اپنے اہل و عیال
کو حکم دو اور جن کاموں سے اﷲ تعالیٰ نے منع کیا ہے تم بھی ان کاموں سے
اپنے اہل و عیال کو منع کردو ، یہ عمل ان کو دوزخ کی آگ سے بچا سکے
گا۔حضرات فقہائے کرام نے فرمایا ہے یہ آیت ہر انسان پر ایک فرض عائد کرتی
ہے کہ وہ اپنی بیوی اور اولاد کو فرائض شرعیہ اور حلال وحرام کے احکام کی
تعلیم دیں اور اس پر عمل کرانے کی عملی کوشش کرے۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا انسان کا اپنی اولاد کو ادب سکھانا ایک
صاع غلہ صدقہ کرنے سے بہتر ہے ، نیز فرمایاکسی باپ نے ا پنے بچے کو اچھے
ادب سے بڑھ کر کوئی ہدیہ نہیں دیا (مشکوٰۃ )۔
ان دونوں احادیث میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اولاد کی تعلیم و تربیت پر
کتنا زور دیا ہے ان کی تعلیم و تربیت اور ادب سکھانے کو صدقہ کرنے سے افضل
قرار دیا ہے،جب اولاد کی تربیت اچھی ہوگی تو ظاہر ہے کہ وہ والدین کے لئے
سکون قلب اور نیک نامی کا باعث بنے گی۔ بعض حضرات یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ
ہم نے بہت کوشش کی اپنے گھر کے ماحول کو درست کرنے کی اور اپنی اولاد کو
اچھی تربیت دینے کی، لیکن زمانہ کی ہوا ہی ایسی چل پڑی ہے کہ اولاد ہماری
وعظ و نصیحت کا کوئی اثر لینے کو تیار ہی نہیں اور نہ ہی ہماری بات پر کان
دھرنے کو تیار ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور ؟لیکن یہ خیال محض ایک دھوکہ
ہے۔حقیقت کچھ بھی نہیں ،سوال یہ ہے کہ آپ نے کتنی کوشش کی ہے کتنے اضطراب
اور کتنے سوز دل کیساتھ ان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے؟ آپ کی اولاد اگر
جسمانی طور پر بیماری میں مبتلا ء ہو جائے یا خدا نہ کرے آگ میں چھلانگ
لگانے کی خواہش ظاہر کرے تو اس وقت آپ اپنے دل میں کتنی تڑپ محسوس کریں گے
اور یہ تڑپ آپ کو کیسے کیسے مشکل ترین مراحل سے گزرنے پر مجبور کرے گی،
لیکن یہ سب کچھ سہہ لینے کا آپ میں حوصلہ موجود ہوگا اور آپ بے تاب ہوں گے
کہ کب یہ گھڑی آئے کہ میں اپنے بیٹے کو صحت و عافیت کیساتھ دیکھوں اور یہ
مشکل وقت ہم سے ٹلے۔سوال یہ ہے کہ آپ نے کبھی اپنے بیٹے کو گناہوں کی چکی
میں پستے دیکھ کر اس قدر پریشانی اٹھائی ہے اور اتنی تڑپ محسوس کی ہے ،جتنی
اس کی بیماری کی حالت میں محسوس کی تھی؟ اگر آپ نے اس قدر کوشش کرڈالی ہے
اور اتنی تڑپ محسوس کی ہے تو بلا شبہ آپ نے اپنا فرض بجا طور پر ادا کردیا
ہے اور آپ کی کوشش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا،لیکن اگر معاملہ اس کے
برعکس ہے ، یعنی آپ نے اتنی کوشش نہیں کی کہ جتنی کرنی چاہیے تھی یا آپ نے
اتنی لگن اور کاوش کا مظاہرہ نہیں کیا جتنا دنیاوی بیماری پر کیا تھا تو
بیشک آپ کے انداز تربیت میں کوتاہی ہے،جب آپ دنیاوی معاملات میں اس کے ساتھ
سختی کا برتاؤ کرتے ہیں تو کیا وجہ ہے دین کے معاملہ میں اتنی نرمی کیوں
اختیار کی گئی کہ ایک دو دفعہ کہہ دینے یا چند بار ڈانٹ ڈپٹ پر اکتفاء کر
لینے کو فرض کی ادائیگی سمجھ لیا ۔ جس ہمت و کوشش اور فکر و لگن سے آپ ان
کے لیے روزگار تلاش کرتے ہیں اتنی ہی فکر و لگن اس کی اصلا ح کی طرف کیوں
نہیں کرتے۔ بہرحال!اولاد کی تربیت و اصلاح کے لئے سوز قلب ،توجہ اور خشوع
وخضوع کے ساتھ دعا کی جائے اور ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و تربیت پر بھی بھر
پور توجہ دی جائے تو بہت جلد اس کے ثمرات ظاہر ہو سکتے ہیں۔
جب ایک فرد اپنی اصلاح کی طرف پوری توجہ مبذول کرے گا تو اس سے ایک اچھا
معاشرہ وجود میں آئے گااور جب ایک معاشرہ اپنی صحیح راہ کی طرف چل پڑے گا
تو دھیرے دھیرے اس کے اچھے اثرات پوری قوم میں منتقل ہوں گے اور پوری قوم
میں اصلاح کا جذبہ بیدار ہوگا۔ آخر میں معاشرے کی اصلا ح کی طرف متوجہ کرتے
ہوئے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی رحمتہ اﷲ کا در ددل ملاحظہ ہو ’’اگر
آپ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ آپ کا دین برحق ہے اور مرنے کے بعد جزا
وسزا کے مراحل پیش آنے والے ہیں تو خدا کے لئے اپنی اولاد کو بھی اس جزا و
سزا کے دن کے واسطے تیا ر کیجیے،انہیں ضروری تعلیم دلوائیے ،ان کے ذہن کی
شروع ہی سے ایسی تربیت کیجئے کہ ان میں نیکیوں کا شوق اور گناہوں سے نفرت
پیدا ہو،ان کی صحبت اور ماحول درست رکھنے کا اہتمام کیجئے ،اپنے گھروں کو
تلاوت قرآن اور اسلاف امت کے تذکروں سے آباد کیجئے،گھر میں کوئی ایسا وقت
نکالئے، جس میں سارے گھر والے اجتماعی طور پر دینی کتب کا مطالعہ کریں،
اپنے ذاتی عمل کو ایسا دلکش بنا ئیے کہ اولاد اس کی تقلید کرنے میں فخر
محسوس کرے،اپنے اہل وعیال اور اقارب و احباب کے حق میں اﷲ تعالی سے دعائیں
کیجئے، کہ اﷲ تعالی انہیں صراط مستقیم پر گامزن ہونے اور ثابت قدم رہنے کی
توفیق عطا فرمائے‘‘۔ان باتوں پر اگر خلوص دل سے عمل کر لیا جائے تو ہم اپنے
گھر اور معاشرے کو ایک بہترین معاشرہ بنا سکتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں
سربراہ بنایا ہے تو ہمیں بھی چاہیے کہ اپنی ذمہ داری کی اچھے انداز میں ادا
کرتے ہوئے اہل و عیال اور اولاد کواچھی راہ پر گامزن کریں ۔ آخر میں دعا ہے
کہ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ، اپنے اہل و عیال اور معاشرے کی اصلاح کا
ذریعہ بنائے ، آمین۔ |