باسط تو میری بات کیوں نہیں مان لیتا‘‘،،،امی یہ آپ
کیاکہہ رہی ہیں‘‘،،،آج تک آپ کی ہر بات مانی ہے‘‘،،
وہ امی کی بات کا مفہوم سمجھتے ہوئے بھی ناسمجھ بن گیا‘‘،،،
ہاں میں جانتی ہوں تو میرا فرمانبردار بیٹا ہے‘‘،،ہر بات مانتا ہے‘‘،،،تو
یہ بھی مان لے‘‘،،،ہاں کردے شادی‘‘،،
کے لیے‘‘،،،امی آپ اب اس بات کو چھوڑ بھی دیں‘‘،،، اس نے قدرےبوجھل لہجے
میں کہا‘‘،،،
ٹھیک ہے اٹکا رہ اپنی ضد پر‘‘،،،میں بھی تیری ماں ہوں‘‘،،،اب مجھے فون تب
کرنا جب جواب ہاں میں‘‘،،،
ہو‘‘،،،ورنہ میں بات نہیں کروں گی‘‘،،،فون بند ہو چکا تھا‘‘،،،پر وہ وہیں
ریسیور ہاتھ میں پکڑے کھڑا رہا‘‘،،،
باسط کیاہوا؟؟ شفیق نے بغور اسے دیکھتے ہوئے پوچھا‘‘،،،کچھ نہیں‘‘،،،
کچھ تو ہے‘‘،،،بتانا نہیں تو تمہاری مرضی‘‘،،،شفیق نے اس کے ساتھ بیٹھتے
ہوئے قدرے ناراضگی‘‘،،،
سے کہا‘‘،،،،باسط لمحے بھر کو چپ ہوگیا‘‘،،،پھر کہا‘‘،،،کچھ نہیں ‘‘،،،بس
امی نے آجکل شادی کی‘‘،،
رٹ لگائی ہوئی ہے‘‘،،،جیسے دنیا کے سارے کام‘‘،،،ساری باتیں ختم‘‘،،،جب بھی
فون کرو‘‘،،،
بس یہی بات‘‘،،،وہ خاصا بے زار تھا‘‘،،،اچھی بھلی زندگی گزر رہی
ہے‘‘،،،جانے کیوں سکون ختم کرنے ‘‘،،
کے درپے ہیں‘‘،،،
شفیق نے بے ساختہ قہقہہ لگایا‘‘،،،سہی کہتی ہیں وہ‘‘،،،غور کرو ان کی بات
پہ‘‘،،،
باسط نے اسے گھورا اور اٹھ کے جانے لگا‘‘،،،اچھا سنو‘‘،،،فری انٹی تمہیں
یاد کر رہی تھی‘‘،،،کہہ رہی تھی‘‘،
دو قدم کا فاصلہ ہے پھر بھی کئی کئی دن نظرنہیں آتا‘‘،،،دوررہتا تو سالوں
نہ ملتا‘‘،،
جب بھی ٹائم ہو‘‘،،،جا کے مل آنا‘‘،،،بہت اچھی خاتون ہیں‘‘،،،اپنائیت
والی‘‘،،،باسط نے محض سرہلا کر‘‘،،،
اس کی بات سے اتفاق کیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا‘‘،،،
ایک بار پھر امی کی باتیں اسکے ذہن میں گونجنے لگیں‘‘،،،وہ صحیح ہی توکہہ
رہی تھیں‘‘،،،پر‘‘،،،
غلط وہ بھی نہیں تھا‘‘،،، کمرے کی تنہائی میں اس کے گرد لپٹا بے حسی کا خول
چٹخنے لگا‘‘،،،
اگلے ہی پل وہ خود پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگا‘‘،،،امی کا کیا
ہے‘‘،،،کچھ دن بات نہ ہوئی‘‘،،،،
تو خودناراضگی بھول جائیں گی‘‘،،،وہ بیڈ سے ٹیک لگا کر خود کو ریلیکس کرنے
لگا‘‘،،،کچھ ہی دیر‘‘،،،
میں وہ سو چکا تھا‘‘،،،،(جاری ہے)
|