سلمان اپنے کرائے کے کمرے میں داخل ہوا اس کے ہاتھ میں
میلے کپڑے تھے‘‘،،،سامنے‘‘،
چھوٹے سے صحن میں ندا صفائی کر رہی تھی‘‘،،،سلمان اس کے سامنے نہیں جانا
چاہتا تھا‘‘،،،
سیدھا کمرے میں چلا گیا‘‘،،،اس نے سوچا جلدی سے سارا ضروری سامان لے کر وہ
بس ندا کی ماں‘‘،،،
بانو سے کچھ بات کرکے واپس کریم صاحب کے بنگلو چلا جائے‘‘،،،بیڈ پر کمر
سیدھی کرنے کے لیے‘‘،،
لیٹ گیا‘‘،،،وہ سوچ رہاتھا‘‘،،،اس کی زندگی سلجھنے کی بجائے اور بھی الجھے
جارہی ہے‘‘،،،
میرے اللہ! میں تو بہت چھوٹا،کمزور سا انسان ہوں‘‘،،،بہت ہی گیا گزرا
سا‘‘،،،پھر زندگی اتنے‘‘،،،
مشکل مشکل سوال کیوں پوچھتی ہے‘‘،،،کہاں سے لاؤں اس کے جواب‘‘،،،جو سبق ہی
کبھی نہیں پڑھا‘‘،،،
اس کو یاد کیسے رکھوں‘‘،،،کیاکروں‘‘،،،دروازے پر مانوس سی دستک ہوئی‘‘،،،
ندا ہاتھ میں چائے کا کپ لیے اندر آگئی‘‘،،،سلمان نے سوچا اک اور
آزمائش‘‘،،،
کچھ نہیں میرے بدن میں‘‘،،،سامنے وقت کا پہلوان کھڑا ہے‘‘،،،سیاہی اس قدر
کچھ دکھائی ہی‘‘،،
نہیں دیتا‘‘،،،سامنے ریت کا طوفان بازو کھولے کھڑا ہے‘‘،،،
ندا نے چائے چھوٹی سی تین ٹانگ والی میز پر سنبھال کر رکھ دی‘‘،،،،طنزیا
مگر ناراض لہجے میں بولی‘‘،،،
میڈم روزی جیسی مزے کی تو نہیں چائے‘‘،،پر ہے چائے‘‘،،،کسی پرانےبرے وقت کی
طرح اسے بھی‘‘،
پی جانا‘‘،،،سلمان مسکرا دیا‘‘،،،ندا جھٹ سے بولی‘‘،،،بناوٹی مسکراہٹ ذرا
بھی سوٹ نہیں کرتی‘‘،،،
اچھا سا چہرہ دیا ہے اللہ نے‘‘،،،جھوٹ سے برباد نہیں کرو‘‘،،،سلمان نے
موڈاچھا کرتے ہوئے کہا‘‘،،،
جی روزی میڈم کی چائے تو لاجواب ہوتی ہے‘‘،،،مگر بناتا برکت ہی ہے‘‘،،،ہاں
آجکل فارمولا میرا‘‘،،،
یوزہو رہا‘‘،،،ویسے تم ذرا اور پڑھ جاتی ‘‘،،،تو،،،سلمان خاموش ہوگیا‘‘،،،
ندا نے حیرت سے پوچھا‘‘،،،تو؟؟؟۔۔! سلمان نے پرخلوص لہجے میں کہا‘‘،،،تو
فلاسفر ہوتی‘‘،،،
عورتوں کی منٹو ہوتی تم‘‘،،،ندا مسکرا کے بولی‘‘،،،کیا رکھا ہے‘‘،،،
کرنا وہی جھاڑو پونچھا‘‘،،،بچے پالنے‘‘،،،وہ بھی دوسروں کے‘‘،،،ندا دکھ سے
بھری ہوئی تھی‘‘،،،
سلمان پل میں مجرم بن کے کٹیرے میں کھڑا ہوگیا‘‘،،،،(جاری)
|