بلاشبہ دنیا میں سارے انسان مفاد پرست ، خود غرض
نہیں ہوتے، بلکہ انسانیت سے بے لوث محبت رکھنے والے انسان بھی اس دھرتی پر
بستے ہیں۔ جو انسانیت کے تقاضوں پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہوکر انسان کا
سر فخر سے بلند کردیتے ہیں۔اس پر فتن دور میں بھی انسانیت کی فلاح و خیر
خواہی ، انسانیت سے محبت ،اور انسان دوستی کے لئے بے لوث خدمات سرانجام
دینے والے افراد قلیل تعداد میں ہی سہی، مگر موجود ہیں۔ اور درحقیقت معاشرہ
ان ہی نیک سیرت و مخلص کردار لوگوں کی وجہ سے ہی قائم و دائم ہے۔ اگر
دنیاسے انسانیت کے خیر خواہ بالکل ختم ہوجائیں تو جنگل کے سے معاشرتی نظام
کے باعث پرامن و فلاحی معاشرہ کا وجود ناممکن ہوجائے ۔ اقوام متحدہ کے زیر
اہتمام مختلف سماجی تنظیموں کے تعاون سے پاکستان سمیت دنیابھر میں ، ہرسال
انیس اگست کا دن انسان سے دوستی کے عالمی دن(World Humanitarian Day)کے طور
پر اس عزم کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ انسانی فلاح و بہبود کے لئے بے لوث
جذبے کے تحت کام کرنے والے افراد، امدادی کارکن اور اداروں کی خدمات کو
سراہا جائے گا، انسانی فلاح و بہبود کے لئے متحرک افراد کا خیال رکھا جائے
گا۔ اور انسانی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والے امدادی کارکن کی خدمت کے
اعتراف میں ہرممکن حوصلہ افزائی کی جائے گی ، تاکہ لوگوں میں انسانیت کی
خدمت اور انسانوں سے دوستی و خیر خواہی کا جذبہ مذید پروان چڑھے ۔ اقوام
متحدہ کی جانب سے ہر سال انسان دوستی کا عالمی دن منانے کا فیصلہ 2008ء میں
کیا تھا، جس کے بعد سے اس دن کو پاکستان سمیت دنیابھر کے بیشتر ممالک میں
انتہائی جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے ۔
انسانیت سے دوستی اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے خدمات سرانجام دینے
میں مسلمانوں کی ذمہ داری اور قوموں اور طبقوں سے زیادہ ہے کیونکہ ہمارے
مذہب اسلام کا بنیادی درس ہی فلاح انسانیت و خیر خواہی ہے ۔انسانوں کی بے
لوث خدمت کے لئے مسلمانوں کی انسان دوستی، ان کے بیش قیمت جذبوں کی ترجمانی
کا فریضہ سر انجام دیتی ہے اور انہیں دوسرے انسانوں سے ممتازکرتی ہے۔ اسلام
انسان دوستی اور عظمت انسانیت کا سب سے بڑا علمبردار ہے ، جو کہ نفرت اور
قتل و غارت نہیں بلکہ امن و سلامتی اور محبت کا درس دیتا ہے۔ اگر معاشرے کو
انسان کے لئے مفید بنانا ہے تو اس کا طریقہ فقط یہی ہوسکتا ہے کہ ہر انسان
دوسروں کے کام آئے ، اور ہردوسرے انسان کی بھلائی کی کوشش کے لئے ہر وقت
متحرک رہے۔ اسی مقصد کی تکمیل کے لئے اﷲ ربّ العزت نے تمام مسلمانوں کو ایک
دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے ۔سنن ابوداود کی حدیث میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم کا ارشاد گرامی ہے’’ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہے۔اور ایک مومن
دوسرے مومن کا بھائی ہے، ضرر کو اس سے دفع کرتا ہے،اور اس کی پاسبانی اور
نگرانی کرتا ہے۔‘‘ معاشرے میں موجود غربت ،مایوسی، فکرمعاش ، احساس محرومی
، مہنگائی، ناگواری کی کیفیت،اور معاشرتی ناہمواریاں تیزی سے لو گوں میں
ذہنی دباؤ اور افسردگی کا باعث بن جاتی ہیں، ان گھمبیر حالات میں انسانیت
سے محبت رکھنے والے افراد کی جانب سے فلاح انسانیت کے لئے فراہم کی جانے
والی خدمات کٹھن حالات کو بھی آسان کردیتی ہیں ۔
وہ لوگ واقعی بڑے باہمت، قابل دادو ستائش ہیں جو دوسروں کے لیے اپنا وقت
نکالتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اگرچہ کم ہیں،
لیکن ہیں ضرور۔وقتاً فوقتاً درد دل رکھنے والے افراد کے انسانوں کے لیے
قربانیوں کے واقعات سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود انسان کو فی زمانہ
جتنی انسانیت کی ضرورت آج ہے، شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔ ہر انسان اگر یہ
عہد کر لے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق جہاں ضرورت پڑے اور موقع ملے تو
ضرور دوسروں کی مدد کرے گا، مجبور اور ضرورت مند لوگوں کی چھوٹی بڑی
ضروریات حل کرنے میں تعاون کرے گا۔ کسی غریب طالب علم کی تعلیم کا خرچ، کسی
غریب کی بیٹی کی شادی کا خرچ، کسی بے روزگار کی نوکری کا انتظام، کسی غریب
بیمار کے علاج کا انتظام اور موقع ملنے پر ہر ایسا کام کرے گا، جس سے کسی
انسان کی ضرورت پوری ہوتی ہو، یقین کیجیے اس عمل سے دنیا بدل جائے گی ،دنیا
میں سکون ہی سکون کا راج ہوگا اور محبت کی حکمرانی ہوگی۔ دوسروں کی مدد
کرنا نا صرف دوسروں کے لیے ہی فائدہ مند ہے، بلکہ اس سے مدد کرنے والے کو
بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے، دنیا و آخرت کی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ عجیب پرکیف
ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے ،یہ بات وہی لوگ جانتے ہیں جوخدمت خلق کی مثالی لذت
کو محسوس کرچکے ہیں۔ دہشتگردی کی لہر ہو، نسلی فسادات یا دیگر سانحات،
انسانیت سے محبت کرنے والے خیر خواہوں کا بے لوث کردار ہمیشہ سے نہایت
اہمیت کا حامل رہا ہے۔ بہت سے انسان دوستوں نے جذبہ خیرخواہی میں اپنا
روزگار، مال و دولت سب کچھ گنوادیا، مگر جذبہ خدمت خلق کو نہیں چھوڑا ۔یہاں
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری حکومت خدمت خلق کے جذبے سے سرشار لوگوں کی
سرپرستی و معاونت کرے۔ غور طلب بات ہے کہ دہشتگردی و سانحات میں ہلاک ہونے
والے افراد کے لواحقین کو حکومت کی جانب سے امداد مل جاتی ہے مگر کوئی رضا
کار اس سانحہ میں وفات پاجائے تو اس کے ورثاء امداد سے محروم رہتے ہیں لیکن
پھر بھی انسانیت سے خیر خواہی کا جذبہ ان میں موجود رہتا ہے، کیونکہ
انسانیت کے یہ عظیم دوست جانتے ہیں کہ اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اصل جینا
دوسروں کے لئے جیناہے ، بلاشبہ یہی راحت بھری حقیقی زندگی ہے ۔ |