تحریری ورثہ ہو،روایات و رواجات کی وراثت ہو یا قدیمی اور
تاریخی مقامات،ان کی فکر کرنے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس خطے میں انسانی
نظام قائم ہے یا نہیں۔منفی رجحانات میں ملوث خطوں میں اس طرح کی چیزوں ،باتوں
کو اہمیت نہیں دی جاتی جس سے وہ خطہ بتدریج اپنے قیمتی تاریخی و ثقافتی
ورثے سے محروم ہو جاتا ہے۔دنیا کی ہر مہذب قوم تاریخی اورثقافتی ورثے کی
دریافت اور اس کے تحفظ پر بھر پور توجہ دیتی ہے ۔جنوبی ایشیا میں آثار
قدیمہ کی تمام تر دریافت انگریزوں کے ہاتھوں ہی ہوئی۔پسماندہ،ترقی پذیر
ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی اس شعبے پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی اور اس
شعبے پر ضرورت کے مطابق فنڈز خرچ نہیں کئے جاتے۔آزاد کشمیر میں آرکیا لوجی
کا شعبہ قائم تو ہے لیکن محض علامتی طور پر۔وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فارو
ق حیدر خان آزاد کشمیر میں سیاحت کے فروغ کے اقدامات پر توجہ تو دے رہے ہیں
لیکن اس حوالے سے درپیش کئی مشکلات کی وجہ سے آزاد کشمیر میں سیاحت کے فروغ
کے پائیدار اقدامات نہیں ہوئے۔خوبصورت،صحت افزاء مقامات کے ساتھ ساتھ سیاح
خاص طور پر آثار قدیمہ اور تاریخی مقامات میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن آثار
قدیمہ اور تاریخی مقامات کی ابتر حالت کی وجہ سے آزاد کشمیر سیاحت کے اس
اہم موضوع سے محروم ہے۔ آزاد کشمیر میں کوہالہ پل عبور کر کے مظفر آباد کی
جانب برسالہ کے مقام پر سڑک کنارے واقع ریسٹ ہائوس میں قائد اعظم محمد علی
جناح نے مختصر قیام کیا تھا۔ اس ریسٹ ہائوس کو سابق وزیر اعظم سردار سکندر
حیات خان کے دور حکومت میں تاریخی مقام کا درجہ دیا گیا۔اس ریسٹ ہائوس میں
قائد اعظم محمد علی جناح کی کئی تصاویر بھی آویزاں کی گئی ہیں۔
گزتشتہ دنوںایک عزیز نے بتایا کہ مظفر آباد میں دریائے جہلم پر واقع تاریخی
دومیل پل کے ساتھ تعمیر شدہ مہاراجہ رنبیر سنگھ کی بارہ دری پر اس کے
افتتاح کا اصل پتھر فارسی زبان میں تحریر شدہ تھا۔ آج بہت عرصہ کے بعد وہاں
جانا ہوا تو یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ وہ خوبصورت اور تاریخی اہمیت کے
حامل وہ پتھر وہاں سے غائب کر دئے گئے ہیں اور ان کی جگہ عام سے ماربل کے
پتھر اردو میں لکھوا کر وہاں نصب کئے گئے ہیں ۔حیرت ہے کہ کسی نے اس قیمتی
ورثہ کی چوری کا کوئی نوٹس نہیں لیا ۔اسی طرح آج سے 25 سال پہلے میں شاردہ
گیا تو وہاں موجود قدیم تاریخی یونیورسٹی /مندر کے کھنڈرات پر کئی جگہ نقش
و نگار والے پتھر ،اور کچھ چہرے بنے ہوے پتھر وہاں لگے ہوے تھے۔ اب اسی سال
وہاں جانا ہوا تو یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ وہاں سے بھی یہ سب منعکش
پتھر اور ہندو دیوی دیوتائوں کے پتھروں پر بنے عکس وغیرہ والے تمام پتھر
غائب کئے جا چکے ہیں اور ان تاریخی اہمیت کے حامل بیش قیمت پتھروں کی جگہ
سادہ پتھر لگا دئے گئے ہیں ۔اس تاریخی ورثہ کی چوری کا بھی کسی نے نوٹس
نہیں لیا ۔ہمارا یہ رویہ اور بے حسی بہت افسوسناک ہے ۔ہمارے اس عزیز کو
آزاد کشمیر کے ان قیمتی نوادرات کی چوری کی فکر ہے لیکن شاید انہیں معلوم
نہیں کہ اطلاعات کے مطابق آزاد کشمیر میںکئی مندر اور ان کی زمینیں بھی
لوگوں نے اپنے نام الاٹ کر ا لی ہیں۔
نیلم ویلی کے شاردہ مقام پر قدیمی یونیورسٹی کے علاوہ آزاد کشمیر کے ایسے
ہی چند اہم مقامات میںباغ قلعہ،باغسر قلعہ بھمبر،مغل مسجد بھمبر،ہاتھی گیٹ
بھمبر،سرائے سدا باد سماہنی، دربار بابا شادی شہید بھمبر،علی بیگ گردوارہ
بھمبر،دربار حاجی پیر حویلی،تھروچی قلعہ گلپور کوٹلی،بھرنڈ قلعہ سہنسہ
کوٹلی،دربار مائی طوطی صاحبہ کھوئی رٹہ کوٹلی،کھوئی رٹہ میں فوارہ اور
گارڈن کھوئی رٹہ کوٹلی،رام کوٹ قلعہ منگلا جھیل پار سکھیاں میر
پور،دربارکھڑی شریف میر پور،منگلا قلعہ،برجن قلعہ برجن میر پور،لال قلعہ
مظفر آباد،کالا قلعہ مظفر آباد،کو ہالہ پل مظفر آباد،قائد اعظم لاج برسالہ
مظفر آباد،شاردہ یونیورسٹی نیلم ویلی،شاردہ قلعہ،بارل قلعہ پلندری ،رانی
بولی (تاریخی جگہ)پلندری سدھنوتی،برناڈ قلعہ،ایون قلعہ اوررنبیر سنگھ
بارادری شامل ہے۔
چند سال قبل آثار قدیمہ کے پاکستانی ماہرین اور ریسرچ سٹوڈنٹس کی ایک ٹیم
نے آزاد کشمیر میں ایک تقریبا ایک سو تاریخی مقامات کی ڈاکو منٹیشن کی جو
بدھ،مغل،ڈوگرہ اور سکھ دور سے تعلق رکھتی ہیں۔آرکیاجی کے پاکستانی ماہرین
نے آزاد کشمیر میں واقع آثار قدیمہ کے مقامات کو خطرات کا شکار قرار دیا ہے
۔ٹیکسلا انسٹیٹیوٹ آف ایشئین سیویلائیزیشن (ٹی آئی اے سی)کے ڈائریکٹر ٹی
آئی اے سی محمد اشرف کے مطابق ایک سو بیس سال میں پہلی مرتبہ آزاد کشمیر کے
علاقوں میں واقع ایک سو تاریخی مقامات کو دستاویزی شکل دی گئی ہے۔ٹیکسلا
انسٹیٹیوٹ آف ایشئین یویلائیزیشن کے اس سروے میں آزاد کشمیر کے تھروچی
قلعہ،شاردہ قلعہ،چک قلعہ،برناڈ قلعہ،ایون قلعہ،رنبیر سنگھ برادری،علی بیگ
گردوارہ ( محمد یعقوب شہید گرلز ہائی سکول میں تبدیل) و دیگرچند تاریخی
مقامات کا جائزہ لیا گیا اوران مقامات کو ابتر حالت اور شکست و ریخت کا
شکارقرار دیاہے۔
|