گورنمنٹ کالج حیدر آباد کے قیام کو سو سال مکمل ہونے پر
حکومت سندھ نے اس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کا اعلان کیا جو ایک
مستحسن اقدام ہے۔یہ کالج سندھ کے قدیم کالجوں میں سے ایک ہے جو 1917قائم
ہوا ، یہ گورنمنٹ کالج پھلیلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ
سید مراد علی شاہ نے کالج کے قیام کے سو سال مکمل ہونے پر اس کالج کو
یونیورسٹی کا درجہ دینے کا اعلان کیااس مقصد کے لیے صوبائی وزیر تعلیم کو
یہ ذمہ داری تفویض کی گئی کہ وہ اس حوالے سے اپنی سفارشات پیش کریں۔ جمعہ
18اگست2017ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گورنمنٹ کالج حیدر
آباد نے اپنی تعلیمی خدمات کے کامیابی کے ساتھ 100سال مکمل کر لیے ہیں
لہٰذا یہ میرٹ اور اس کی تاریخی اہمیت کی بنیادوں پر اور اپنے شاندار
تعلیمی ریکارڈز کے پیش نظر یونیورسٹی کا درجہ پانے کا حقدار ہے۔ وزیر اعلیٰ
ہاؤس میں ہونے والے اس اجلاس میں سندھ حکومت سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات
نے شرکت کی جن میں وزیر اعلیٰ سندھ کے علاوہ صوبائی وزیر تعلیم جام مہتاب
ڈھر، سابق وفاقی سیکریٹری مظہر الحق صدیقی، قاضی اسد عابد، بابق ایمن پی اے
عبد الرحمن راجپوت، پروفیسر ادریس خان، پرنسپل سیکریٹری وزیر اعلیٰ سندھ
سہیل راجپوت، سیکریٹری یونیورسٹی اینڈ بورڈ نویدشیخ ، سیکریٹری کالجز پر
ویز سہڑ اور کالج کے پرنسپل پروفیسر نصیرالدین شامل تھے۔کالج کے سابق طلباء
کی انجمن نے 9اکتوبر تا 14اکتوبر2017کالج کی صد سالہ تقریبات منعقد کرنے کا
اعلان کیا جس میں وزیر اعلیٰ سندھ مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کریں گے۔
وزیر اعلیٰ نے دعوت قبول کرتے ہوئے تقریب میں کالج کو یونیورسٹی کا درجہ
دینے کااعلان کریں گے۔
سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد میں یونیورسٹی کے قیام کو سندھ بھر کے
عوام نے با لعموم جب کہ حیدر آباد کے عوام نے با لخصوص نہ صرف سراہا بلکہ
حکومت سندھ کے اس اقدام کو سندھ میں تعلیم کے فروغ کی جانب ایک مستحسن
اقدام قرار دیا۔حیدر آباد میں یونیورسٹی کی ضرورت طویل عرصہ سے محسوس کی
جارہی تھی۔حیدر آباد سندھ کادوسرا بڑا شہر ہے اس شہر کے باسی گزشتہ 70 سال
سے یونیورسٹی کے قیام کے طالب تھے ۔ ان کی اس دیرانیہ اورجائز خواہش کی
تکمیل کر کے حکومت نے سندھ کے شہری علاقے کو ایک خوبصورت تحفہ دیا ہے۔
بشرطیکہ حکومت کا یہ فیصلہ محض فیصلہ ہی نہ رہے بلکہ یہ عملی صورت اختیار
کر لے۔حیدر آباد شہر میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کی جانب ایک اہم قدم بھی
ہوگا۔اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ سندھ کی سابقہ حکومتیں اور سیاسی
جماعتیں جو اقتدار میں رہیں حیدر آباد سندھ میں یونیورسٹی کے قیام کی
جدوجہد کرتی رہی ہیں لیکن حیدر آباد سندھ کے عوام کی اس اہم علمی ضرورت کو
پائے تکمیل تک پہچانے سے قاصر رہیں جس کی بے شمار سیاسی وجوہ ہیں۔ یہ بات
بھی ریکارڈ پر ہے کہ ماضی میں جب بھی حیدر آباد شہر میں جامعہ کے قیام کی
آواز اٹھی مخصوص سوچ نے مخالفت میں نعرے بلند کیے، جو افسوس ناک تھے۔ کیا
کیا جائے ہمارے ملک کی سیاست ہی نرالی ہے یہاں سیاست داں مخالفت میں اس حد
تک چلے جاتے ہیں کہ جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی ۔ جیسے کسی بھلی سیاسی
شخصیت نے بغیر سوچے سمجھے کہہ دیا تھا کہ ’حیدر آباد میںیونیورسٹی ان کی
لاش پر ہی بن سکتی ہے ‘ ۔ مخالفت کی یہ کون سی قسم قرار دی جائے گی۔ بقول
ادریس بختیا ر’ تعلیم سے اتنا بغض ، اور اس کا بے محابہ اظہار ، ناطقہ سر
بگریباں ہے اسے کیا کہیے‘۔سندھ میں جو بھی رہتے ہیں پاکستانی ہیں ، اور یہ
وہ قدر مشترک ہے کہ اس کے علاوہ کوئی قدر ڈھونڈنا گویا شرک ہے، قومی وحدت
کے لیے ، سندھی ، پختون ،پنجابی ،بلوچی اور جن کی مادری زبان اردو ہے، یہ
پانچوں طبقے دراصل اردو بھی بولتے ہیں اور پکے کھرے پاکستانی ہیں، پھر فرق
کیا رہ گیاپانچوں میں شاید کوئی ، چھٹا ہے جو ان میں تفرقہ ڈال رہا ہے۔‘9
دسمبر2014ء میں سندھ اسمبلی سندھ میں تین جامعات کے بل متفقہ طور پر منظور
کرچکی ہے۔ یہ جامعات کراچی ، حیدر آباد اورتیسری یونیورسٹی بحریہ ٹاؤن
نوابشاہ میں ’ بے نظیربھٹویونیورسٹی ‘کے نام سے۔ اب گورنمنٹ کالج حیدر آباد
کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا کسی کو
کچھ علم نہیں، سندھ یونیورسٹی کے سابقہ قرارداد کا کیا بنے گا اس کے بارے
میں بھی کوئی اچھی امید نظر نہیں آتی۔حیدر آباد سندھ میں کبھی سندھ
یونیورسٹی ہوا کرتی تھی جسے حیدر آباد سے دور جام شورو منتقل کردیا گیا۔
حیدر آباد کے طلباء و طالبات طویل سفر کر کے جامشورہ ہی جارہے ہیں۔ شہر کی
وسعت اور تعلیمی ضرورت کو دیکھتے ہوئے یہاں ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ ایک سے
زیادہ جامعات کی ضرورت ہے۔ حیدر آباد کی آبادی ۲۰۱۲ء کی مردم شماری کے
مطابق 4.5ملین ہے ان میں60.07 فیصد شہری آبادی ہے ۔ ورلڈ پاپولیشن ریویو کے
مطابق 2017میں حیدر آباد کی آبادی 1,386,330بتائی گئی ہے۔ یہ شہر آبادی کے
اعتبار پاکستان کا چھٹا بڑا شہر ہے۔کراچی کے بعد سندھ کا سب سے بڑا شہر ہے۔
با وجود اس کے کہ کئی اہم سیاسی شخصیات کا تعلق اس شہر سے رہا اس کے باوجود
یہ شہر سرکاری جامعہ سے اب تک محروم رہاہے۔
حیدر آباد شہر ایک قدیم اور تاریخی شہر ہے۔ اس کا ماضی بڑا دلکش ہے کبھی
اسے ’سندھ کا پیرس ‘Paris of Sindhکہا جاتا تھا۔ جب یہاں کی شاہراہوں کو
خوشبو سے دھویا جاتا تھا اور روشنی کے لیے لگے ہوئے لیمپ جو شہر کے مختلف
جگہ لگے ہوئے تھے خالص گھی سے جلائے جاتے تھے۔ لیکن سب کچھ اس وقت ختم
ہوگیا جب 1843 میں برطانوی راج یہاں قائم ہوا۔پکہ قلعہ حیدر آباد کی شناخت
ہے، سندھ یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس کی بلڈنگ 1912 میں قائم ہوئی، گورنمنٹ
ہائی اسکول ، سابقہ رائے ہیرانند اکیڈمی 1900 میں قائم ہوئی، سول اسپتال
برطانوی راج میں ۴۹۸۱میں قائم ہوا، یہاں کا ریلوے اسٹیشن 1890 میں قائم
ہوا، کینٹونمنٹ (صدر) 1851 سے 1856 کے درمیان قائم ہوا، نور محمد ہائی
اسکول کی عمارت 1933 میں قائم ہوئی، سرکٹ ہاس 1912 میں اور ٹھنڈی سڑک شہر
کی اہم شاہرہ ہے جس کے دونوں جانب بڑے بڑے درخت ہیں جن کی بنیاد پر اسے
ٹھنڈی سڑک کہا جاتا ہے۔ حیدر آباد بعض باتوں کے لیے اپنا ثانی نہیں
رکھتا۔دن میں یہاں جس قدر بھی گرمی ہو اور گرم ہوائیں چلیں یہاں کی راتیں
ٹھنڈی تیز ہواؤں کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ ایشیا کا طویل ترین
بازار ’شاہی بازار‘ جو کلہوڑا حکمرانوں نے قائم کیا 4.5کلومیٹر لمبا ہے جو
مارکیٹ چوک سے شروع ہوکر قلعہ حیدر آباد پر ختم ہوتا ہے ۔ چوڑیوں کی تیاری
کے حوالے سے یہ یہاں دنیا کا سب سے بڑا بازار ہے۔ پورے پاکستان ہی میں نہیں
بلکہ بیرون ممالک بھی یہاں سے چوڑیاں درآمد کی جاتی ہیں۔ سندھ کا تحفہ اجرک
بھی یہاں کی پہچان ہے۔ یہاں پر قائم بمبئی بیکری کا کیک بہت مشہور ہے، پلہ
مچھلی یہاں کی خاص سوغات ہے۔ ایشیا کا سب سے بڑا ذہنی مریضوں کا اسپتال
’گدو‘ میں قائم ہے۔ یہ تمام چیزیں حیدر آباد شہر کی تاریخی حیثیت کو نمایاں
کرنے کے لیے کافی ہیں۔اس کے باوجود یہ تاریخی اور آبادی کے لحاظ سے وسیع
شہرطویل عرصے سے جامعہ سے محروم تھا ۔امید ہے موجودہ وزیر اعلیٰ سندھ سید
مراد علی شاہ جو از خود اعلیٰ تعلیم کی ڈگری سے آراستہ ہیں ، تعلیم کی
اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں وہ اپنے اس خواب کو کاغذوں کو منصوبہ نہیں بلکہ اس
منصوبے کو حقیقت کا روپ دے کر حیدر آباد کے باسیوں کو ایسا تحفہ دیں گے جو
ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ سندھ کے اس تاریخی شہر نے کئی اہم اور معروف
شخصیات کو جنم دیا ان میں ڈاکٹر، انجینئر، ماہر قانون ، پروفیسر، شاعر،
ادیب، محقق، براڈ کاسٹر،سی ایس پی آفیسر ،صحافی شامل ہیں۔ان اہم شخصیات میں
ڈاکٹر غلام مصطفی خان، ڈاکٹر عشرت حسین، سابق چیف جسٹس ناظم الدین صدیقی،
ڈاکٹر الیاس عشقی، حیدر بخش جتوئی، علامہ آئی آئی قاضی، قاضی محمد اکبر،
قاضی عبدالمجید عابد، غلام محمد گرامی، نواب مظفر حسین، میر علی احمد
تالپور، میر رسول بخش تالپور، مرزا خلیج بیگ، میراں شاہ، حکیم شمس الدین
شامل ہیں۔گورنمنٹ کالج حیدر آبادکی عمارت وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ہوئی
ہے۔ یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوجانے کے بعد اس میں اور زیادہ وسعت ہوگی جو
یونیورسٹی کے تعلیمی ضروریات کو احسن طریقے سے پورا کرے گی۔ |