کوئی کام ہو تو ضرور بتانا ...!

ٹیلی ویژن روم میں بیٹھا ہوا اور ہاتھ میں ریموٹ تھامے ہوئے مختلف چنیلز چینج کرہا تھا لیکن کوئی چینل آنکھ کو بھا نہیں رہا تھا بس یوں ہی اچانک سے نیشنل جیوگرافک چینل پر من لگ گیا، لہذادیہاتی ہونے کے ناطے جانوروں کو دیکھنے میں بڑی دلچسپی رہتی ہے ،چینل پر شیر کے شکار کی فلم دکھائی جارہی تھی تین چار شیر بلکہ شیرنیا ں اکھٹی ہوکر کسی سانڈ کو پچھاڑ رہی تھیں بس چند ہی لمحوں میں وہ سانڈ پورا تکہ بوٹی بن گیا . تاہم شیروں کا یہ غول کبھی کسی ہاتھی یہ گینڈے پر حملہ کرنے کی حماکت نہی کرتا حالانکہ شیر جنگل کا بادشاہ کہلاتا ہے اسی جانور شناسی کی وجہ سے غالباً انسان نے شیر کو جنگل کے بادشاہ کا لقب دیا ہے تاہم طاقت تو دریائی گھوڑے میں بھی کم نہی ہوتی اور دوسری سب سے بڑی وجہ شیر کی بارعب شخصیت ہے .شیر جب ہرن پر حملہ کرتا ہے تو اس وقت ہرن کے دماغ میں موت سے بچنے کے لئے کوئی باقاعدہ پلان تشکیلنہیپاتا بلکہ اضطراری ردعمل کے نتیجہ میں ہرن بھاگنا شروع کر دیتا ہے اور یہی سوچ کر وہ مسلسل بھاگتا ہے کے شیر اسے پا نہ سکے کیوں کہ جانوروں کو بھی زندگی کی سمجھ بوجھ ہوتی ہے لیکن جبلی طور پر، خطرے کی بو پا کر وہ بھاگتے ضرور ہیں لیکن یہ بھاگنا بھی زندگی بچانے کے کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نہی ہوتا بلکہ ایک غیر اختیاری ردعمل کے طور پرہوتا ہے .انسان اور جن وہ واحد مخلوق ہیں جنکے ذہن میں موت کا مکمل تصوّر اور خاکہ موجود ہے اس اٹل حقیقت سے کوئی جاہل ،وزیر ،بادشاہ ، رئیس، نواب،ولی الّا کہ ہر کوئی اچھے سے آشنا ہے ، زندگی اور موت انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتی تو دنیا کی آسائشوں کو پانے کی خواہش انسان میں اس قدر شدید نہ ہوتی ،موت کے اس واضح تصوّر کی وجہ سے انسان کو اپنوں کے بچھڑ نے کا غم بھی بڑا شدید ہوتا ہے.جانوروں میں کوئی مرتا ہے تو اسکا جنازہ پڑھانے کوئی متّقی جانورآتا ہے نہ ہی کوئی پرسہ دینےآتا ہے سب ایک دوسرے کی شکل دیکھ کر جنگل میں مارے مارے پھرنے لگتے ہیں کوئی گھاس کھانے میں مشغول ہوجاتا تو کوئی درخت پر چڑھ جاتا ہے اور شیر پھر سے تکہ بوٹی کی لذّت میں کسی ہرن یہ سانڈےکی تلاشکے لئے ہوا کی دوش کو سونگھنا شروع کرتا ہے کیوں کہ زندہ رہنے کے لئے انسانوں والی ذہانت تو درکار ہوتی نہیں .

معلوم نہی کیوں کچھ عرصے سے ہمارے معاشرہ نیشنل جیوگرافک چینل میں دکھائے جانے والے اس جنگل جیسا لگنے لگا ہے کسی کی موت پر ابھی بھی جنازہ پڑھایا جاتا ہ ہے ، غم کی شدّت کو کم کرنے کے لئے اپنے سینوں کو کسوٹا جاتا ہےاور تعزیت پر پرسہ بھی دیا جاتا ہے مگر افسوس یہ ہے کے ہم کچھ زیادہ ہی نارمل ہوگئے ہیں ادھر کسی کی موت کی خبر ملی تو ہم نے ایک منٹ ( شاید یہ بھی کچھ زیادہ ہوگیا ) تک افسوس کیاوہ بھی جانوروں کی طرح اپنی زبان کی چوٹی کو موںکےاندرلقنتوالی جگہ پر تین سے چار بار ٹکرا ٹکرا کرتے ہیں مطلب ہمارے افسوس کرنے کا طریقہ بھی کچھ عجیب سا ہوگیا ہے اور پھر چند لمھوں بعد وہاں سے نورا بھائی اپنے سٹائل میں "ہوربھئی کی حال ہے "کہہ کر سارا موضوع بدل دیتا ہے اور ادھر سے جمال ماما بھولے سے کہہ دیتے ہیں " بیٹا اگر کوئی کام ہو تو ضرور بتا ئیگا" مگر اسکا قطعی مطلب نہیہوتا کہواقعی میںاگر کوئی کام ہوا تو آپ نے مجھے کہنا ہے. بحرکیف ہم انسانوں میںتغیراتی عمل جاری ہیں جو کے ہم جانوروں سے tpoda کر رہے ہیں ہم بس اپنے ہی غم کو حقیقی تکلیف سمجھ کر محسوس کرتے ہیں کسی غیر کی تکلیف اور درد کومحسوس کرنے کا حس ہم انسانوں میں مر چکا ہے خدارا اپنے اس حس کو جگانا ہوگا اور اپنے معاشرے کو جانوروں کے جنگل سے الگ کرکے اور تمیز کے دائرنے میں رهتے ہوئے کسی انسان کیتکلیف ،دکھ اور درد کو اپنا دکھ درد سمجھ کر بانٹنا ہوگا کیوں کہ الله رب العزت نے ہم انسانوں کو انھی چند خصوصیا ت کی وجہ سے باقی تمام تر مخلوقات پر فوقیت عطآ کی اور اشرف المخلوقات کا درجہ دیا .
 

Shoaib Rohaan
About the Author: Shoaib Rohaan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.