طلاق ثلاثہ کا حل عدالت عالیہ نہیں شرعی پنچایت ہے۔

کرنل پروہت کی ضمانت کے بعد تین طلاق کے مسئلہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ حزب توقع ہے۔ فرقہ پرست اسلام دشمن عناصراس کو ہندوتوا کی بہت بڑی فتح قرار دیں گے ۔سچ تو یہ ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ اسی طبقے کو خوش کرنے کے لیے کرایا ہے آگے چل کر وہ ایوان میں ایک قانون بنادے گی جو طلاق ثلاثہ کے خلاف ہوگا۔ اس قانون سے ہندو فرقہ پرستوں کا کوئی فائدہ تو نہیں ہوگا ممکن ہے وہ طبقہ بلاسبب خوش ہوکر موجودہ سرکار کی بدعہدیوں و ناکامیوں کو بھول جائے اور پھر سے اس کو ووٹ دینے کی غلطی کر بیٹھے ۔ بے دین اسلام دشمن اس کو شریعت کے حامیوں کی شکست قرار دے کر بغلیں بجائیں گےحالانکہ اس کے نتیجے میں امت ان سے اور زیادہ بیزار ہوجائیگی ۔ ویسے بھی ان کا اثرو رسوخ بہت کم ہے اس لیے کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ امت کا وہ دیندار طبقہ جو طلاق ثلاثہ کا شدیدمخالف ہے ان میں سے کچھ لوگ یہ کہہ کر انتشار پھیلائیں گے کہ ہم نے پہلے ہی کہا تھا اور جو لوگ شرعی معاملات میں حکومت کی دخل اندازی کو مضر سمجھتے ہیں وہ فکر مند ہوجائیں گے ۔

سوال یہ ہے کہ اب آگے کیا ہوگا؟ سپریم کورٹ نے شاہ بانو کے معاملے میں شریعت کے خلاف فیصلہ کیا تھا ۔ اس کے بعد حکومت نے ایک قانون وضع کیا جس کی رو سے طلاق کے بعد نان نفقہ کو شریعت کے خلاف قرار دے دیا گیا لیکن اس میں یہ شق رکھی گئی کہ اگر شوہر اور بیوی دونوں شریعت کے بجائے دستور ہند کے مطابق فیصلہ کرانا چاہیں کے تو اس کی انہیں اجازت ہوگی۔ فروری میں حکومت نے یہ عندیہ دیا تھا اگر عدالت کا فیصلہ طلاق ثلاثہ کے ھق میں آتا ہے تو ایوان میں قانون بنائے گی ۔ اس عدالت نے خود حکومت سے قانون بنانے کی استدعا کردی ا ب جو قانون بنے گا اس میں تین طلاق غیر دستوری ہوگی اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف بیوی عدالت سے رجوع کرکے اسے سزا دلواسکے گی ۔ ایسے میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ عدالت خود سے اپنا فیصلہ نافذ کرنے کے لیے کسی فریق کے گھر نہیں آتی بلکہ اس کوخود عدالت دروازے پر دستک دینی پڑتی ہے۔ پہلے یہ تھا کہ اگر کوئی عائلی معاملات میں شریعت کی خلاف ورزی کرتا تھا تو عدالت اس کو شریعت پر چلنے کے لیے مجبور کرتی تھی اب وہ مجبوری ختم ہوجائیگی ۔

اسلام دراصل برضا و رغبت اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کا نام ہے ۔ ارشادِ خداوندی ہے ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہوئے، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں‘‘ ۔ تم میں سے صاحبِ امر کااطلاق کم ازکم اس عدالت پر تو نہیں ہوسکتا جو شریعت کے خلاف فیصلے سناتی ہو۔ اطاعت و فرمانبرداری کا حکم زن و شو دونوں کو ہے لیکن اگر ان کے درمیان کوئی تنازعہ پیدا ہوجائے تو آگے فرمایا گیا ’’پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے‘‘(سورہ نساء ۵۹)۔ اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیرنے کا مطلب شریعت سے رجوع کرنا ہے اس لیے کہ اسے قرآن وحدیث کی روشنی میں مرتب کیا جاتا ہے۔

شریعت کی پابندی ویسے دین کا تقاضہ ہے مگر دستور ہند بھی عائلی معاملات مسلمانوں کو اس کی اجازت دیتا ہے ۔ اب مسلمانوں کو یہ طے کرنا ہے کہ وہ اسلام پر اللہ کے ڈر عمل کرنا چاہتے ہیں یا عدالت کے خوف سے۔ پہلے تو کورٹ بھی مسلمانوں کو شریعت پر چلنے میں مدد کرتی تھی مگر اب ایسا نہیں ہوگا۔ ویسے اگرمیاں بیوی دونوں اسلام کی پیروی کرنا چاہیں تو انہیں کوئی روک بھی نہیں سکتا۔ اس صورتحال میں جولوگ خود اپنی شریعت سے روگردانی چاہتے ہیں ان کو قانون سے مدد مل جائیگی ۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ارشادِ ربانی ہے ’’ اے نبیؐ! تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اُس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں، مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں، حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا شیطان انہیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے(سورہ نساء ۶۰)۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اول تو مرد غیراسلامی طریقہ سے طلاق نہ دے اور اگر وہ ایسا کربیٹھتا ہے تو عورت اس کے خلاف عدالت سے رجوع نہ کرے ۔ اس لیے کہ اگر مرد اس کو چھوڑنا ہی چاہتا ہے تو چار ماہ بعد اس کی طلاق ہوجائیگی یا کئی سال عدالتوں کا چکر کاٹنے کے بعد اس کی طلاق ہوجائیگی اس لیےاگر وہ چاہے تو عدالت کو شریعت میں مداخلت کرنے سے روک سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر اگر مسلمان مرد غیراسلامی طریقہ سے طلاق دینے کی اپنی عادت سے باز نہیں آتے اور خواتین اس کو لے کر عدالت کا دروازے پر دستک دیتی ہیں تو عدالت مداخلت کرے گی ۔ ممکن ہےشوہر کو سزا بھی ہوجائے لیکن جلد یا بدیر طلاق تو واقع ہوجائیگی۔ طلاق معاشرے کی ناگزیر ضرورت ہے اس لیے اسے حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ قرار دیا گیا لیکن حرام نہیں کیا گیا۔ ہم دیکھ رہے ہیں جس معاشرے نے اس پر پابندی لگانے کی یا مشکل بنانے کی کوشش کی گئی اس میں بیوی کو جلا کر مارنے کے واقعات عام ہوگئے۔ مسلمان بھی اگر طاغوتی عدالتوں سے رجوع کرکے شیطان کے ساتھ دور نکل جانا چا ہتے ہوں تو اس کا وبال ان کے سرہوگا۔

یہ کوئی بہت مشکل مطالبہ نہیں ہے ہندو کوڈ بل میں بھی بہت سارے مسائل ہیں ۔ اس کے خلاف شاذونادر ہی کوئی عدالت سے رجوع کرتا ہے اور جب کبھی اس کے خلاف عدالت کا فیصلہ ہوتا ہے اسے اس طرح اچھالا نہیں جاتا جیسا کہ اسلامی شریعت کے ساتھ ہوتا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہندو سماج اس فیصلےکے خلاف میدان میں نہیں اترتا۔ ان کو اپنی شریعت سے کوئی لگاو نہیں ہے اور نہ وہ اس کے مبنی بر حق ہونے پر ایمان رکھتے ہیں ۔ سچے اور پکے مسلمان شریعت کی پابندی کو اپنے دونوں جہان کی کامیابی کا ضامن مانتے ہیں لیکن ان میں جن لوگوں کا ایمان ڈھل مل ہے ان کے بارے میں فرمایا گیا ’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اُس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آؤ رسول کی طرف تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمہاری طرف آنے سے کتراتے ہیں(سورہ نساء ۶۱) ۔

تین طلاق کے معاملے جب سرکاری شرارت کا آغاز ہوا تو مسلمانوں کے اندر بڑے پیمانے پر شریعت کے حوالے سے بیداری پیدا کی گئی اور ساتھ ہی مختلف علاقوں میں شرعی پنچایتیں قائم کی گئیں۔ شریعت تحریک کے دوران مسلمانوں کے سوادِ اعظم نے شریعت پر عمل درآمد کا عہد کیااب اس عہد کی بجاوآوری کا وقت آگیا ہے۔ اگر مسلمان نکاح و طلاق کے معاملات میں کوئی اقدام کرنے سے قبل شریعت کی رہنمائی حاصل کرکے اس کی بجاآوری کریں تو یہ مسائل پیدا ہی نہ ہوں گے نیز اگر کسی فریق سے کوتاہی سرزد ہوجائے توفریقِ ثانی عدالت میں جانے کے بجائے شرعی پنچایت سے رجوع کرے گا تو مسئلہ بحسن و خوبی حل ہوجائے گا ۔یہ دونوں مواقع جو لوگ گنوادیں گے ان کو عدالت دین کی خلاف ورزی سے نہیں روکے گی بلکہ تعاون کرے گی۔اس لیے وقت کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ مسلمان اپنے عائلی معاملات میں عدالت، دستور اور سیکولرزم وغیرہ کے کمزور سہاروں کو چھوڑ کر اپنے ادارے قائم کریں اور ان ذریعہ عدل و انصاف کے نمونے پیش کریں ۔

اللہ کی کتاب اسلامی شریعت کی شرح صدر کے ساتھ پابندی کرنے والوں کو بشارت دیتی ہے اور اس معاملے میں کوتاہی کرنے والوں کے ایمان پر سوالیہ نشان کھڑا کردیتی ہے ۔ فرمایا ’’نہیں، اے محمدؐ، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں (سورہ نساء ۶۵)۔ اس صورتحال میں اگر مسلمان کشادہ دلی کے ساتھ رضائے خداوندی کی خاطر اپنی شریعت پر عمل پیرا ہوں اور غیراسلامی عدالتوں سے اجتناب کریں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کو دین سے دور نہیں کرسکتی ورنہ لاکھ قوانین بن جائیں مسلمان دنیوی سکون اور اخروی فلاح سے ہمکنار نہیں ہوسکتے۔ کرنل پروہت کی ضمانت نے ایس آئی ٹی کو پابندو سلاسل کرکے انتظامیہ (این آئی اے) کے اوپر سے عوام کا اعتماد متزلزل کردیا اور عدالت بھی شکوک شبہات کے دائرے میں گھر گئی۔ایسا لگتا ہے بی جے پی کی حکومت جاتے جاتے آئینی اداروں کا وقاراوراعتبار بھی اپنے ساتھ لے کرجائیگی ۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451008 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.